تمام
غزل33
شعر1
صوفیانہ مضامین6
ویڈیو 418
کلام258
دکنی صوفی شاعری1
فارسی کلام29
فارسی صوفی شاعری2
راگ آدھارت پد17
رباعی22
دوہرا1
بھجن5
بیت35
نعت و منقبت271
قطعہ2
چادر3
سہرا1
سلام20
ہولی4
غسل1
مخمس13
صندل1
گیت9
قول1
صوفی تلمیح72
نا معلوم کی صوفی تلمیحات
مہر گیاہ
یہ ایک بوٹی ہے جس کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھنے والوں پر سب مہربان ہو جاتے ہیں-
پل صراط
وہ پل جسے قیامت کے دن ہرانسان کو پار کرنا پڑےگا۔ یہ پل بال سے بھی باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا۔ جب نیک روح اس سے ہو کر گزرے گی تو یہ پل کشادہ ہو جائے گا اور وہ بجلی کی طرح وہاں سے گزر کر جنت میں چلی جائےگی۔ جب گنہگار اس پل سے ہوکر گزریں گے تو وہ
چیتا اور چاند
چاند کی خوبصورتی پرچیتا شیدا ہو جاتا ہے اور اس کو پانے کی خواہش میں پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے۔ وہاں سے اوپرچھلانگ لگاتا ہے اورنیچے آ گرتا ہے۔ رفتم اندر پۓ مقصود ولے ہمچو پلنگ با سر کوہ بہ قصد مہ تاباں رفتم ترجمہ- میں اپنے مقصد کے حصول کے لۓ گیا مگرچیتے
انا الحق
انا الحق (میں خدا ہوں) کا نعرہ منصورحلاج نے بلند کیا تھا انہیں حلاج بھی کہا جاتا ہے- یہ لفظ دھنیا کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا پیشہ حالانکہ یہ نہیں تھا- دراصل ان کا ایک دوست دھنیا تھا جس کی دکان پر بیٹھ کر اکثر وہ انگلیوں سے روئی کے بنولوں
خرعیسی
حضرت عیسی اپنے سفر کے لۓ معروف ہیں۔ وہ گدھا جو ان کی سواری میں رہتا تھا اسے خرعیسی کہا جاتا ہے۔ شیخ سعدی گلستاں میں لکھتے ہیں- خر عیسی گرش بہ مکہ برند چوں بیاید ہنوز خر باشد یعنی اگر عیسی کے گدھے کو مکہ لے جایئں تو جب وہ واپس آیئگا تب بھی گدھا ہی
شراب
فارسی ادب میں شراب سے مراد وہ چیز ہے جو رنج وغم سے نجات دے، اس لۓ فارسی شعرا نے شراب کو فکر دور کرنے کا ایک ذریعہ مانا ہے- عمرخیام اور خواجہ حافظ کو یہ تشبیہ بےحد پسند ہے- صوفیوں نے شراب کو عشق الہی کی ایک علامت مانا ہے- اگر بادہ (شراب) کو علامتی صورت
جوۓ شیر
فرہاد نے کوہ بیستون سے محل تک پہاڑ کو کھود کر دودھ کی نہر بہائی تھی۔ فرہاد ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کی ملکہ شیرین کا سچاعاشق تھا۔ اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے بادشاہ نے فرہاد سے کہا کہ کوہ بیستون سے شیریں کے محل تک اگر تم دودھ کی نہر بہا دو تو تمہیں شیریں
شمع اور پروانہ
پتنگا چراغ کی لو میں اپنے آپ کو خاک کر لیتا ہے- فارسی شاعری میں اس کا استعمال بکثرت ملتا ہے- خواجہ فریدالدین عطار شمع و پروانے کا عشق بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں- اے شفاعت خواہ مشت تیرہ روز لطف کو شمع شفاعت برفروز تا چو پروانہ میان جمع تو پر ز ناں آییم
شب چراغ
شب چراغ ایک طرح کا جوہر ہے- دریایی گائے جب رات کو چرنے نکلتی ہے، تو اس جواہر کو منہ سے نکال کر زمین پر رکھ دیتی ہے اور اس کی روشنی میں چرتی ہے- چرنے کے بعد اسے منہ میں رکھ کر ڈبکی لگا لیتی ہے-
خضر، الیاس، عیسی و ادریس
کہا جاتا ہے کہ خضر، الیاس، عیسی و ادریس، یہ چاروں پیغمبر زندہ ہیں- خضر خشکی (زمین) پر راستہ بھٹک جانے والوں کے رہنما ہیں۔ الیاس تری( پانی) پر بھولے بھٹکوں کو راہ دکھاتے ہیں- فارسی ادب میں آب و خشکی دونوں پر درحقیقت راستہ دکھانے والے حضرت خضر ہی
خر دجال
دجال ایک شخص کا نام ہے جو قیامت کے دن ظاہر ہوگا- وہ گدھے پر سوارہوگا اور ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ اس کے ماتھے پر موٹے حروف میں کافر لکھا ہوا ہوگا- وہ حضرت عیسی ہونے کا دعوی کرے گا۔ اس کو حضرت عیسی موت کے گھاٹ اتاریں گے۔ شیخ سعدی نے گلستاں میں اس تلمیح
مجنوں
مجنوں عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا۔ اس کا اصلی نام قیس تھا- یہ لیلی نام کی ایک لڑکی پرعاشق ہو کر مجنوں ہوگیا تھا- فارسی صوفی شاعری میں مجنوں سالک اور لیلی اللہ کے لئے مستعمل ہیں-
مغ یا مغ بچہ یا پیر مغاں
زردشت کے ماننے والے آگ کی پرستش کرتے ہیں- ان کے آتش کدوں میں آگ لگاتار جلتی رہتی ہے- آتش کدوں میں خدمت کرنے کے لۓ حسین و جمیل لڑکے موجود ہوتے تھے انہیں مغ کہا جاتا تھا اوران کا سردار پیر مغاں کہلاتا تھا- یہی نوجوان محفلوں میں ساقی کا کام بھی انجام دیتے
حضرت صالح
حضرت صالح قوم ثمود کے مشہور پیغمبرہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کو توحید کا پیغام سنایا لیکن ان کی قوم نے ہی ان سے معجزہ دکھانے کو کہا۔ حضرت صالح نے اللہ سے دعا کی اورایک پہاڑ سے ایک اونٹنی بچہ سمیت باہر آئی۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ان کے خلاف صدایئں بلند کرتے
حور
ایسا مانا جاتا ہے کہ حوریں جنتی لوگوں کی خدمت میں ہوں گی- زاہد اگر بہ حور و قصورست امیدوار ما را شراب خانہ قصورست و یار حور (ترجمہ- اگر زاہد حور و بہشت کے محلوں کی امید رکھتا ہے، تو رکھنے دو، ہمارے لۓ تو اس دنیا میں ہی شراب خانہ اور مکان ہیں اور
بتان آزری
آزر، حضرت ابراہیم کے والد اور موجودہ ملحد بادشاہ نمرود کے داماد تھے۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور بت تراش تھے۔ حضرت ابراہیم ایک خدا کو ماننے والے تھے اس لۓ انہوں نے اپنے والد کے بنائے ہوئے تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب نمرود کو یہ خبر ملی تو آگ بگولا ہو کر اس
کوہکن فرہاد
کوہکن فرہاد ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کی ملکہ شیرین کا حقیقی عاشق تھا- کوہکن کا استعمال سچےعاشق کے طور پر بھی ہوتا ہے-
آب حیات
مشہور ہے کہ آب حیات پینے سے انسان ابدیت کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ حضرت خضرکے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے آب حیات نوش کیا تھا اور وہ قیامت تک زندہ رہیں گے- حافظ شیرازی نے آب حیات کا استعمال علم کے لۓ کیا ہے دوش وقت سفر از غصہ نجاتم دادند واندرآں
چنار
مشہور ہے کہ چنار نامی درخت سے آگ جھڑتی ہے۔ اس درخت کے بڑے بڑے پتوں کی شکل انسانی پنجوں کی طرح ہوتی ہے۔
باغ ارم یا شداد
باغ ارم، گلزار ارم، بہشت ارم، بہشت شداد یا باغ شداد کو قوم عاد کے بادشاہ نے بہشت کی نقل پر کوہستان یمن میں بنوایا تھا۔ اس باغ میں خوبصورت محل اور انواع و اقسام کے درخت لگوائے گۓ تھے۔ حوروں کی جگہ حسین دوشیزایئں اور غلمانوں کی جگہ خوبصورت لڑکے رکھے گئے۔
درفش کاویانی
ضحاک کے دورحکومت میں اصفہان میں ایک لوہار رہتا تھا جس کا نام کاوہ تھا- اس کے چاربچے ضحاک کے سانپوں کی نذر ہو گئے- ضحاک کے ظلم و جورسے عوام بھی پریشان تھی- بادشاہ کے ظلم و جورکو دیکھ کرکاوہ کے دل میں جوش پیدا ہوا- اس نے اپنی دکان بند کردی اور اپنی دھونکنی
گاو زمین
وہ بیل جس کے لۓ مشہور ہے کہ اس کے ایک سینگ پر یہ زمین ٹکی ہوئی ہے اور وہ ایک مچھلی کی پیٹھ پر کھڑا ہےاور وہ مچھلی ہوا میں تیر رہی ہے-
ہما
ہما ایک خیالی پرندہ ہے جو ہمیشہ ہوا میں اڑتا ہی رہتا ہے اور زمین پر کبھی نہیں اترتا۔ اگر اس کی پرچھایئں کسی پر پڑ جائے تو وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ ہما کسی کو نہیں ستاتا صرف ہڈیاں کھا کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے-
تخت سلیمان
مشہور ہے کہ حضرت سلیمان کا تخت ہوا کے دوش پر اڑا کرتا تھا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں- نہ خود سریر سلیمان بہ باد رفتی و بس کہ ہر کجا کہ سریراست می رود بر باد (ترجمہ- صرف حضرت سلیمان کا ہی تخت ہوا میں نہیں اڑا کرتا تھا، جہاں کہیں بھی کوئی تخت ہے وہ ہوا میں
دارا سکندر
فارسی ادب میں دارا اوراسکندرکی دشمنی مشہور ہے- دارا (سوم) ہخامنشی سلطنت کا آخری بادشاہ تھا، جس نے ایران پرحکومت کی۔ اس کے دورحکومت میں سکندر نے ایران پر حملہ کیا تھا- دارا کی ہار ہوئی اور اس کو اس کے اپنے محافظین نے ہی موت کے گھاٹ اتاردیا- سکندر نے
شمع طور
کہتے ہیں کہ حضرت موسی کو سینا نامی جنگل میں کوہ طور پر اللہ کی تجلی دکھائی دی- اس وقت بڑی تیز آندھی چل رہی تھی- نورکو دیکھ کر موسی متحیر ہو گۓ- وہ اس کا راز جاننے کے لۓ کوہ طور کی طرف گئے- انہوں نے وہاں دیکھا کہ ایک درخت میں آگ لگی ہوئی ہے- جب وہ اس
گول
گول کو چھلاوہ کہتے ہیں، یہ ایک طرح کا دیو ہے جو جنگلوں، پہاڑوں یا بیابانوں میں رہتا ہے- وہ جو چاہے شکل اختیار کرسکتا ہے۔ وہ راہگیروں کو لوٹ لیتا ہے اور ان کی جان لے لیتا ہے-
گوسالہ سامری
سامری حضرت موسی کے وقت کا ایک معروف جادوگر تھا اور سامر شہرکا رہنے والا تھا- وہ حضرت موسیٰ کا مخالف تھا- ایک دفع جب حضرت موسی کوہ طور پر گۓ ہوۓ تھے تو اس نے جادو سے ایک سونے کا بچھڑا بنایا جو آواز کرتا تھا- حضرت موسی کی قوم نے اسے پوجنا شروع کر دیا-
خاتم سلیمان
مشہور ہے کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک انگوٹھی تھی،جس کی بدولت پوری دنیا پر ان کی حکومت تھی- جن و انس، دیو و پری سبھی ان کے قابو میں تھے۔ ہوا ان کے تخت کو ان کی مرضی کے مطابق اڑا کر لے جاتی تھی- ایک بار صخرہ نامی ایک جن نے اس انگوٹھی کو چرا لیا جس کی وجہ
حضرت یونس
حضرت یونس نے نینوا شہر میں لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ لوگوں سے تنگ آکر انہوں نے نینوا چھوڑ دیا- واپسی میں جب وہ ناؤ پر سوار تھے تو شدید طوفان آیا- ان کے کہنے پر ملاحوں نے انہیں سمندرمیں پھینک دیا جہاں انہیں ایک مچھلی
چاہ بلبل ہاروت وماروت و زہرہ
ہاروت و ماروت دو فرشتوں کے نام ہیں- ایک بار انہوں نے بڑبولےپن میں کہہ دیا کہ انسان تو دنیا میں حرص و ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں، ہم اگر وہاں جایئں تو ایسے رہیں جیسے پانی میں کنول- خدا نے امتحان لینے کے لۓ انہیں دنیا میں بھیجا۔ پہلے تو وہ دنیاوی حرص سے
حضرت ایوب
حضرت ایوب، قوم بنی اسرایئل کے صابر پیغمبر تھے۔ ہر حال میں راضی رہنا ان کا مزاج تھا۔ ان کے پاس بیشمارمال و دولت، بیٹے اور مویشی تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد سیلاب میں ان کی پوری کھیتی تباہ و برباد ہو گئ، سبھی مویشی جانور ہلاک ہو گۓ، ساری اولادیں مکان کے نیچے
ذوالقرنین یا اسکندر
مانا جاتا ہے کہ ذوالقرنین عظیم الشان بادشاہ تھا۔ اس نے مشرق سے مغرب تک کا سفرکیا تھا- ذوالقرنین کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے لیکن وہ کون تھا اس پر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے- قرآن میں مذکور ذوالقرنین کی کہانی کا مختصر خلاصہ مندرجہ ذیل ہے- ذوالقرنین نے مشرق
جام جم
بادشاہ جمشید کے پاس ایک پیالہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں دیکھنے پر پوری دنیا کے واقعات کا علم ہو جاتا تھا۔ اس پیالے پر لکیریں وغیرہ بنی تھیں جن سے سیاروں کی رفتار کا بھی پتہ چلتا تھا۔ اس پیالے کو جام جہاں نما اور جام جہاں بین بھی کہا
نور محمدیہ
صوفیوں کے مطابق خدا کی تجلی سے سب سے پہلے نورمحمدیہ کی تخلیق ہوئی اور پھر انہیں کی خوشی کی خاطر تمام عالم بنایا گیا-
نوشیرواں عادل
نوشیرواں ایران کا عادل بادشاہ تھا- بغداد شہراسی نے بسایا تھا- وہیں وہ عدل و انصاف کیا کرتا تھا- بزرگ مہر اس کا وزیر تھا- میسوپوٹیمیا میں انوشیرواں کے بسایے ہوئے ایوان کسریٰ کے کھنڈرات ہی رہ گئے ہیں جو آج بھی موجود ہیں- اسے طاق کسری بھی کہتے ہیں- کہتے
معجزات موسی
اللہ نے کوہ طور پر حضرت موسی کو فرعون کے جادوگروں کا مقابلہ کرنے کے لۓ دو معجزات عطا کئے- یہ دو معجزات مندرجہ ذیل ہیں- عصائے موسی یا عصاۓ کلیم- جب حضرت موسی عصا زمین پر رکھتے تھے تو وہ سانپ بن جاتا تھا- وہ عصا پانی کو کاٹ کر خشک راستہ بنا دیتا تھا-
گل و بلبل
فارسی شاعری میں گل کا ایک خاص مقام اوراستعمال ہے- گل کو ہندوستان میں گلاب کہا جاتا ہے اسی پر بلبل فریفتہ ہوتی ہے- جب سرزمین ایران پرگل کھلتے ہیں تو بلبل مدہوش ہو جاتی ہے- مولانا آزاد لکھتے ہیں- " ادھر گلاب کھلا، ادھر بلبل ہزار داستان اس کی شاخ پر بیٹھی
گنج قارون
گنج قارون سے مراد بیش بہا دولت سے ہے۔ قارون کا خزانہ اور اس کا بخل عرف عام میں مشہور ہے- قارون حضرت موسی کا چچیرا بھائی تھا- اپنے علم کیمیا کی مدد سے سونے چاندی کی تخلیق کرکے وہ اپنے خزانے میں بھر رہا تھا- اس کے پاس اتنا خزانہ جمع ہو گیا تھا کہ چالیس
قم باذنی یا دم عیسی، مرغ عیسی،مرغ مسیحا،چمگادڑ
حضرت عیسی قم باذنی کہہ کر مردہ لوگوں کو زندہ کر دیتے تھے- ان کے اس معجزے کا ذکر فارسی صوفی شعرا میں دم عیسی، اعجاز عیسوی، قم وغیرہ لفظوں سے کیا جاتا ہے-مانا جاتا ہے کہ حضرت عیسی مٹی کا ایک پرندہ بنا کر اس میں جان پھونکتے تھے اور اسے اڑا دیتے تھے- چمگادڑ
طوفان نوح یا کشتی نوح
حضرت نوح کی قوم بتوں کی پرستش کرتی تھی- انہوں نے اپنی قوم کو توحید کا پیغام دیا- صرف بیاسی (82) لوگوں کے علاوہ کوئی ان سے متفق نہ ہوا- جب باقی لوگ انہیں تنگ کرنے لگے تب عذاب الہی نازل ہوا- ایک تندور میں سے پانی پھوٹ نکلا اور موسلادھار بارش ہوئی- سب کچھ
حضرت عمر
حضرت عمراسلام کے دوسرے خلیفہ تھے۔ وہ نہایت انصاف پسند تھے۔ ایک بار ان کے لاڈلے بیٹے نے شراب پی لی- جب انہیں پتہ چلا تو انہوں نے دوسرے شرابیوں کی طرح ہی اپنےبیٹے کو بھی اسیّ )80( کوڑوں کی سزا سنائی اور خود ہی کوڑے لگانا شروع کر دیا۔ بیٹے کی آنکھوں سے
آئینۂ سکندر
مشہور ہے کہ سکندر نے سب سے پہلے آئینہ بنایا تھا۔اس آئینے سے دوربین کا کام لیا جاتا تھا۔اس میں دیکھنے پر قسطنطنیہ کا پورا شہر دکھائی دیتا تھا۔ سمندرمیں میلوں دور آتے جہاز بھی اس آیینہ میں نظر آتے تھے۔ خواجہ حافظ فرماتے ہیں- آیینۂ اسکندر جام جمست بنگر تا
مغیلاں، ببول یا کیکر
مغیلاں لفظ ام(ماں) او غیلاں(بھوت و جن وغیرہ) سے مل کر بنا ہے اور اس کے معنی دیووں کی ماں مانا جاتا ہے کہ مغیلاں یا ببول کے درختوں پر جن و بھوت وغیرہ رہا کرتےتھے-
عناصر اربعہ
اسلام کے مطابق کائنات کی تعمیرعناصراربعہ سے ہوئی ہے – فارسی اور ہندی صوفی شعرا نے بھی عناصراربعہ کو تسلیم ہے-
سات سمندر
فارسی ادب میں سمندروں کی تعداد سات مانی جاتی ہے- صوفیوں نے بھی سات سمندروں کا تذکرہ کیا ہے- دراصل سات سمندرسات منزلوں کی علامت ہیں-
جبرئیل
حضرت محمد کے پاس 'وحی' (پیغام خدا) لانے والے فرشتہ کا نام جبرئیل تھا۔ حضرت جبریئل ساتویں آسمان پر سدرۃالمنتہی (آخری پڑاو جہاں بیری کا درخت ہے) سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ انہیں مرغ سدرہ، بلبل سدرہ،طائر سدرہ، سدرہ نشین،جبریئل امین، جوہر اول، عقل کل، روح
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere