Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ادا پر اشعار

ہجر کی جو مصیبتیں عرض کیں اس کے سامنے

ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو

شاہ نیاز احمد بریلوی

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

جگر مرادآبادی

امن منم خطر منم زہر منم شکر منم

نفع منم ضرر منم من نہ منم نہ من منم

شاہ نیاز احمد بریلوی

ادا سے ہاتھ اٹھنے میں گل راکھی جو ہلتے ہیں

کلیجے دیکھنے والوں کے کیا کیا آہ چھلتے ہیں

نظیر اکبرآبادی

شہ خوبان من رنگیں قبا نازک ادا دارد

بہر غمزہ بہر عشوہ جہانے مبتلا دارد

علی حسین اشرفی

خنجر کیسا فقط ادا سے

تڑپا تڑپا کے مار ڈالا

بیدم شاہ وارثی

میں نہ مانوں گا کہ دی اغیار نے ترغیب قتل

دشمنوں سے دوستی کا حق ادا کیونکر ہوا

امیر مینائی

صنم کا ناز و انداز و ادا کیا

فقیر وارثی کا مدعا کیا

حسن امام وارثی

عشق ادا نواز حسن حسن کرشمہ ساز عشق

آج سے کیا ازل سے ہے حسن سے ساز باز عشق

بیدم شاہ وارثی

سنبھالو تو تم اپنی تیغ ادا کو

مری جاں دہی کے ہنر دیکھ لینا

اکبر وارثی میرٹھی

جھولو جھولنا محمدؐ بی بی آمنہ کے لال

حسن ہے دل کش ادا نرالی

سنجر غازیپوری

اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی

مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا

بیدم شاہ وارثی

دل ربائی کی ادا یوں نہ کسی نے پائی

میرے سرکار سے پہلے مرے سرکار کے بعد

پرنم الہ آبادی

اس ادا سے میں نے دیکھے داغ اپنے خون کے

اک تماشا روز محشر ان کا داماں ہو گیا

میکش اکبرآبادی

مضطرؔ اس نے سوال الفت پر

کس ادا سے کہا خدا نہ کرے

مضطر خیرآبادی

مرا سجدۂ محبت کبھی اس طرح ادا ہو

کہ مری جبیں جھکے جب نہ اٹھے تمہارے در سے

جوہرؔ وارثی

ہم گلشن فطرت سے جینے کی ادا لیں گے

شاخوں سے لچک لیں گے کانٹوں سے انا لیں گے

فنا نظامی کانپوری

وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی

وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے

مضطر خیرآبادی

عشق ہر آن نئی شان نظر رکھتا ہے

غمزہ و عشوہ وانداز و ادا کچھ بھی نہیں

ذہین شاہ تاجی

بٹھ وہم خطرے دی ادا

ڈوجھا نوہی ہے ہک خدا

خواجہ غلام فرید

وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں

نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر

عزیز وارثی دہلوی

تری محفل میں جو آیا بانداز عجب آیا

کوئی لیلیٰ ادا آیا کوئی مجنوں لقب آیا

افقر موہانی

ہر اک ادا کو تری لا جواب کہتے ہیں

ستم کو بھی کرم بے حساب کہتے ہیں

برقؔ وارثی

وہ آنکھیں وہ زلفیں وہ رخ وہ غمزے وہ ناز و ادا

کس نے اسیر دام کیا ہم خود ہی اسیر دام ہوئے

صادق دہلوی

تم کو اچھا مسلماں کیا

اور کافر ادا ہو گئے

پرنم الہ آبادی

گر ملے اک بار مجھ کو وہ پری وش کج ادا

اس کو ظاہر کر دکھاؤں دل کا مطلب دل کی بات

کشن سنگھ عارفؔ

حسینوں میں وہ گل سب سے جدا ہے اپنی رنگت کا

ادا کا ناز کا عشوہ کا شوخی کا شرارت کا

محمد اکبر وارثی

مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر

دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے

بیدم شاہ وارثی

اک وہ کہ بے کہے ہمیں دیتا ہے نعمتیں

اک ہم کہ ہم سے شکر ادا بھی نہ ہو سکے

واجدؔ وارثی

جب تمہیں تم ہو ہر ادا میری

پھر بھلا مجھ سے کب جدا ہو تم

مردان صفی

یہ آداب محبت ہے ترے قدموں پہ سر رکھ دوں

یہ تیری اک ادا ہے پھیر کر منہ مسکرا دینا

عبدالہادی کاوش

غضب ہے ادا چشم جادو اثر میں

کہ دل پس گیا بس نظر ہی نظر میں

راقم دہلوی

ادا و ناز قاتل ہوں کبھی انداز بسمل ہوں

کہیں میں خندۂ گل ہوں کہیں سوز عنادل ہوں

کوثر خیرآبادی

گدائی میں ملی شاہی مجھے اس کی عنایت سے

بھلا کیوں کر ادا ہو شکر اس کے لطف بے حد کا

اختر محمود وارثی

عشق سے پھر خطرۂ ترک وفا ہونے لگا

پھر فریب حسن سرگرم ادا ہونے لگا

حسرت موہانی

مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق

ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مرادآبادی

کہاں سے جوگی کی ادا اور کہاں عاشق کی پھبن

آتش غم سے جلا جب سے جلایا دل و جان

نظیر اکبرآبادی

مقام رحمت حق ہے ترے در کی زمیں وارث

ادا ہو جائے میرا بھی کوئی سجدہ یہیں وارث

قیصرؔ شاہ وارثی

ہر صورت مرگ و زیست اپنی ہے جدا

اس لب نے جلایا تھا ادا نے مارا

امیر مینائی

کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو

مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

جگر مرادآبادی

ادا غمزے کرشمے عشوے ہیں بکھرے ہوئے ہر سو

صف مقتل میں یا قاتل ہے یا انداز قاتل ہے

محمد اکبر وارثی

مارا ہے بیاںؔ کو جن نے اے شوخ

کیا جانیے کون سی ادا تھی

احسن اللہ خاں بیان

بتا کر شوخیاں اس کو ادا کی

ڈبوئی ہم نے قسمت مدعا کی

راقم دہلوی

درخورد سرزنش نبود جرم عاشقاں

شمشیر ناز و تیغ ادا را نگاہ‌ دار

حسرت موہانی

چھپا ہے مقنع میں کس ادا سے

بنا ہے پردہ نشیں سہرا

بیدم شاہ وارثی

ہر ناز ترا یہ کہتا ہے ہر ایک ادا سے ظاہر ہے

کہنے کو ترا عاشق ہوں مگر تو اور نہیں میں اور نہیں

آنسو بہا کے دیدۂ جادو طراز سے

دکھلا کے اک ادا نگۂ فتنہ ساز سے

ریاض خیرآبادی

دور سے اے نگہ شوق بلائیں لے لے

کس ادا سے ہے نقاب رخ زیبا سہرا

ریاض خیرآبادی

دل ربائی کا بھی کچھ کچھ ڈھب انہیں آنے لگا

بات مطلب کی اشاروں میں ادا کرنے لگے

حسرت موہانی

خواجہ توری صورت پہ میں واری

نوری پریم ادا پہ میں واری

سنجر غازیپوری

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے