Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کشتی پر اشعار

بحر الفت میں نہیں کشتی کا کام

نوح سے کہہ دو یہ طوفاں اور ہے

امیر مینائی

سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنا کو

چلا ہوں بارگاہ عشق میں لے کر یہ نذرانہ

بیدم شاہ وارثی

یا خدا اکبرؔ کی کشتی کو نکال

تو ہی اس بیڑے کا کھیون ہار ہے

شاہ اکبر داناپوری

آرزو ہم ناخدا کی کیوں کریں

اپنی کشتی کا تو افسر اور ہے

مردان صفی

کشتی میں دریا دریا میں کشتی سفلی میں علوی علوی میں سفلی

طوفاں میں موجیں موجوں میں یم ہے جانے سو دیکھے دیکھے سو سمجھے

امداد علی علوی

بھاگ نکلا تھا جو طوفاں سے چھڑا کر دامن

سر ساحل وہی ڈوبا ہوا کشتی میں ملا

مظفر وارثی

کشتی ہے سکوں کی موجوں میں اتنا ہی سہارا کافی ہے

میرے لیے تو اے جان جہاں بس نام تمہارا کافی ہے

شاہ تقی راز بریلوی

گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی

جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے

بیدم شاہ وارثی

کیا ہوا چاک‌ گر بادباں ہو گئے اور حالات نا مہرباں ہو گئے

تیری چشم کرم جب ہو سایہ فگن دور کشتی سے اپنی کنارا نہیں

سعید وارثی

امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے

دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے

احقر بہاری

موج طوفاں پھینک دے گی اس کو ساحل کی طرف

پار اب کشتی مری اے ناخدا ہو جائے گی

ریاض خیرآبادی

دشت نوردی کے دوران مظفرؔ سر پر دھوپ رہی

جب سے کشتی میں بیٹھے ہیں روز گھٹائیں آتی ہیں

مظفر وارثی

بڑھ کے طوفاں میں سہارا موج طوفاں کیوں نہ دے

میری کشتی کا خدا ہے نا خدا کوئی نہیں

پرنم الہ آبادی

دواں ہو کشتیٔ عمر رواں یوں بحر ہستی میں

کہیں ابھری کہیں ڈوبی کہیں معلوم ہوتی ہے

افقر موہانی

ساحل تہ سے دور سوا تہ ساحل سے دور سوا

قسمت قعر سمندر میں کشتی آج ڈبوتی ہے

ریاض خیرآبادی

جو نوحؔ سے نسبت رکھتے ہیں لا ریب عزیزؔ ان کی کشتی

دم بھر میں ادھر ہو جاتی ہے دم بھر میں ادھر ہو جاتی ہے

عزیز وارثی دہلوی

خدا حافظ ہے بحر عشق میں اس دل کی کشتی کا

کہ ہے چین جبین یار سے موج دگر پیدا

شاہ نصیر

یہی پہچان بحر غم میں ہوگی میری کشتی کی

نہ اس پر ناخدا ہوگا نہ اس میں بادباں ہوگا

عرش گیاوی

اک قطرۂ مے دے کر وحدت میں ڈبویا ہے

ساقی نے مری کشتی دریا میں رواں کر دی

مضطر خیرآبادی

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

حاصل ہے مجھے گھر بھی یہاں لطف سفر بھی

عرش گیاوی

نوح کا طوفاں تو کچھ دن رہ کے آخر ہو گیا

اور مری کشتی ابھی تک عشق کے دریا میں ہے

مضطر خیرآبادی

کان کا بالا ہے یا گرداب بحر حسن ہے

کشتئ دل کو جو میری اب ڈبا جاتے ہو تم

شاہ نصیر

لئے پھرتی ہے اشکوں کی روانی

رواں ہوں کشتی آب رواں پر

عرش گیاوی

کشتیٔ عمر مری غم کے ہے طوفاں میں گھری

کھینچ لو اب اسے دریا کا کنارا ہو کر

حیرت شاہ وارثی

ہمارے دل کو بحر غم کی کیا طاقت جو لے بیٹھے

وہ کشتی ڈوب کب سکتی ہے جس کے ناخدا تم ہو

مضطر خیرآبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے