Sufinama

اندھیرا پر اشعار

آوے تو اندھیری لاوے

جاوے تو سب سکھ لے جاوے

امیر خسرو

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

امیر خسرو

میں کیسے جاؤں شیام نگر گھر دور

رین اندھیری بیجل چمکے ندیاں ہوے جل پور

میرابائی

چاروں سمت اندھیرا پھیلا ایسے میں کیا رستہ سوجھے

پربت سر پر ٹوٹ رہے ہیں پاؤں میں دریا بہتا ہے

واصف علی واصف

کیتو سخت پریرے وہ یار

توں بن سارا ملک اندھارا

خواجہ غلام فرید

بیپت دی بیتپڑی یاری

ظلم اندھاری بے نرواری

خواجہ غلام فرید

میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی

روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے

مضطر خیرآبادی

شب دیجور اندھیرے میں ہے بادل کے نہاں

لیلیٰ محمل میں ہے ڈالے ہوئے منہ پر آنچل

محسن کاکوروی

میں مٹھڑی منتاری وہ یار

کوجھی رات اندھاری وہ یار

خواجہ غلام فرید

اٹھ کے اندھیری راتوں میں ہم تجھ کو پکارا کرتے ہیں

ہر چیز سے نفرت ہم کو ہوئی ہم جنت فردا بھول گئے

عبدالہادی کاوش

نکل کر زلف سے پہنچوں گا کیونکر مصحف رخ پر

اکیلا ہوں اندھیری رات ہے اور دور منزل ہے

اکبر وارثی میرٹھی

بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا

بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے

مظفر وارثی

شوق دا دیوا بال اندھیرے متاں لبھے وسط کھڑاتی ہو

مرن تھیں اگے مر رہے جنہاں حق دی رمز پچھاتی ہو

سلطان باہو

آنکھ روشن ہو تو دنیا کے اندھیرے کیا ہیں

رستہ مہتاب کو راتوں کی سیاہی میں ملا

مظفر وارثی

خواجہ مرے کا راز نرالا خواجہ ملے تو رین اجالا

درس بنا جگ گھور اندھیرا دن اپنے بھی راتیں ہیں

واصف علی واصف

اک راز ہے اے مضطرؔ تربت کا اندھیرا بھی

آئی ہے پئے ماتم کعبے کی سیہ پوشی

مضطر خیرآبادی

تم اپنی زلف کھولو پھر دل پر داغ چمکے گا

اندھیرا ہو تو کچھ کچھ شمع کی آنکھوں میں نور آئے

مضطر خیرآبادی

یہ رات کیوں نہ ہو افضل تمام راتوں میں

لیے ہوئے ہیں اندھیرے چراغ ہاتھوں میں

مظفر وارثی

سر زمین شام میں تارا گرا تھا ٹوٹ کر

یا اندھیری رات میں جگنوں چمک کر رہ گیا

شاہ نصیر

سر زمین شام میں تارا گرا ہے ٹوٹ کر

یا اندھیری رات میں جگنو چمک کر رہ گیا

شاہ نصیر

جیون کی الجھی راہوں میں جب گھور اندھیرا آتا ہے

ہاتھوں میں لئے روشن مشعل تو گرو ہمارے ملتے ہیں

عبدالہادی کاوش

اس پاپ کی نگری میں ہر اور اندھیرا ہے

اجیار میں بس وہ ہے جو تجھ کو پیا چاہے

عبدالہادی کاوش

رین اندھیری باٹ نہ سمجھی تاک میں ہیں ہر بار

اوگھٹؔ دھرم یہ راکھنا گرو کریں نستار

اوگھٹ شاہ وارثی

دود دل سینے میں ہے جاں روئے جاناں روبرو

گھر کے اندر ہے اندھیرا اور باہر چاندنی

آسی غازیپوری

کامنی کام کی کٹھن پڑت ہے گہری اندھیری رات

جل انجلی جل پاے پلے پل تب تنو سہاگ

دیوناتھ

جاکو کوئی پکڑے تو کیسے کام کرت ہے نظر نہ آئے

چپکے چپکے سیندھ لگاوے دن ہووے یا اندھیری رتیاں

عبدالہادی کاوش

جب بپتا پڑ جات ہے چھوڑ دیت سب ہاتھ

دیت اندھیری رین میں کب پرچھائیں ساتھ

مضطر خیرآبادی

جتھے ہو کرے روشنائی چھوڑ اندھیرا ویندا ہو

میں قربان تناں توں باہوؔ جو ہو صحیح کریندا ہو

سلطان باہو

اندھارے میں پڑا ہوں کثرت کے وہم سے

وحدانیت کا لطف سوں روشن چراغ بخش

قادر بخش بیدلؔ

جا کو کوئی پکڑے تو کیسے کام کرت ہے نظر نہ آئے

چپکے چپکے سیندھ لگاوے دن ہووے یا اندھیری رتیاں

عبدالہادی کاوش

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے