Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خانقاہ جلیلیہ، کاکو روحانیت، کرامات اور انسانیت کی روشن مثال

سید آصف امام

خانقاہ جلیلیہ، کاکو روحانیت، کرامات اور انسانیت کی روشن مثال

سید آصف امام

MORE BYسید آصف امام

    بہار کی سر زمین نے ہمیشہ روحانیت، علم و تہذیب کا پیغام دیا ہے، اسی سر زمین کی ایک عظیم نشانی ہے کاکو جو نہ صرف ایک تاریخی قصبہ ہے بلکہ ایک روحانی مینار بھی ہے، کاکو کو کمال آباد بھی کہا جاتا ہے، وہ مقدس جگہ جہاں کئی اؤلیائے کاملین نے قدم رکھے، جہاں فضا میں آج بھی عشقِ الٰہی اور خدمتِ خلق کی خوشبو مہکتی ہے۔

    حضرت شاہ جلیل کی خانقاہ تربت سے تازگی تک : 1931 میں حضرت شاہ عبدالجلیل اشرفی درویشی نے اس روحانی کارواں کی بنیاد رکھی جسے “خانقاہ جلیلیہ” کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ محض ایک عمارت نہیں بلکہ ان دلوں کے لیے جائے سکون ہے جو درد و غم کے علاج کی تلاش میں ہیں، شاہ جلیل کی زندگی انسانیت کا پیغام تھی نہ کوئی مذہبی دیوار، نہ کوئی طبقاتی تفریق، آپ کی کرامات آج بھی لوک کتھاؤں سے زیادہ سچی محسوس ہوتی ہیں اور آپ کی یاد میں پڑھے جانے والے اشعار دلوں میں بسے عشق کی گواہی دیتے ہیں۔

    درد دل کی دوا ہیں شاہ جلیل

    حسرتوں کی صدا ہیں شاہ جلیل

    جن پہ ہستی نثار ہو جائے

    ایسی دلکش ادا ہیں شاہ جلیل

    رسولن بی بی: موت سے واپسی کی کرامت : شاہ جلیل کی نسل سے تعلق رکھنے والی رسولن بی بی کا واقعہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے، بنگال کے چنہ کوڑی میں انتقال کے بعد جب تدفین کی جا رہی تھی تو کفن بار بار ہلنے لگا، جب تابوت کھولا گیا تو سانسیں چل رہی تھیں، آنکھیں کھل رہی تھیں اور رسولن بی بی مسکرا رہی تھیں، ان کے لبوں سے نکلا جملہ آج بھی سننے والوں کی روح کو ہلا دیتا ہے۔

    “میں ایک محفل میں پہنچائی گئی تھی، جہاں صرف بیبیاں تھیں، انہوں نے کہا، تو یہاں کیسے آ گئی؟ اور پھر مجھے دھکا دیا گیا اور میں واپس لوٹ آئی”

    شاہ جلیل کی ظاہری موت اور حیرت انگیز واپسی : اسی سلسلے میں ایک اور عجیب واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے، نفیصہ خاتون استادنی جی کے دادا، جنہیں “بابا” کہا جاتا تھا یعنی شاہ جلیل ایک بار مہینوں کے لیے غائب ہوگیے، لاہور میں دفن کیے جانے کی خبر جب کاکو پہنچی تو گھر میں غم، خاموشی اور سوگ چھا گیا مگر چھ ماہ بعد پٹنہ کی ایک شادی میں وہ زندہ نظر آئے، جب ننھی پوتی نے انہیں دیکھا تو وہ دوڑ کر لپٹ گئی اور بابا نے اسے سینے سے لگا لیا، جب موت کی خبر کا ذکر ہوتا تو وہ بس اتنا کہتے کہ “اللہ منع کرے”

    نفیسہ خاتون: علم، سماجی خدمت اور روحانیت کی پیکر : شاہ جلیل کی نسل میں ایک نام عزت و محبت سے لیا جاتا ہے، نفیصہ خاتون استادنی جی اردو و فارسی کی ماہر، سماجی خدمت میں پیش پیش اور روحانیت سے سرشار، محبت پور گاؤں میں انہوں نے تعلیم کی روشنی پھیلائی، مٹی کے مکان کا ایک کمرہ اور لمبا برآمدہ صبح ہوتے ہی اسکول میں تبدیل ہو جاتا، بچھو کے کاٹنے سے لے کر کتے کے زخم یا بخار تک لوگ جھاڑ پھونک کے لیے استادنی جی کے پاس آتے، ایک مشہور کرامت آج بھی بچوں کے ذہنوں میں نقش ہے جب وہ تھالی پر آیات پڑھ کر بیمار کی کمر پر رکھتی تھیں، تو وہ تھالی چپک جاتی تھی، یہ سب توہم پرستی نہیں بلکہ یقین، محبت اور خدمتِ خلق کی روشن مثالیں تھیں۔

    خانقاہ جلیلیہ: ایک روحانی ورثہ : خانقاہ جلیلیہ آج بھی ولایت، کرامات اور انسانیت کی وہ سرزمین ہے جہاں ہر کوئی سکون پاتا ہے، یہ تصوف، صوفی ازم اور انسان دوستی کا چراغ ہے، اس خانقاہ کی دیواروں سے آج بھی ایک صدا گونجتی ہے۔

    “عشقِ حقیقی سے بڑی کوئی راہ نہیں اور خدمتِ خلق سے بڑی کوئی عبادت نہیں”

    کاکو کی زمین بزرگوں کی امانت، ہماری ذمہ داری : آج جب سماج تنگ نظری، نفرت اور شک کی راہ پر چل رہا ہے، تب کاکو جیسی سرزمین اور شاہ جلیل جیسے بزرگ ہمیں سکھاتے ہیں کہ بجھتی روحوں کو روشنی دو، تکرار نہیں تعلیم اور تہذیب کی مثال بنو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے