ہجر کی جو مصیبتیں عرض کیں اس کے سامنے
ناز و ادا سے مسکرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے
ادا سے ہاتھ اٹھنے میں گل راکھی جو ہلتے ہیں
کلیجے دیکھنے والوں کے کیا کیا آہ چھلتے ہیں
شہ خوبان من رنگیں قبا نازک ادا دارد
بہر غمزہ بہر عشوہ جہانے مبتلا دارد
امن منم خطر منم زہر منم شکر منم
نفع منم ضرر منم من نہ منم نہ من منم
میں نہ مانوں گا کہ دی اغیار نے ترغیب قتل
دشمنوں سے دوستی کا حق ادا کیونکر ہوا
مضطرؔ اس نے سوال الفت پر
کس ادا سے کہا خدا نہ کرے
ہم گلشن فطرت سے جینے کی ادا لیں گے
شاخوں سے لچک لیں گے کانٹوں سے انا لیں گے
جھولو جھولنا محمدؐ بی بی آمنہ کے لال
حسن ہے دل کش ادا نرالی
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
دل ربائی کی ادا یوں نہ کسی نے پائی
میرے سرکار سے پہلے مرے سرکار کے بعد
خنجر کیسا فقط ادا سے
تڑپا تڑپا کے مار ڈالا
صنم کا ناز و انداز و ادا کیا
فقیر وارثی کا مدعا کیا
اس ادا سے میں نے دیکھے داغ اپنے خون کے
اک تماشا روز محشر ان کا داماں ہو گیا
مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
وہ آنکھیں وہ زلفیں وہ رخ وہ غمزے وہ ناز و ادا
کس نے اسیر دام کیا ہم خود ہی اسیر دام ہوئے
تری محفل میں جو آیا بانداز عجب آیا
کوئی لیلیٰ ادا آیا کوئی مجنوں لقب آیا
اک وہ کہ بے کہے ہمیں دیتا ہے نعمتیں
اک ہم کہ ہم سے شکر ادا بھی نہ ہو سکے
غضب ہے ادا چشم جادو اثر میں
کہ دل پس گیا بس نظر ہی نظر میں
بٹھ وہم خطرے دی ادا
ڈوجھا نوہی ہے ہک خدا
مرا سجدۂ محبت کبھی اس طرح ادا ہو
کہ مری جبیں جھکے جب نہ اٹھے تمہارے در سے
وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں
نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر
سنبھالو تو تم اپنی تیغ ادا کو
مری جاں دہی کے ہنر دیکھ لینا
عشق ہر آن نئی شان نظر رکھتا ہے
غمزہ و عشوہ وانداز و ادا کچھ بھی نہیں
خواجہ توری صورت پہ میں واری
نوری پریم ادا پہ میں واری
وہ رہے خوش ہم سے مرداںؔ اور کبھی نا خوش رہے
دل میں ہم کو ہر ادا ان کی مگر بھاتی رہی
تجھے دیکھ او بت خوش ادا پھری آنکھ ساری خدائی سے
وہ جو یاد رہتی تھی صورتیں انہیں صاف دل سے بھلا دیا
کچھ بھیگی تالیں ہولی کی کجھ ناز ادا کے ڈھنگ بھرے
دل بھولے دیکھ بہاروں کو اور کانوں میں آہنگ بھرے
وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے
عشق تیرا جو اے دل ربا ہو گیا
تھا جو قسمت کا لکھا ادا ہو گیا
ادا و ناز قاتل ہوں کبھی انداز بسمل ہوں
کہیں میں خندۂ گل ہوں کہیں سوز عنادل ہوں
یہ آداب محبت ہے ترے قدموں پہ سر رکھ دوں
یہ تیری اک ادا ہے پھیر کر منہ مسکرا دینا
عشق سے پھر خطرۂ ترک وفا ہونے لگا
پھر فریب حسن سرگرم ادا ہونے لگا
مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
کہاں سے جوگی کی ادا اور کہاں عاشق کی پھبن
آتش غم سے جلا جب سے جلایا دل و جان
گدائی میں ملی شاہی مجھے اس کی عنایت سے
بھلا کیوں کر ادا ہو شکر اس کے لطف بے حد کا
حسینوں میں وہ گل سب سے جدا ہے اپنی رنگت کا
ادا کا ناز کا عشوہ کا شوخی کا شرارت کا
تم کو اچھا مسلماں کیا
اور کافر ادا ہو گئے
ہر صورت مرگ و زیست اپنی ہے جدا
اس لب نے جلایا تھا ادا نے مارا
کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مقام رحمت حق ہے ترے در کی زمیں وارث
ادا ہو جائے میرا بھی کوئی سجدہ یہیں وارث
ادا غمزے کرشمے عشوے ہیں بکھرے ہوئے ہر سو
صف مقتل میں یا قاتل ہے یا انداز قاتل ہے
مارا ہے بیاںؔ کو جن نے اے شوخ
کیا جانیے کون سی ادا تھی
آنسو بہا کے دیدۂ جادو طراز سے
دکھلا کے اک ادا نگۂ فتنہ ساز سے
دور سے اے نگہ شوق بلائیں لے لے
کس ادا سے ہے نقاب رخ زیبا سہرا
دل ربائی کا بھی کچھ کچھ ڈھب انہیں آنے لگا
بات مطلب کی اشاروں میں ادا کرنے لگے
چھپا ہے مقنع میں کس ادا سے
بنا ہے پردہ نشیں سہرا
ہر ناز ترا یہ کہتا ہے ہر ایک ادا سے ظاہر ہے
کہنے کو ترا عاشق ہوں مگر تو اور نہیں میں اور نہیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere