بحر الفت میں نہیں کشتی کا کام
نوح سے کہہ دو یہ طوفاں اور ہے
سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنا کو
چلا ہوں بارگاہ عشق میں لے کر یہ نذرانہ
یا خدا اکبرؔ کی کشتی کو نکال
تو ہی اس بیڑے کا کھیون ہار ہے
گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی
جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے
کیا ہوا چاک گر بادباں ہو گئے اور حالات نا مہرباں ہو گئے
تیری چشم کرم جب ہو سایہ فگن دور کشتی سے اپنی کنارا نہیں
ہمارے دل کو بحر غم کی کیا طاقت جو لے بیٹھے
وہ کشتی ڈوب کب سکتی ہے جس کے ناخدا تم ہو
کشتی میں دریا دریا میں کشتی سفلی میں علوی علوی میں سفلی
طوفاں میں موجیں موجوں میں یم ہے جانے سو دیکھے دیکھے سو سمجھے
بھاگ نکلا تھا جو طوفاں سے چھڑا کر دامن
سر ساحل وہی ڈوبا ہوا کشتی میں ملا
کشتی ہے سکوں کی موجوں میں اتنا ہی سہارا کافی ہے
میرے لیے تو اے جان جہاں بس نام تمہارا کافی ہے
امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے
دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے
بڑھ کے طوفاں میں سہارا موج طوفاں کیوں نہ دے
میری کشتی کا خدا ہے نا خدا کوئی نہیں
موج طوفاں پھینک دے گی اس کو ساحل کی طرف
پار اب کشتی مری اے ناخدا ہو جائے گی
دواں ہو کشتیٔ عمر رواں یوں بحر ہستی میں
کہیں ابھری کہیں ڈوبی کہیں معلوم ہوتی ہے
ساحل تہ سے دور سوا تہ ساحل سے دور سوا
قسمت قعر سمندر میں کشتی آج ڈبوتی ہے
جو نوحؔ سے نسبت رکھتے ہیں لا ریب عزیزؔ ان کی کشتی
دم بھر میں ادھر ہو جاتی ہے دم بھر میں ادھر ہو جاتی ہے
کشتیٔ عمر مری غم کے ہے طوفاں میں گھری
کھینچ لو اب اسے دریا کا کنارا ہو کر
اک قطرۂ مے دے کر وحدت میں ڈبویا ہے
ساقی نے مری کشتی دریا میں رواں کر دی
نوح کا طوفاں تو کچھ دن رہ کے آخر ہو گیا
اور مری کشتی ابھی تک عشق کے دریا میں ہے