ارتقاء
تصوف میں اس لفظ سے مراد ہواکرتی ہے ارتقائے نفس ناطقہ انسانی بمراتب عالیہ۔دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ طفلِ شیر خوار شیرمادر سے پرورش پاتاہے اور اپنی ماں کے پاس گہوارہ میں محبوس رہتاہے۔ جب بڑا ہوتاہے تو ماں سے جدا ہوکر باپ کی تربیت میں آتاہے، اور سفر اختیار کرکے تحصیل علوم میں منہمک ہوتاہے، اور مراتب عالیہ پر فائز ہوتاہے۔
اسی طرح روحانی طفلِ شیر خوار جس نے نفسِ ناسوتی سے خلاصی نہیں پائی شیرِ مالوفاتِ طبع پیتا ہے یعنی آثارِ رشد اس میں نمودار ہوتے ہیں اور نیک وبد کی تمیز اس میں پیدا ہوجاتی ہے تو وہ سفرِ معنوی اختیار کرتاہے اور کسبِ امورِ صورومعنوی میں مشغول ہوتاہے۔ تحصیلِ علم حقائق کے بعد مادرِ طبیعت سے اسے بعد ہوجاتاہے اور پدرِ علوی سے اسے قرب حاصل ہوتاہے۔ پھر وہ مراتبِ عالیہ پر فائز ہوتاہے۔
عناصرِ اربعہ مرتبۂ سفلی رکھتے ہیں اور مثل ماں کے ہیں۔ افلاک علوی ہیں اور باپ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے ازدواج سے انسان پیداہوتاہے۔ اسی ارتقاء میں نسبِ مجازی کوئی چیز نہیں:
بندۂ عشق شدی ترکِ نسب کن جامیؔ
کہ دریں راہ فلاں ابنِ فلاں چیزے نیست
وہ نسبت جو شہوت سے حاصل ہوبجز کبر و نخوت کے کچھ اور پیدا نہیں کر سکتی ۔ شہوت کو درمیان سے نکال دو تو جملہ انساب فسانہ ہوجاتے ہیں۔ ان افسانوں میں مقید رہنا کمالِ انسانی پر پہنچنے سے مانع آتاہے کیونکہ کمالِ انسانی عالم تجّرد اور مقامِ اطلاق سے متعلق ہے۔ انسان کا مقصدِ اصلی معرفتِ الٰہی ہے جس کا حصول حجابِ خودی دور ہوئے بغیر ممکن نہیں۔
فِاِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلَا اَنسَابَ بَینَھُم یَومَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَاءَ لُونَ۔ (المومنون۔ع ۶)
جس دن صور پھونکا جائے گا اس دن نہ ان میں آپس میں کوئی نسب قائم رہے گا اور نہ ان سے اس بارے میں کوئی پرسش ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.