شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
کیتو سخت پریرے وہ یار
توں بن سارا ملک اندھارا
چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے
پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے
میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی
روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے
بیپت دی بیتپڑی یاری
ظلم اندھاری بے نرواری
میں مٹھڑی منتاری وہ یار
کوجھی رات اندھاری وہ یار
نکل کر زلف سے پہنچوں گا کیونکر مصحف رخ پر
اکیلا ہوں اندھیری رات ہے اور دور منزل ہے
شب دیجور اندھیرے میں ہے بادل کے نہاں
لیلیٰ محمل میں ہے ڈالے ہوئے منہ پر آنچل
خواجہ مرے کا راز نرالا خواجہ ملے تو رین اجالا
درس بنا جگ گھور اندھیرا دن اپنے بھی راتیں ہیں
اک راز ہے اے مضطرؔ تربت کا اندھیرا بھی
آئی ہے پئے ماتم کعبے کی سیہ پوشی
تم اپنی زلف کھولو پھر دل پر داغ چمکے گا
اندھیرا ہو تو کچھ کچھ شمع کی آنکھوں میں نور آئے
بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا
بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے
شوق دا دیوا بال اندھیرے متاں لبھے وسط کھڑاتی ہو
مرن تھیں اگے مر رہے جنہاں حق دی رمز پچھاتی ہو
آنکھ روشن ہو تو دنیا کے اندھیرے کیا ہیں
رستہ مہتاب کو راتوں کی سیاہی میں ملا
اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں
ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے
جب بپتا پڑ جات ہے چھوڑ دیت سب ہاتھ
دیت اندھیری رین میں کب پرچھائیں ساتھ
جتھے ہو کرے روشنائی چھوڑ اندھیرا ویندا ہو
میں قربان تناں توں باہوؔ جو ہو صحیح کریندا ہو
اندھارے میں پڑا ہوں کثرت کے وہم سے
وحدانیت کا لطف سوں روشن چراغ بخش
جا کو کوئی پکڑے تو کیسے کام کرت ہے نظر نہ آئے
چپکے چپکے سیندھ لگاوے دن ہووے یا اندھیری رتیاں
رین اندھیری باٹ نہ سمجھی تاک میں ہیں ہر بار
اوگھٹؔ دھرم یہ راکھنا گرو کریں نستار
دود دل سینے میں ہے جاں روئے جاناں روبرو
گھر کے اندر ہے اندھیرا اور باہر چاندنی
جاکو کوئی پکڑے تو کیسے کام کرت ہے نظر نہ آئے
چپکے چپکے سیندھ لگاوے دن ہووے یا اندھیری رتیاں
یہ رات کیوں نہ ہو افضل تمام راتوں میں
لیے ہوئے ہیں اندھیرے چراغ ہاتھوں میں
جیون کی الجھی راہوں میں جب گھور اندھیرا آتا ہے
ہاتھوں میں لئے روشن مشعل تو گرو ہمارے ملتے ہیں
اس پاپ کی نگری میں ہر اور اندھیرا ہے
اجیار میں بس وہ ہے جو تجھ کو پیا چاہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere