Sufinama

مثال

فرض کرو کہ زید ایک انسان ہے۔ اب زید کے پہچاننے کی کوشش کرو کہ زید کس چیز سے مراد ہے۔ ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک، کان وغیرہ کا مجموعہ، زید نہیں۔ یہ جسمِ عنصری تو ایک مکان ہے جس میں زید مقیم ہے۔ مکان ومکین ایک نہیں ہوسکتے۔ اگر زید بلا حس و حرکت پڑا ہے، نہ تمہیں دیکھتاہے نہ تمہاری سنتا ہے نہ تم سے کلام کرتاہے، کروٹ تک نہیں لیتا، نبضیں اس کی ساقط ہیں، دل کی حرکت اس کی بند ہے تو تم اسے زید ہر گز نہ کہو گےبلکہ زید کی نعش کہو گےاور یہ کہو گے کہ زید تو مرگیا اور اللہ کے پاس گیا یا دارالآخرت کی جانب منتقل ہوگیا۔ گویا یہ جسم عنصری جو تمہارے سامنے پڑا ہے تمہارے نزدیک بھی زید نہیں ۔ لیکن بنض میں حرکت ہے تو تم نتیجہ نکال لیتے ہو کہ زید زندہ ہے۔ اگر وہ زندہ ہے اور اسے اپنا اور اپنی قوں کا اور تمہارا علم ہے اس میں تمہیں دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ تمہارے دیکھنے کا ارادہ کرتاہے چنانچہ وہ اپنی قوت بینائی کو اپنے مکان کی ان کھڑکیوں میں سے جنہیں تم آنکھ کہتے ہو تم پر پھینکتاہے یا بالفاظ دیگر وہ اپنی صفت بینائی کی تم پر تجلی کرتاہے اور تم دیکھ لیتے ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہےپھر وہ تم سے باتیں کرنے کا ارادہ کرتاہے تو اپنی قدرت کلام کو زبان کی وساطت سے تمہارے کانوں پر ڈالتاہے۔ یہ اس کی تجلیٔ کلام ہے۔ پھر وہ تمہاری باتوں سے سننے کے لئے اپنی قدرت سماعت کو اپنے کان کی کھڑکیوں کی جانب رجوع کرتاہے تو معلوم کرلیتے ہو کہ وہ تمہاری باتیں سن رہاہے۔ تم اس کی ان تمام حرکاتِ صفاتی سے پہچا ن لیتے ہو بلکہ اس کے دیکھنے اور سننے اور کلام کرنے کو دیکھتےہو۔اس کی حیات کو بھی تم نہیں دیکھتے بلکہ اس کی حیات کا جو اثر بنض وغیرہ پر پڑتا ہے اسے دیکھتے ہو۔ ان تمام باتوں سے تم نیتجہ نکال لیتے ہوکہ زید موجود ہے لیکن زید کو اپنی ہستی کا جو ذاتی احساس ہے وہ تمہیں اس کے متعلق مطلق نہیں۔ تمہیں ذاتی طور پر صرف اپنی ہی ہستی کا احساس ہے نہ کہ زید کی ہستی کا ۔ زید کی قوتیں جو زید کی ذات میں پہلے پوشیدہ ہیں عمل میں آتی ہیں۔ ان قوتوں کے آثار یعنی ان قوتوں کے نتائج کو دیکھ کر تمہیں ان قوتوں کا علم ہوتاہے اور ان قوتوں سے تمہار ذہن اس کی اس ذات کی جانب منتقل ہوجاتاہے جس میں وہ قوتیں پوشیدہ ہیں۔ بس اس سے زیادہ ادراک تمہیں زید کی ذات کے متعلق نہیں ہوسکتا۔زید کی ان قوتوں کو زید کے اسماء وصفات قرارد دو تو یہی کہا جائے گا کہ زید کی ذات پر زید کے اسماء وصفات کےپر دے پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر دوں پر اسماء وصفات کے آثار کے نقش ونگار ان پردوں کو نمایاں کئے ہوئے ہیں۔

اسی پر حق تعالیٰ کی ذات کا اسماء وصفات کے پردہ میں پوشیدہ ہونا قیاس کرلو ۔ فرق یہ ہے کہ زید ایک جسم میں مقید ہے اور حق تعالیٰ جسمیت اور مکانیت سے پاک ومنزہ ہے۔ زید اپنی قوتوں کو عمل میں لانے کے لئے ہاتھ پیر، آنکھ، منہ زبان وغیرہ کا محتاج ہے اور حق تعالیٰ کسی کام میں کسی آلہ کا محتاج نہیں۔ مادہ ،مدت ،غرض ،مقصد، حرکت اور قوت سے بھی وہ مستغنی ہے۔

ایک اور بات قابلِ ٖغور ہے۔ زید کی قوتِ سماعت زائل ہوجائے یا اس کی بینائی جاتی رہے یا اس کے ہاتھ پیر کٹ جائیں تب بھی زید زید ہی رہے گا۔ بچپن میں اس کے جسم عنصری کے جو اجزا تھے وہ جوانی میں نہ رہے،جوانی میں جو اجزا تھے وہ پیرانہ سالی میں متغیر ہوگئے مگر ذات میں فرق نہ آیا۔ نہ صفات کے تکثّر سے ذات کی وحدت میں کوئی فرق آیا، نہ صفات کے تغیر و تبدل سے ذات میں کوئی تغیر واقع ہوا۔

زید چونکہ بینائی کے لئے آنکھ کا محتاج ہے اور سماعت کے لئے کان کا، اس لئے اس کی آنکھوں کے جاتے رہنے سے یاا س کے کانوں میں خلل ہونے سے تم کہتے ہو کہ اس کی بینائی جاتی رہی یا وہ بہرا ہوگیا لیکن حق تعالیٰ اپنی کسی قوت یا کسی صفت کے اظہار میں کسی آلہ کا محتاج نہیں۔ تمام صفتیں اس کی ذات میں موجود تھیں اور موجود ہیں اور موجودرہیں گی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ خالقیت مخلوق کی اور ربوبیت مربوب کی محتاج ہے اس کے صرف یہی معنی ہیں کہ مخلوق کے وجود میں آنے سے اس کی صفتِ خالقیت کا اظہار ہوا اور مربوب کے وجود میں آنے سے اس کی صفتِ ربوبیت پہچانی گئی۔ ورنہ صفتِ خلق اور صفتِ ربوبیت اور جملہ صفات اس میں ہمیشہ سے ہیں۔ اور اس نے جس صفت کو جب چاہا اور جس پر چاہاظاہر فرمایا گویا اسماء و صفات حق تعالیٰ کی مختلف نسبتیں ہیں جن کےآثار یہ ساری کائنات ہے

از ذاتِ اوست ایں ہمہ اسماء عیاں شدہ

از نورِ اوست ایں ہمہ انوار آمدہ

ایں نقشہا کہ ہست سراسر نمائش است

اندر نظر چوں صورتِ بسیار آمدہ

ایں کثر تیست لیک زوحدت عیاں شدہ

ویں وحدتیست لیک باطوار آمدہ

عالم مثالِ ذات وظلال وصفاتِ اوست

نقشِ دوئی چو صورتِ پندار آمدہ

(مغربی)

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے