جفا پر اشعار
اصلاً فارسی زبان کا
لفظ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو مں فارسی سے لیا گیاہے ۔اصل لفظ 'جفاء' ہے اردو زبان مںو چونکہ 'ہمزہ' کی آواز نہں ہے لہٰذا ہمزہ کے حذف کے بعد 'جفا' بن گیا ہے۔ ١٥٠٣ء کے پاس اس کا استعمال کیاگیا۔ لغت میں ستم، زیادتی اورنا انصافی کے معنی میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔تصوف میں سالک کے دل کو مشاہدے سے باز رکھنے نیز خلاف طبع سالک امور کے پیش آنے کو جفا کہتے ہیں ۔
شکوہ ہے کفر اہل محبت کے واسطے
ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہیے
طبیعت جو صبر آزما ہو گئی
جفا رفتہ رفتہ وفا ہو گئی
اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے
کہیں مجھ سا اسے خدا نہ کرے
جفا کاری ہے تسلیم ستم بھی
نہ ہوگا تابع جور و جفا دل
کبھو ہم سے بھی وفا کیجئے گا
یا یہی جور و جفا کیجئے گا
اس ستم پیشہ مہر دشمن کی
میرے اوپر اگر جفا ہے یہ
جفا و جور کے صدقے تصدق بر زبانی پر
سناتے ہیں وہ لاکھوں بے نقط اس بے دہانی پر
ترا ترک ستم بھی اک ستم ہے یہ ستم کیسا
تری ترک جفا بھی اک جفا ہے یہ جفا کیوں ہے
جور و جفا کا مجھ سے گلہ بھی نہ ہو سکے
پاس ادب سے ترک جفا بھی نہ ہو سکے
ہوں تیر بلا کا میں نشانہ
شمشیر جفا کا میں سپر ہوں
جفا کو وفا سمجھیں کب تک بھلا ہم
اب ایسے بھی ان کے نہیں مبتلا ہم
فرہاد پہ اس قدر نہ تھا ظلم
مجنوں پہ نہ یہ غضب جفا تھی
اہل جفا نے پھر نہ اٹھایا جفا سے ہاتھ
لذت شناس ظلم و ستم دیکھ کر مجھے
جفا و جور کیوں مجھ کو نہ راس آئیں محبت میں
جفا و جور کے پردے میں پنہاں مہربانی ہے
مری انتہائے وفا کچھ نہ پوچھ
جفا دیکھ جو لا تعد ہو گئی
ہلاک تیغ جفا یا شہید ناز کرے
ترا کرم ہے جسے جیسے سرفراز کرے
حوصلہ تیغ جفا کا رہ نہ جائے
آئیے خون تمنا کیجیے
یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو
پر غیر کو تو نہ پیار کیجو
یاں تغافل میں اپنا کام ہوا
تیرے نزدیک یہ جفا ہی نہیں
جبر اس اس طرح اٹھائے ہیں
دیکھ عالم مجھے ہوا مجبور
یہ توقع نہ تھی ہمیں ہرگز
کہ دکھاؤ گے یہ جفا دل کو
تم جور و جفا کرو جو چاہو
ان باتوں پہ کب مجھے نظر ہے
جفا کی باتیں سدا بنانا وفا کی باتیں کبھی نہ کرنا
خدا کے گھر میں کمی نہیں ہے کیے میں اپنے کمی نہ کرنا
سفید صفحۂ کاغذ کہیں نہ پھر رہتا
اگر میں جور و جفا کو تری لکھا کرتا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere