عبدالسلام نعمانی کے صوفیانہ مضامین
حضرت شیخ عبداللہ بنارسی
آپ کا سلسلۂ نسب حضر ابو بکر صدیق تک پہنچتا ہے، حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیر سمنانی کے خلفا میں سے ہیں اور حضرت کے حکم سے کچھوچھہ سے بنارس تشریف لائے، ’’لطائفِ اشرفی‘‘ میں آپ کے مختصر حالات اور مناقب درج ہیں اور عبارت درج ہے۔ ’’دے قدوہ علماء صدیقی
شیخ شمس الحق دہلوی
آپ دہلی سے ہجرت کر کے بنارس تشریف لائے، شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی اولاد میں ہیں، آپ کے حالات دستیاب نہ ہو سکے، آپ کا مقبرہ نورالدین شہید، بنارس کینٹ میں ہے، ۲۹ محرم الحرام ۱۳۱۲ھ شب جمعہ میں وفات پائی۔
حضرت بندگی مسعود
اپنے والد بزرگوار کی زندگی میں نابالغ تھے، اس لیے خلافت و ارادت کی نعمت نہیں پائی مگر اس کی پوری صلاحیت موجود تھی، بندگی فرید نے علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ کرنے کے بعد اپنے حلقۂ ارادت میں داخل فرمایا، اس کے بعد شاہ عبدالعزیز جونپوری دہلوی کی خدمت
حضرت شیخ معین الدین
آپ نے اپنے برادر بزرگ بندگی مسعود سے مرید ہونے کے بعد منڈواڈیہہ میں قیام فرمایا، شاه طیب بنارسی آپ کے بڑے فرزند ہیں، ۳۰ سال کی عمر میں انتقال فرمایا، منڈواڈیہہ تالاب کے قریب ایک احاطہ کے اندر آپ کا مزار متبرک ہے جو عرف عام میں بڑی درگاہ کے نام سے مشہور
حضرت میر عارفین
چھٹی صدی ہجری کے باکمال اور صاحبِ نسبت بزرگوں میں سے ہیں، افسوس ہے کہ آپ کا مزار پُرانوار غیر معروف ہے، خاکسار مرتب کے والد ماجد مفتی محمد ابراہیم صاحب نے عرصہ تک آپ کے مزار پر حاضری دی ہے اور اپنے پیر و مرشد مولانا شاہ ضیاؤالحسن بھوپالی قدس سرہ کے
حضرت شاہ قطب علی بنارسی
آپ کا قدیم وطن اعظم گڑھ ہے، وہاں سے مستقل طور پر بنارس آکر مقیم ہوگیے سلسلۂ نسب حضرت مخدوم بیابانی تک پہنچتا ہے جو حاجی چراغ ہند سہروردی ظفرآبادی کے خلیفہ ہیں، شاہ صابر علی بنارسی سے بیعت کرنے کے بعد خرقۂ خلافت زیب تن کیا، اس کے بعد عبادت و ریاضت
خواجہ نورالدین محمد
بڑے صاحبِ نسبت بزرگ معلوم ہوتے ہیں، محلہ قزاقی پورہ متصل لاٹ بھیرو آپ کا مزار مبارک ۴ ۱؍۲ فٹ لمبا اور۲ ۱؍۲یہ فٹ چوڑا اور اسی قدر بلند ہے، مزار کے اوپر یہ قطعۂ تاریخ کندہ ہے، البتہ ایک مصرع بالکل مٹ گیا ہے۔ بوقتِ جاں سپردن خواجہ نورالدین محمد را عجب
حضرت بندگی فرید
آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق تک پہنچتا ہے، اس اعتبار سے آپ فاروقی النسل ہیں، آپ کے جدا مجد شیخ خلیل فاروقی ولایت سے تشریف لا کر قصبہ بھتری ضلع غازی پور میں مقیم ہوگیے تھے، چنانچہ آپ کی ولادت کا شرف بھی اسی مقام کو حاصل ہے اور شیخ خلیل فاروقی کو اپنی
حضرت خواجہ نعیم احمد کابلی
آپ کا وطن کابل تھا، وہاں سے اجمیر تشریف لائے اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف صحبت سے باریاب ہوئے اور ۶ صفرالمظفر بروز چہار شنبہ ۵۵۶ھ عصر کے وقت حضرات خواجہ اجمیری نے آپ کو خلافت سے مشرف فرما کر بنارس بھیجا، بنارس میں آپ
خواجہ مبارک
نویں صدی ہجری بنارس کے صاحبِ کشف و کرامات اور بڑے مرتاض بزرگوں میں سے تھے، علوم ظاہری کی تکمیل شیخ موسیٰ فردوسی کی خدمت میں رہ کر فرمائی، آپ کے زمانۂ طالبِ علمی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ میر اسمٰعیل قندھاری نے اپنے وطن سے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر
شاہ عبدالاعلیٰ بنارسی
آپ نسباً جعفری اور صادقی ہیں اور ماں کی طرف سے سید ہیں، نسب نامہ یہ ہے۔ عبدالاعلیٰ بن کریم اللہ بن ظہور محمد بن جلال بن غلام مصطفیٰ بن قیام الدین بن عبداللہ بن شاہ محمد غوث گوالیاری بن خطیرالدین ظہورآبادی بن عبداللطیف بن معین الدین قتال بن خطیرالدین
حضرت شاہ خدا بخش
سلسلۂ خلافت تاج العارفین پیر مجیب اللہ قادری کے واسطے سے مولانا محمد وارث رسولنما تک پہنچتا ہے، نسب نامہ بواسطہ شیخ زین الدین نصیرالدین چراغِ دہلی سے ملتا ہے، وطن پھلواری شریف تھا لیکن قیام بنارس میں رہا، بوقت ظہر رجب ۱۲۳۱ھ میں وصال فرمایا، مولانا کے
حضرت شاه حسن داؤد بنارسی
اجلۂ وقت اور مشائخِ کبار میں سے ہیں، سلسلۂ ارادت اپنے چچا بندگی فرید کے واسطے سے خواجگانِ چشت تک پہنچتا ہے، خلافت ان ہی سے حاصل ہوئی، علوم ظاہری اور کتب متداولہ کی تکمیل اپنے چچا کی خدمت میں رہ کر کی تکمیل کے بعد درس و تدریس میں منہک رہے اور تصانیف
شاہ محمد اسمٰعیل بنارسی
بنارس کے بڑے باکمال بزرگوں میں ہیں، آپ کو پڑھنے کا شوق بچپن ہی میں پیدا ہوا، پہلے تو قرآن پاک حفظ کیا، اس کے بعد قطبِ بنارس مولانا رضا علی کی خدمت میں رہ کر فیوض حاصل کیے، آپ کے والد بزرگوار حکیم باب اللہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا، اس لیے آپ یتیم
حضرت شیخ موسیٰ فردوسی
نویں صدی ہجری کے بڑے صاحبِ نسبت بزرگ ہیں، حضرت شیخ حاجی چراغِ ہند اور حضرت بدیع الدین مدار کے زمانے میں تھے اور ان بزرگوں کے ساتھ صحبت بھی حاصل تھی، آپ نے سلسلۂ فردوسیہ میں بیعت فرمائی تھی، اسی وجہ سے فردوسی مشہور ہیں، آپ کے والد بزرگوار شیخ عزیزاللہ
حضرت شاه دانیال بنارسی
اپنے زمانہ کے بڑے بلند مرتبہ مشائخ میں تھے، رات کو عبادت فرماتے تھے، حالت نہایت قوی تھی، بنارس کی مخلوق کو عرصہ تک فائدہ پہنچاتے رہے، سارا شہر آپ کی ولایت کا معتقد تھا، صاحبِ ’’بحر ذخار‘‘ ’’تحفۃ الابرار‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’آپ سلطان شیخ محمود
حضرت ملک فخرالدین شہید علوی
آپ حضرت سالار مسعود غازی کے قافلہ کے ہمراہ بنارس تشریف لائے، آپ کے ہمراہ حضرت ملک افضل علوی بھی تھے جن کا مقبرہ آپ کے مقبرہ سےکچھ فاصلہ پر محلہ سالار پورہ میں ہے، بنارس کا چمن پہلے پہل جین مجاہدین کے خون سے لالہ زار بنا، ان میں حضرت ملک افضل علوی اور
حضرت مخدوم تاج الدین
آپ کا مزار مبارک بنارس کی عیدگاہ لاٹ کے عقب میں مخدوم شاہ کے نام سے کافی مشہور ہے، آپ حضرت شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے خلفا میں سے ہیں، خلافت حاصل کرنے کے بعد بنارس میں قیام پذیر ہو کر مخلوق کو اپنے فیوض و برکات سے مالا مال فرماتے رہے، ہر سال۷ صفرالمظفر
ابوالبرکات بنارسی
بن مولانا فضل امام حنفی مجددی بہاری ثم البنارسی، علمائے صالحین میں سے تھے، ہندوستان میں علوم کی تحصیل کرنے کےبعد حرمین شریفین کی زیارت کے لیے تشریف لے گیے، دو مرتبہ حج فرمایا اور مصر، قاہرہ، شام اور قدس شریف تشریف لے گیے، ۱۲۷۹ھ میں ہندوستان تشریف لائے
حضرت شاہ عبدالرسول بنارسی
بنارس کے اجلہ مشائخ میں ہیں، خلافت حضرت مجا قلندر لاہرپوری سے ملی، بنارس کی مخلوق کو عرصۂ دراز تک فائدہ پہنچا کر انتقال فرمایا، قبر کاپتہ نہیں۔
حاجی شیخ ارزانی
آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق خلیفۂ دوم تک پہنچتا ہے، آپ بڑے مقدس بزرگ تھے، زیارت حرمین شریفین کی سعادت بھی حاصل فرمائی، آپ کے دادا خواجہ مبارک ارزانی فاروقی محدث تھے، جن کا تدکرہ ہوچکا ہے، ۹۸۰ھ میں وفات پائی، آپ کے اجداد رہتک سے آئے اور موضع
شاہ عبدالسبحان مچھلی شہری ثم بنارسی
تاریخ پیدائش ۱۱ ذی الحجہ ۱۲۳۳ھ بوقت صبح صادق، یوم جمعہ، بمقام مچھلی شہر، آپ کے والد بزرگوار کا نام فضل امام عباسی ہے، نسباً عباسی اور ماں کی طرف سے انصاری ہیں، ولادت کے وقت آپ کے نانا نے جو علم نجوم میں کافی مہارت رکھتے تھے، یہ پیشین گوئی سنائی تھی
حضرت مخدوم شاہ یٰسین بنارسی
مخدوم شاہ طیب بنارسی کے فیض صحبت سے مشرف ہونے والوں میں آپ کی ذات گرامی قابل ذکر ہے، ایک عرصہ تک حاضر خدمت رہ کر شرف ارادت حاصل کیا، خلافت دیوان شیخ عبدالرشید جونپوری سے ملی، مخدوم طیب کی خدمت میں رہ کر علوم ظاہری حاصل فرمائے ’’نزہۃ الارواح‘‘ کے چند
شاہ غفور اشرف سمنانی
آپ حضرت سید اشرف جہاں گیر سمنانی کے خاندان میں تھے اور بڑے ہی صوفی صافی بزرگ تھے، بنارس میں ایک عرصے تھے قیام رہا، ۱۷ شعبان المعظم ۱۲۲۶ھ میں آپ نے وفات پائی اور دریائے گنگا کے اس پار موضع بشیشر پور متصل رام نگر میں آپ کا مزار ہے۔
حضرت شاہ محمد وارث رسولنما بنارسی
محمد وارث اسم گرامی، رسول نما لقب، نجیب الطرفین سید تھے، آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے، محمد وارث بن قاضی عنایت اللہ بن حبیب اللہ بن عبدالرقیب بن سالم بن لاڈلے بن محمد معروف عرف سلونی بن سعداللہ بن خدا بخش شہید بن یحییٰ بن قطب الدین بن امیر مسعود بن جلال الدین
حضرت میر محمد غوث
آپ مولانا محمد وارث رسولنما کے خاص متوسلین میں سے ہیں، مولانا کے آپ رشتہ میں ہمشیر زادہ تھے، آپ پر مولانا کی خاص شفقت و عنایت تھی، تھوڑی مدت میں اپنے وقت کے مشاہیر سے علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی اور مولانا سے بیعت فرمائی پھر ریاضت میں مشغول ہوگیے،
خواجہ محمد طاہر
بن شیخ چاند بن حافظ حبیب اللہ بن بندگی فرید بنارسی آپ مخدوم شاہ طیب کے خاص مریدوں میں سے ہیں، ایک عرصے تک شریعت آباد میں حجرہ بنا کر سکونت کی تھی، خواجہ مبارک سوندہو کے احاطہ مزار (واقع بھدؤں) میں آپ کا مزار ہی سنگم پر ایک مسجد اور خانقاہ بھی تعمیر
ہادی علی ہفت قلم بنارسی
بن محمد مہدی خوش نویس بن مولوی عظیم بنارسی، گلی دیو متصل پرانی عدالت بنارس میں ۱۲۱۴ھ کو پیدا ہوئے حسن شعور کو پہنچے تو والد بزرگوار کے ایما سے علمائے فرنگی محل کی خدمت میں رہ کر علوم کی تکمیل کی پھر حافظ محمد ابراہیم مشہور خوش نویس سے مشق کی اور شہرت
حضرت سعید بنارسی
حضرت سید اشرف جہاں گیر سمنانی کے خلفا میں مشہور ہیں لیکن صحیح حالات نہ مل سکے، آپ کا مزار آپ ہی کے نام سے موسوم اور مشہور ہے اور متصل جلالی پورہ ریلوے لائن کے کنارے واقع ہے۔
حضرت حافظ امان اللہ حسینی بنارسی
ابن مفتی نوراللہ ابن شیخ حسین بنارسی، ہندوستان کے مشاہیر علما اور مصنفین میں سے ہیں، عالم گیر کے زمانے میں بنارس میں علما و مشائخ بے شمار ہوئے، عالم گیر کا باپ شاہ جہاں بنارس اور اس کے اطراف جون پور، غازی پور وغیرہ میں علما و مشائخ کو دیکھ کر اس علاقہ
حاجی شاہ مقصود علی بنارسی
صاحبِ باطن و پابند شریعت بزرگ تھے، میاں جی عبدالواحد انصاری (للہ پورہ) سے سلسلۂ قادریہ میں بعیت حاصل فرمائی اور اجازت و خلافت بھی ملی، محلہ للہ پورہ میں اپنے باغ کے اندر حجرہ بنا کر ذکر و شغل میں مصروف رہا کرتے تھے، جس کو بڑی امامن نے ۱۲۷۷ھ میں بذریعۂ
حضرت شاہ صابر علی
تیرہویں صدی ہجری کے بنارس کے مشہور بزرگ ہیں، قاری نورالحق رامپوری سے خرقۂ خلافت نصیب ہوا اور سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہوئے، ساری زندگی استراحت سے گریز فرمایا اور ہمیشہ اذکار میں مصروف رہے، غنودگی کے عالم میں دیوار سے تکیہ لگا لیا کرتے، اسم ذات اللہ سوا
شیخ طفیل علی اویسی
آپ کی ساری عمر توکل و ریاضت میں بسر ہوئی، سلسلۂ اویسیہ میں آپ نے بیعت کی تھی، ۱۲۰۱ھ میں انتقال ہوا، آپ کے خاندان کے لوگ موجود ہیں لیکن آپ کے حالات نہ بتا سکے، سمجد دو نیم کنگرہ چوہٹہ لال خاں کے صحن میں آپ کا مزار ہے۔
حضرت شیخ نوراللہ چشتی بنارسی
ابن حسین مفتی محمدآبادی بنارسی، احناف کے مایہ ناز عالم، مفتی اور فقیہ گزرے ہیں، عالم گیر کے زمانے میں بنارس کے قاضی تھے اور امور سلطنت میں عالم گیر آپ سے مشورہ لیا کرتا تھا، بنارس میں عالم گیر کی دی ہوئی جاگیریں آپ کے نام سے یادگار ہیں، محلہ دارا
ملا شاہ محمد عمر سابق بنارسی
ملا محمد عمر کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے، نسب نامہ یہ ہے۔ قاضی عبداللہ المشہور بہ ملا محمد عمر سابق بنارسی بن قاضی محمد غوث بن قاضی محمد سعید بن قاضی نور محمد بن قاضی عبدالکریم بن قاضی معروف بن قاضی سلیمان بن قاضی سعداللہ بن قاضی ابراہیم
شیخ حسن بنارسی
شیخ حسن کے آپ چھوٹے بھائی ہیں، ان دونوں بھائیوں کو اگر چہ مخدوم طیب سے براہ راست ارادت حاصل نہ تھی مگر اعتقاد و محبت اس قدر تھا کہ جو ارادت سے بھی بالا تر تھا البتہ خرقہ خواجگانِ چشت مخدوم طیب نے پہنایا، مرید مولانا محمد رہتگی کے تھے جو اپنے وقت کے
شاہ شمس الحق چشتی بنارسی
آپ شاہ صابر علی بنارسی کے اکلوتے فرزند ہیں، ۱۳۱۵ھ شاہ قطب علی سے مرید ہوئے، خلافت اور ہر چہار خاندان کی اجازت بھی پائی، آپ کی ذات سے اہل بنارس فیض یاب ہوئے تصوف میں آپ نے اکثر رسائل تصنیف فرمائے ہیں، ۷ صفرالمظفر ۱۳۱۶ھ میں انتقال فرمایا اور اپنے والد
حضرت شاہ رضا علی قطب بنارسی
بن مفتی سخاوت علی بن مولانا محمد ابراہیم بن ملا محمد عمر سابق بنارسی سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق پر جاکر ختم ہوتا ہے آپ ملا محمد عمر کے علمی خاندان کی آخری چشم و چراغ اور تیرہویں صدی ہجری کے ایک زبردست عالم اور درویش کامل تھے، ملا صاحب کے خاندان میں
حضرت میاں شیخ عالم
آپ حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی کے چچا ہیں، آپ کے اوقات اطاعت و عبادت میں بسر ہوتے تھے، صلاح و تقویٰ ریاضت و مجاہدہ میں یگانہ تھے، تواضع و مدارات کے خوگر تھے، ایک خاص معمول یہ تھا کہ رات کو تہجد کے لیے اٹھ کر اپنے ہاتھ سے وضو کا پانی لیتے اور نماز میں
حضرت شیخ نصیرالدین
بندگی مسعود کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں، عین جوانی کے عالم میں انتقال فرمایا، آپ کو نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی، آپ کی قبر بھی منڈواڈیہہ بڑی درگاہ کے احاطہ کے اندر واقع ہے، حضرت شاه یٰسین صاحبِ ’’مناقب العارفین‘‘ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت بندگی شاہ حسن کو
مولانا شاہ عبدالحق محدث بنارسی
بنارس میں علم حدیث کا سب سے پہلے درس دینے والوں میں مولانا عبدالحق بنارسی کام نام آتا ہے، ۱۲۰۶ھ میں نیوتنی ضلع اناؤ میں پیدا ہوئے، تیوتنی بھی ان قصبات میں ہے جن کو شاہ جہاں اپنی سلطنت کا شیرازہ کہتا تھا، تاریخی نام ’’فضل رسول‘‘ ہے، نسباً عثمانی ہیں،
حضرت شیخ عبدالمؤمن کشمیری
وطن مالوف کشمیر تھا، وہاں سے بنارس تشریف لائے، مخدوم طیب کے خاص متوسلین اور مصاحبین میں سے تھے، صاحبِ کرامات اور جامع مقامات تھے، پہلے ایک عرصہ تک ملازمت شاہی میں رہے، اس کے بعد مخدوم طیب کی خدمت میں رہے اور ریاضت و مجاہدہ کی منزلیں طے کیں، ساری زندگی
حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی
آپ کا سلسلہ حضرت عمر فاروق تک پہنچتا ہے، آپ کے جدا اعلیٰ شیخ ولایت عرب کی طرف سے ہندوستان تشریف لائے اور مضافات غازی پور میں سکونت فرمائی، نواح غازی پور میں آپ کی اولاد زیادہ ہوئیں اور متفرق مقامات پر پھلیں، شیخ خلیل فاروقی کے دو پوتے شیح فرید اور
شاہ کریم اللہ بنارسی
آبائی وطن ظہورآباد ضلع غازی پور ہے، تحصیل علوم کی غرض سے الہ آباد آئے اور علوم ظاہری و باطنی سے فراغت حاصل فرمائی، وہاں شاہ قطب الدین الہ آبادی کی خدمت میں رہ کر مرید ہوگیے پھر ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوئے، اس اثنا میں زیارت حرمین شریفین سے مشرف
حضرت ولی میاں
آپ مولانا محمد وارث رسولنما کے صاحبزادے ہیں، ولی مادر زاد تھے، ساری زندگی مجذوبانہ کیفیت طاری رہی، عشق الٰہی کا ایسا غلبہ تھا کہ دنیا و ما فیہا کی خبر نہیں رکھتے تھے، کشف و کرامات بھی ظاہر ہوتی رہیں، شب ۲۸ ماہ رجب میں وصال ہوا، مولانا رسولنما کے مزار
حضرت شاہ نور محمد
آپ کا مزار معروف جگہ شکر تالاب میں ہے، مولانا عبدالحمید فریدی پانی پتی نے اس مزار پر عرس کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اس کے متصل ہی ایک خانقاہ بھی تعمیر کرائی، حالات کہیں نہ مل سکے، زبانی طور پر جو روایات ملی ہیں، ان سے معلوم ہوا کہ جہاں گیر بادشا کے وقت
شاہ غریب حسین بنارسی
بنارس کے ایک مرد عارف اور درویش با خدا تھے، بابو جگت نرائن سنگھ (رئیسِ اعظم، بنارس) آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، چنانچہ آپ کی یادگار میں ایک مسجد بھی بنوائی اور جگت گنج اس محلہ کا نام انہیں کے نام سے موسوم ہوا، آپ عجیب درویش تھے کہ ہندو مسلمان دونوں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere