Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی

عبدالسلام نعمانی

حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی

عبدالسلام نعمانی

MORE BYعبدالسلام نعمانی

    دلچسپ معلومات

    تذکرہ مشائخِ بنارس

    آپ کا سلسلہ حضرت عمر فاروق تک پہنچتا ہے، آپ کے جدا اعلیٰ شیخ ولایت عرب کی طرف سے ہندوستان تشریف لائے اور مضافات غازی پور میں سکونت فرمائی، نواح غازی پور میں آپ کی اولاد زیادہ ہوئیں اور متفرق مقامات پر پھلیں، شیخ خلیل فاروقی کے دو پوتے شیح فرید اور شیخ داؤد علم حاصل کرنے کے لیے بنارس آئے اور پیر کے حکم سے شادی کر لی، بنارس اور اس کے اطراف میں ان کی اولاد کا سلسلہ پھیلا، مخدوم شاہ طیب شیخ داؤد کی اولاد سے ہیں، ابن شیخ معین الدین ابن شاہ حسن داؤد ابن شیخ داؤد، شیخ معین الدین ۱۰ سال کی عمر میں اپنے اس نیک بخت بیٹے کو چھوڑ کر ابدی نیند سوگیے، والدہ ماجدہ زندہ تھیں مگر پرورش پھوپھی نے کی، اس وقت آپ قرآن پاک پڑھ رہے تھے، قرآن پاک اور فارسی کی چند کتابوں کو پڑھنے کے بعد کچھ دنوں میاں شیخ نظام الدین کے مدرسہ میں حاضر رہ کر صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں شیخ نظام الدین پڑھانے کے زمانے میں حضرت مخدوم کی وضع کو بے حد پسند فرماتے تھے اور نظر عنایت کامل تھی، اکثر یہ فرماتے کہ اس لڑکے سے پیشوائی کی بو آتی ہے، دنیا اس کے برکات سے حصہ پائے گی اور یہ خاندان اس بچے کی ذات سے روشن ہوگا، یہاں پڑھنے کے بعد پھر جونپور تشریف لے گئے اور شیخ نوراللہ ہروی کی خدمت میں حاضر ہو کر شرح وقایہ، حسامی اور بعض کتابیں معانی کی پڑھیں، تنہائی بے حد پسند فرماتے تھے لیکن بعض اربابِ حقوق کے مشورہ سے شادی بھی ہوئی، ایک سال مستقل جونپور کے زمانہ قیام میں مولانا خواجہ کلاں تشریف لائے اور شیخ تاج الدین جھونسوی (خلیفہ مولانا خواجہ کلاں) بھی ہمراہ تھے، حضرت مخدوم کو خصرت مولانا خواجہ کلاں سے طالب علمی کے زمانے میں بڑی عقیدت تھی، اس تقریب نے ارادت کا شوق ظاہر کر دیا، چنانچہ مولانا خواجہ کلاں نے بزرگانہ شفقتوں کے ساتھ اپنے سلسلہ میں داخل فرما لیا اوراجازت بھی مرحمت فرمائی، شاہ یٰسین بنارسی خلیفہ مخدوم شاہ طیب بنارسی مصنف ’’مناقب العارفین‘‘ بھی اتفاقاً ایک روز وہاں حاضر تھے، بات ہی بات میں حضرت مخدوم نے اپنے حالات بیان فرمانا شروع کر دیا اور فرمایا میری خواہش ایک عرصے سے یہ تھی کہ شاہ حسن کے کسی خلیفہ سے خلافت نصیب ہو، چنانچہ آج یہ سعادت ملی کہ شاہ حسن بنارسی کے خلیفہ مولانا خواجہ کلاں سے خلافت ملی، اس کے بعد ہی سے فقیر کا دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا، اس اثنا میں ریاضت کی کٹھن منزلیں ملے کس، تنگی معاش کی بنا پر کچھ دنوں حکام بنارس کی ملازمت کی مگر اس کو پسند نہ فرمایا، بالآخر ملازمت ترک فرمائی اور تمام دنیاوی امور سے توجہ ہٹا کر جنون اور دیوانگی کی کیفیت پیدا کی، عبادت بقید اوقات فرمانے لگے، قرآن پاک کی تلاوت زیادہ فرماتے تھے، اکثر باغ اور گوشہ میں بیٹھے، اس وقت آپ کے دوستوں میں سے کچھ لوگ حج کے ارادہ سے حرمین شریفین کا سفر کرنے والے تھے، حضرت مخدوم بھی یہ سّکر بیتاب ہوگیے، یک بیک الہام ہوا کہ ابھی تم اس کے مستحق نہیں ہو، پہلے اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہو کر علوم معرفت حاصل کرو، اس کے بعد اس مبارک سفر کی سعادت حاصل کرنا، چنانچہ والدہ اور پھوپھی سے اجازت لیکر شیخ شیخ پورہ (جھونسی) کا قصد فرمایا، رسم سپاہانہ کے مطابق آپ مسلح اور سوار ہو کر مولانا خواجہ کلاں کی خدمت میں حاضر ہوئے، طریقہ تجرید سے واقف نہ تھے، اس بنا پر مولانا نے ظاہری طور پر اندازہ لگایا کہ شاید تلاش معاش کے قصد سے نکلے ہیں، اس کے بعد مولانا کے سامنے اپنے حالات بیان فرمائے، مولانا نے تسلی اور دلجوئی فرمائی اتفاق وقت سے مولانا کے خلیفہ شیخ تاج الدین بھی وہاں قیام پزیر تھے، آپ کو ان سے عقیدت بڑھی اور ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں فیض اٹھانے کا شوق غالب ہوا، چنانچہ کچھ دنوں فیض حاصل فرما کر بنارس تشریف لائے، آپ کا سلسلۂ ارادت و خلافت چشتیہ یہ ہے۔

    مخدوم شاہ طیب بنارسی من شیخہ شیخ تاج الدین جھونسوی من شیخہٖ مولانا خواجہ کلاں من شیخہٖ وعمہٖ بندگی شیخ فرید بنارسی قطب بنارسی من شنجہ خواجہ مبارک سوندھو بنارسی من شیخہٖ مخدوم محمد عیسیٰ تاج جونپوری من شیخہٖ شیخ صدرالدین طبیب دلہا من شیخہٖ شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی من شیخہٖ حضرت نظام الدین اؤلیا۔

    مخدوم تاج الدین سے سلسلۂ سہروردیہ میں بھی اجازت حاصل تھی، اعمال و اوراد چشتیہ کی اجازت مولانا خواج کلاں سے حاصل تھی، اشغال قادریہ بھی شیخ تاج الدین سے ملے تھے لیکن خرقہ قادریہ اپنے دست اقدس سے نہیں عنایت فرما سکے کیوں کہ جلدہی اجل نے آغوش میں لے لیا، مخدوم شاہ طیب پیروں کی زیارت کے قصد سے دہلی تشریف لے گیے اور مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے، جو اپنے وقت کے سلسلۂ قادریہ کے امام مانے جاتے تھے، مخدوم شاہ طیب نے ان کا سلسلہ صحیح و درست دیکھ کر ان کے دست ارادت سے خرقہ پہنا، ۲۰ سال کی عمر میں جذبۂ طلب حق نے رہنمائی فرمائی، مولانا خواجہ کلاں کے حکم سے شیخ تاج الدین کی خدمت میں حاضر ہو کر مستفیض ہوئے، اجازت و تکمیل کے بعد بنارس رخصت فرمایا، چنانچہ آپ منڈواڈیہہ تشریف لائے اور کچھ مدت تک یہاں قیام فرمایا مگر دل و دماغ سکون اور تنہائی کی تلاش میں تھا گنگا اور جمنا کے سنگم پرانا قلعہ کے قریب کھنڈرات میں حجرہ بنا کر عبادات و ریاضات میں مشغول ہوگیے، یہ دیکھ کر وہاں اور بہت سے خادموں نے بھی اپنے مکانات بنا لیے اور ہر وقت خدمت میں رہنے لگے، آپ نے اس جگہ کا نام شریعت آباد رکھا، اب بھی یہ نام ایک گاؤں کا موجود ہے مگر برنا ندی کے اُس پار ہے، شروع میں آپ کو سماع سے ذوق تھا لیکن آخر وقت میں اس سے پرہیز پیدا ہوگیا اور فرماتے تھے کہ اب سماع نہیں سننا چاہیے اس لیے کہ وہ اپنی شرطوں پر باقی نہ رہا اور زمانہ فاسد و نا موافق آگیا، یہاں تک کہ ایک روز توبہ کے بعد فرمایا کہ

    ’’الان اسمع من اللہ و الا احتاج الی السماع‘‘

    اب میں اللہ سے سنتا ہوں اور سماع کی حاجت نہیں، سماع سے اسی توبہ کا اثر ہے کہ آج تک آپ کے سلسلہ میں موقوف ہے اور اس سلسلے میں کوئی قوالی نہیں سنتا، فالحمد للہ علی ذٰلک۔

    شریعت پر کل استقامت حاصل تھی، آپ کے افعال و اقوال حضرت رسول اللہ کی سنت کے مطابق ہوتے تھے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے باب میں بڑا رسوخ تھا، اس دیار میں اکثر شادی و بیاہ کے رسوم میں بہت سی بدعتوں کا ظور ہوتا تھا، مثلاً جلوہ و نقارہ وغیرہ، آپ نے ان کا پورا پورا سد باب فرمایا بچپن میں لوگوں نے اکثر تہجد کے وقت آپ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے پایا ہے۔

    گر صد ہزار قرن ہمہ خلق کائنات

    فکر ت کنند در صفت و ذاتت اے خدا

    آخر بعجز معرفت آیند کے اے الٰہ

    دانستہ شد کہ ہیچ ندانستہ ایم ما

    ترجمہ : اے خدا! اگر تیری ذات اور صفات میں کائنات کی تمام مخلوقات سو ہزار صدیوں تک بھی غور و فکر کرتی رہیں تو آخر کار وہ عاجز ہو کر اعتراف کریں گی کہ اے خدا، یہی جانا گیا۔

    یہ اشعار پڑھتے وقت آپ کی آنکھیں پُر نم رہتی تھیں یہاں تک کہ صبح ہو جاتی تھی، آپ و تصنیف و تالیف سے بھی ذوقت تھا، آپ نے فقہ و تصوف کے مسائل جمع کرکے ایک ضخیم کتاب صلٰوۃ طیبی تحریر فرمائی، مولانا رضا علی بنارسی (۱۳۱۲ء) نے اپنے اکثر فتاوٰی میں اس کتاب کا حوالہ دیا ہے، چنانچہ ’’فیوض الرضا‘‘ میں ایک جگہ اس طرح عبارت ہے کہ

    ’’قال العالم العامل العارف الفقیہ المحقق المدفق الشیخ طیب البنارسی‘‘

    جمعہ کی نماز اکبر بادشاہ کی تعمیر کردہ مسجد (گیان باپی) میں ادا فرماتے تھے، ایک بار خطبہ میں خطیب نے اکبر کا نام لیا، شاہ طیب نے جوش میں آکر خطیب کو منبر سے نیچے اتار دینا چاہا اور فرمایا کہ خطبہ میں اس کا نام لیتا ہے؟ اتفاق وقت سے شیخ طیب کی ہیبت سے کچھ کہنے کی جرأت نہ کر سکے، ان لوگوں نے ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ ہم لوگ بادشاہ کے نوکر ہیں، اگر بادشاہ کو واقعہ کی اطلاع ہو جائے گی تو ہمارے گھروں کو تاراج کر دے گا، مولانا خواجہ کلاں نے شیخ طیب کو ہدایت فرما دی کہ موجودہ زمانہ میں بادشاہ غلط ہے، جامع مسجد نہ جایا کرو، چنانچہ منڈواڈیہہ میں نماز ادا کی گئی۔

    انتقال سے کچھ پہلے ماہ پور (جھونسی) میں مسجد کے صحن میں وضو فرمایا اور عشا کی نماز کے لیے جوں ہی تحریمہ کہا جان پاک پرواز کر گئی، یہ واقعہ شوال کی آخری شب بروز دو شنبہ ۱۰۴۲ھ کو پیش آیا، بندگی میاں شیخ نار جو آپ کے خلیفہ مطلق تھے، آپ کی لاش لے کر منڈواڈیہہ آئے اور دفن کیا، تاریخ وصال اکثر خادموں نے نظم کی ہے، فاضل الوقت شیخ مسعود اسودی نے کئی ایک تاریخیں لکھیں ہیں، مجملہ ان کے ایک یہ ہے۔

    شیخ روشن دل کہ اہل عرش و فرش

    نام پاکے او بہ پاکی می برند

    کرد چوں بر عالم بالا صعود

    رخت خود بر عرش سبحانی فگند

    یافت تاریخ عرو جشن اسودی

    جلوہ گاہِ او شدہ عرش بلند

    ۱۰۴۲ھ

    مزار کا چبوترہ بعض مریدین نے اسی سنہ میں تعمیر کرایا تھا، اس کے بعد ۱۰۵۲ھ میں آپ کے ایک خاص مرید خواجہ عبدالغفور نے گنبد تعمیر کرایا اور شیخ تاج الدین بنارسی نے مثل الجنۃ تاریخ لکھی اور شیخ مسعود نے اس کی تضمین کی ہے۔

    چو روضۂ پاک شیخ طیب بگشت

    مقام گرفتہ ہمچو جنت زینت

    کردند طبلب از خرد تاج الدین

    تاریخ بناش گفت مثل الجنت

    آپ کا مقبرہ تبرکہ منڈواڈیہہ کے اندر زیارت گاہ عام و خاص ہے، مقبرہ کا احاطہ وسیع ہے اور اس کے اندر ایک شاندار مسجد ہے، جس کو شاہ معین الدین نے ۱۲۱۹ھ میں تعمیر کرائی پھر دوبارہ ۱۳۰۵ھ میں اس کی مرمت کی گئی، محراب کے اندر یہ کتبہ مولانا وکیل احمد سکندرپوری نے نصب کیا۔

    از سرِ نو ساخت ایں مسجد دین حق

    سالہا باشد برائے اہل ایماں یادگار

    سال مسعود بنایش عاجز خستہ توشت

    مسجد درگارہِ شاہ طیب والا تبار

    احاطہ کے باہر قدیم تالاب کے پچھم طرف ایک دوسرے احاطہ کے اندر آپ کے والد بزرگوار شیخ معین الدین کی آرام گاہ ہے جو بڑی درگاہ کے نام سے مشہور ہے، احاطہ کے اندر آپ کے خاندانی بزرگوں کی قبریں ہیں، آپ کا ہر سال عرس ہوتا ہے اور ۷ شوال کو عرس کی تقریبات خانقاہ رشیدیہ، جون پور کے اہتمام سے انجام پاتی ہیں۔

    مخدوم طیب کے خلفا تین ہیں (۱) شیخ ناصرالدین (۲) دیوان شیخ عبدالرشید جونپوری، آپ کا مزار قبرستان رشیدآباد، جون پور میں ہے، خانقاہ رشیدیہ آپ ہی کے نام سے موسوم ہے، (۳) مخدوم شاہ یٰسین بنارسی مصنف ’’مناقب العارفین‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے