حضرت شاه حسن داؤد بنارسی
دلچسپ معلومات
تذکرہ مشائخِ بنارس
اجلۂ وقت اور مشائخِ کبار میں سے ہیں، سلسلۂ ارادت اپنے چچا بندگی فرید کے واسطے سے خواجگانِ چشت تک پہنچتا ہے، خلافت ان ہی سے حاصل ہوئی، علوم ظاہری اور کتب متداولہ کی تکمیل اپنے چچا کی خدمت میں رہ کر کی تکمیل کے بعد درس و تدریس میں منہک رہے اور تصانیف بھی کیں، چنانچہ صرف و نحو کا ایک رسالہ تحریر فرمایا اور ’’مرغوب الطالبین‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا جو ملک العلما کے طریق ارشاد پر مشتمل ہے، طبیعت جب درس و تدریس کی جانب سے سرد پڑ گئی تو مجبوراً کتابیں بالائے طاق رکھ کر حق کی طرف مشغول ہوگیے، ریاضت و مجاہدہ بڑی سختی کے ساتھ کیے، خشک روٹی سے ہر روز افطار فرمایا کرتے تھے، آپ کے پدر بزرگوار بندگی شیخ داؤد نے دریائے گنگا و برنا کے سنگم پر راجہ بنار کے قدیم قلو کے کھنڈرات میں ایک حجرہ تیر کر رہا تھا، آپ کا قیام بھی ایک عرصے تک وہیں رکھا تھا مگر وصال سے ۷ سال پیشتر علوی پورہ میں ایک حجرہ بنا رکھا تھا، علوی پور میں شہیدوں کے مزارات کی کثرت ہے، اس تقریب سے اکثر ارواح سے ملاقات ہوتی تھی اور آپ پر قبروں کے حالات منکشف ہو جاتے تھے، استغراق کا یہ عالم تھا کہ اذان سن کر ہوش میں آ جاتے تھے اور نماز ادا فرما کر پھر استغراق کی کیفیت میں ہو جاتے، اسی عالم میں آپ کو خانۂ خدا اور بیت الرسول کی زیارت کا شوق پیدا ہوا اور نکل پڑے مگر کشتی پر چند فرنگی ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور کشتی غرق ہو گئی اور آپ اس طرح شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے، یہ واقعہ۴ جمادی الاولی ۹۰۰ھ کا ہے، اس وقت آپ کی عمر ۵۰ سال کی تھی، لوگوں کا بیان تھا کہ جس دن آپ غرق ہوئے ظہر کے وقت بندگی فرید نے جانماز اٹھائی تو شاہ حسن داؤد کی تسبیح اور کنگھی اس کے نیچے سے نکلی، دیکھ کر فرط فراق سے آنسو جاری ہوگیے اور فرمایا کہ پیشوا اس وقت دنیا سے رخصت ہوگیا، چند سال کے بعد شاہ اسمٰعیل بنارسی جو آپ کے ساتھ سفر میں تھے، بنارس واپس آئے اور واقعہ شہادت کی تفصیل بیان کی اور تاریخِ شہادت بھی وہی بیان فرمائی جو بندگی فرید نے کشف کے ذریعہ بیان فرمائی تھی۔
آپ نے تین اولاد چھوڑیں، (۱) بندگی مسعود ( ۲) شیخ معین الدین (۳) شیخ نصیرالدین۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.