چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے
پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے
میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی
روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے
اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں
ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے
تم اپنی زلف کھولو پھر دل پر داغ چمکے گا
اندھیرا ہو تو کچھ کچھ شمع کی آنکھوں میں نور آئے
نکل کر زلف سے پہنچوں گا کیونکر مصحف رخ پر
اکیلا ہوں اندھیری رات ہے اور دور منزل ہے
اک راز ہے اے مضطرؔ تربت کا اندھیرا بھی
آئی ہے پئے ماتم کعبے کی سیہ پوشی
شب دیجور اندھیرے میں ہے بادل کے نہاں
لیلیٰ محمل میں ہے ڈالے ہوئے منہ پر آنچل
جیون کی الجھی راہوں میں جب گھور اندھیرا آتا ہے
ہاتھوں میں لئے روشن مشعل تو گرو ہمارے ملتے ہیں
اس پاپ کی نگری میں ہر اور اندھیرا ہے
اجیار میں بس وہ ہے جو تجھ کو پیا چاہے
بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا
بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے
آنکھ روشن ہو تو دنیا کے اندھیرے کیا ہیں
رستہ مہتاب کو راتوں کی سیاہی میں ملا
جا کو کوئی پکڑے تو کیسے کام کرت ہے نظر نہ آئے
چپکے چپکے سیندھ لگاوے دن ہووے یا اندھیری رتیاں
دھواں آہوں کا اپنی رنگ لایا
اندھیرا ہو گیا ہے آسماں پر
تم آئے روشنی پھیلی ہوا دن کھل گئیں آنکھیں
اندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزم امکاں میں
یہ رات کیوں نہ ہو افضل تمام راتوں میں
لیے ہوئے ہیں اندھیرے چراغ ہاتھوں میں