نہ جانے کون سے یوسف کا جلوہ مجھ میں پنہاں ہے
زلیخا آج تک کرتی ہے مضطرؔ التجا میری
تھکے ہم تو بس التجا کرتے کرتے
کٹی عمر سن سن کے شام و سحر میں
معشوق بے پرواہ آگے گرچہ عبث ہے التجا
عشاق کو بہتر نہیں زیں شیوہ کار دگر
التجائے سیدہؔ سن لے برائے مصطفیٰ
قوم مسلم کو بہار عالم تقدیر دے
زمانہ کو بدلنے دو خدا وہ دن بھی کر دے گا
تماشا دیکھ لینا ہم سے کرتے التجا تم ہو
تری خوئے برہم سے واقف تھی پھر بھی
ہوئے مفت شرمندۂ التجا ہم
مری التجا ہے تجھ سے مری بندگی بدل دے
کہ ترے کرم مری جاں مری لو لگی ہوئی ہے
جو مانگنا ہو خدا سے مانگو اسی سے بخشش کی التجا ہو
گناہ ڈھل کر ہو پانی پانی سنبھل کے چلیے قدم قدم پر
وقار التجا بھی ہم نے کھویا
عبث جا جا کے ان سے التجا کی
ملیں بھی وہ تو کیونکر آرزو بر آئے گی دل کی
نہ ہوگا خود خیال ان کو نہ ہوگی التجا مجھ سے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere