بیاں سن کر مرا جلتے ہیں شاہد
زباں میں میری گرمی ہے بلا کی
متاع گرمیٔ بازار جاں ہے
وہ برق خرمن حاصل ہمارا
اگر یہ سرد مہری تج کو آسائش نہ سکھلاتی
تو کیونکر آفتاب حسن کی گرمی میں نیند آتی
دل بجھا جائے ہے اغیار کی شورش پہ مرا
سرد کرتی ہے تری گرمئ بازار مجھے
تو اور ذرا محکم کر لے پردوں کی مکمل بندش کو
اے دوست نظر کی گرمی کو ہم آج شرارا کرتے ہیں
اے شمع دل افروز شب تار محبت
تجھ سے ہی ہے یہ گرمیٔ بازار محبت
ہوئی اس میں اک گرمیٔ شوق پیدا
پڑی جو نظر اس رخ آتشیں پر
وہ طور والی تری تجلی غضب کی گرمی دکھا رہی ہے
وہاں تو پتھر جلا دیے تھے یہاں کلیجہ جلا رہی ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere