فارسی شاعری میں گل کا ایک خاص مقام اوراستعمال ہے- گل کو ہندوستان میں گلاب کہا جاتا ہے اسی پر بلبل فریفتہ ہوتی ہے- جب سرزمین ایران پرگل کھلتے ہیں تو بلبل مدہوش ہو جاتی ہے- مولانا آزاد لکھتے ہیں- ادھر گلاب کھلا، ادھر بلبل ہزار داستان اس کی شاخ پر بیٹھی نظر آئی- بلبل نہ فقط پھول کی ٹہنی پر بلکہ گھرگھر درختوں پر بولتی ہے اور چہچہے کرتی ہے اورگلاب کی ٹہنی پر تو یہ عالم ہوتا ہے کہ بولتی ہے، بولتی ہے،بولتی ہے- حد سے زیادہ مست ہوتی ہے، تو پھول پر منہ رکھ دیتی ہے اورآنکھیں بند کرکے زمزمہ کرتی رہ جاتی ہے- تب معلوم ہوتا ہے کہ شعرا نے جو اس کے اور بہار کے اور گل و لالہ کے مضمون باندھے ہیں، وہ کیا ہیں اور کچھ اصلیت رکھتے ہیں یا نہیں-
فارسی میں 'بلبل شدن' ایک محاورہ بھی ہے جس کا معنی ہے عشق ہونا-
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.