Sufinama

امید پر اشعار

ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی

ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

اے چشم تمنا تری امید بر آئے

اٹھتا ہے نقاب رخ جانانہ مبارک

بیدم شاہ وارثی

امید نہیں اب کشتئ دل ساحل پہ سلامت جا پہنچے

دریائے الم بھی باڑھ پہ ہے اشکوں کی جدا طغیانی ہے

احقر بہاری

دل میں جو رہتے تھے امید کی دنیا ہو کر

وہ چلے جاتے ہیں کیوں داغ تمنا ہو کر

حیرت شاہ وارثی

بتوں سے ہم حصول صبر کی امید کیوں رکھیں

یہ کیا دیں گے خدا کے پاس سے خود ناصبور آئے

مضطر خیرآبادی

کوئی امید رہائی کی نہ تھی صبرؔ مجھے

ان کی زلفوں سے مقدر میں جو تھا دل نکلا

صبر لکھنوی

ہاتھ سے عشق کے بچنے کی تو امید نہیں

سینہ افگار ہے دل خوں ہے جگر پانی ہے

آشنا پھلواروی

کثرت امید بھی عیش آفریں ہونے لگی

انتظار یار بھی راحت فزا ہونے لگا

حسرت موہانی

زیست میری اور یہ ایام فراق

اے امید وصل تیرا کام ہے

میکش اکبرآبادی

دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس

اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا

جگر مرادآبادی

گیا فرقت کا رونا ساتھ امید و تمنا کے

وہ بیتابی ہے اگلی سی نہ چشم خوں چکاں میری

راقم دہلوی

میں ہمیشہ اسیر الم ہی رہا مرے دل میں سدا تیرا غم ہی رہا

مرا نخل امید قلم ہی رہا میرے رونے کا کوئی ثمر نہ ملا

محمد اکبر وارثی

عزیزوں سے امید مضطرؔ فضول

توقع کی دنیا فنا ہو گئی

مضطر خیرآبادی

ان سے امید وصل اے توبہ

وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے

آسی غازیپوری

نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے

وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے

پرنم الہ آبادی

ڈرتا ہی رہے انساں اس سے امید گر ہے بخشش کی

ہیں نام اسی کے یہ دونوں غفار بھی ہے قہار بھی ہے

احقر بہاری

تجھی سے نقش ناکامی میں ہیں امید کے جلوے

شب غم ہے قضا کے بھیس میں میرا مسیحا تو

مضطر خیرآبادی

بڑی درگاہ کا سائل ہوں حسرتؔ

بڑی امید ہے میری بڑا دل

حسرت موہانی

سکون قلب کی امید اب کیا ہو کہ رہتی ہے

تمنا کی دو چار اک ہر گھڑی برق بلا مجھ سے

حسرت موہانی

فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر

واں خون کی ہوس ہے نہیں آرزوئے شیر

احسن اللہ خاں بیان

اب تو نظر میں دولت کونین ہیچ ہے

جب تجھ کو پا لیا دل امیدوار نے

بیدار شاہ وارثی

قاصد کی امید ہے یارو قاصد تو آ جائے گا

لیکن ہم اس وقت نہ ہوں گے جب ان کا خط آئے گا

پرنم الہ آبادی

آرزو دین ودنیا اب نہیں بہرامؔ کچھ

پر مرا نکلے امید رحمت یزداں میں دم

بہرام جی

یاس و امید یوں رہیں راہ طلب میں ساتھ ساتھ

چار قدم ہٹا دیا چار قدم بڑھا دیا

ذکی وارثی

اٹھے گا یہاں پھر نہ کبھی شور تمنا

دل بیچ یہی یاس اب امید کرے ہے

غلام نقشبند سجادؔ

کھلنے لگی اگر کوئی امید کی کلی

برق الم تڑپ کے گری اور جلا دیا

ولی وارثی

وفا کی ہو کسی کو تجھ سے کیا امید او ظالم

کہ اک عالم ہے کشتہ تیری طرز بے وفائی کا

ابراہیم عاجزؔ

میں تری امید میں ہستی مٹا کر مٹ گیا

اب تو اک ٹھوکر لگا دے پائے جانانہ مجھے

مضطر خیرآبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے