حضرت حافظ امان اللہ حسینی بنارسی
دلچسپ معلومات
تذکرہ مشائخِ بنارس
ابن مفتی نوراللہ ابن شیخ حسین بنارسی، ہندوستان کے مشاہیر علما اور مصنفین میں سے ہیں، عالم گیر کے زمانے میں بنارس میں علما و مشائخ بے شمار ہوئے، عالم گیر کا باپ شاہ جہاں بنارس اور اس کے اطراف جون پور، غازی پور وغیرہ میں علما و مشائخ کو دیکھ کر اس علاقہ کو اپنی سلطنت کا شیراز کہا کر تا تھا، حافظ امان اللہ بنارسی معقولات کے ایک زبردست عالم تھے اور طریقت و سلوک میں بھی ان کا مقام بہت بلند تھا، ہندوستان کے گوشے گوشے سے علوم و معرفت کے پیاسے بنارس حاضر ہو کر اپنی پیاس بجھا رہے تھے اور آپ کے حلقۂ درس میں جو بھی بیٹھا روہ آگے چل کر ایک زمانے کا پیشوا اور مسجر عالم بنا، آج کل کے خشک مولویوں کی طرح آپ کے درس میں صرف علوم ظاہری ہی پر اکتفا نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ کی درس گاہ کا ہر عالم ایک صوفیٔ باصفا اور روحانیت کا حامل ہوتا تھا، حافظ امان اللہ نے لکھنؤ جاکر ملا قطب الدین سہالوی اور دوسرے مشاہیر زمانہ سے درس لیا، ظاہر ہے کہ ملا قطب الدین کی درس گاہ کا پروردہ اور وہ مسند کمال پر فائز نہ ہو؟ فرنگی محل میں آپ نے علوم کو تکمیل فرمائی اور لکھنؤ ہی میں عالم گیر کے حکم سے صدرالصدور کا عہدہ بھی قبول فرما لیا لیکن چوں کہ فطری اور دلی لگاؤ پڑھنے پڑھانے ہی سے تھا، اس لیے بنارس میں علمی اور روحانی درس گاہ قائم کر دی اور یہ شرف صرف بنارس ہی کو حاصل ہوا کہ ہندوستان میں درس نظامیہ کے بانی اور ایک زمانے کے استاد ملا نظام الدین فرنگی محلی نے حافظ امان اللہ کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا اور علوم متعارفہ کی تکمیل فرمائی، ’’مآثرالکرام‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’تحصیل علوم متعارفہ بعد از شہادت والد ماجد خود از حافظ امان اللہ بنارسی و مولوی قطب الدین شمس آبادی نمودہ‘‘
ترجمہ : اپنے والد ماجد کی شہادت کے بعد علوم متعارفہ کی تحصیل حافظ امان اللہ بنارسی اور مولوی قطب الدین شمس آبادی سے کی۔
جس زمانے میں حافظ بنارسی لکھنؤ کے صدرالصدور تھے، اسی زمانے میں ملا محب اللہ بہاری وہاں کے قاضی تھے، ان دونوں حضرت میں علمی مباحثہ اور مناظرہ جاری تھا، جیسا کہ ملا محب اللہ بہاری کی تصنیف مسلم الثبوت میں جابجا حافظ امان اللہ کا نام آیا ہے لیکن اس مناظرہ کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آج کل کے علما کی طرح آپس میں دشمنی ہو، دونوں حضرات کے تعلقات بڑے اچھے اور خوشگوار تھے، آپ کی بہت سی تصنیفات تھی، جن میں سے اکثر ضائع ہوگئی، صرف اصول فقہ کا متن بہ زبان عربی مفسر تحریر فرمایا تھا اور اس کی شرح محکم الاصول بھی خود ہی لکھی، یہ کتاب قلمی ہے اور کرم خوردہ ہے، میرے کتب خانے میں موجود ہے جو تقریباً دو سو برس پہلے کی لکھی ہوئی ہے،
عربی کی بہت سی درسی اور متداول کتابوں پر آپ نے حواشی تحریر فرمائے ہیں، بیضاوی، عضدی، تلویح، شرح موافقت، شرع حکمۃ العین اور شرح عقائد جلالی پر آپ کے حواشی یادگار ہیں، میر باقرؔ استرآبادی اور ملا محمود جون پوری کے درمیان مسئلہ حدوث دہری پر جو مباحثہ ہوا تھا، آپ نے اس پر ایک محاکمہ بھی تحریر فرمایا ہے، دوانی کے قدیمہ و جدیدہ پر آپ نے حواشی لکھے ہیں، فن مناظرہ کی مشہور کتاب رشیدیہ پر آپ نے تنقید بھی لکھی ہے، آخر عمر میں آپ نے شاہ خوب اللہ الہ آبادی کی خدمت میں حاضر ہو کر طریقۂ نقشبندیہ میں بیعت کا شرف حاصل فرمایا اور زندگی کی آخری منزلیں اخلاص کے ساتھ عبادت و ریاضت میں بسر ہوئیں، ۱۱۳۳ھ میں آپ کا وصال ہوا اور اپنے والد ماجد مفتی نوراللہ کے پہلو میں دفن ہوئے، مقبرہ کی عمارت آپ نے اپنی زندگی ہی میں بنوائی تھی، پتھر پر ۱۰۹۶ھ بابت تعمیر کندہ ہے، آپ کے اولاد ذکور میں اب تک بہت سے حضرات زندہ ہیں اور مسجد فوارہ کے آس پاس جاگیریں آپ ہی کے وقت کی ہیں، آپ کی موجودہ اولاد میں تمام ہی لوگ شیعہ مسلک پر عامل ہیں اور اس وقت مسجد فوارہ اور مفتی نوراللہ کی خانقاہ (جو اس کے متصل ہی ہے) کے متولی مولوی فرحت حسین کوئنس کالج میں پروفیسر ہیں، خانقاہ کی دیوار پر یہ کتبہ لگا ہوا ہے۔
ز حکم شاہ سلطان شریعت
دلیل زہد، برہان طریقت
شہاب آسمانِ سرفرازی
محمد شاہ عالمگیر غازی
باستصواب نوراللہ مفتی
غلام درگہ پیران چشتی
بنائے خانقاہے ہست پیدا
ز دولت خانہ تاریخش ہویدا
۱۰۹۶ھ
آپ کا مقبرہ علوی پورہ اسٹریٹ فیلڈ روڈ کے کنارے اور یتیم خانہ مظہرالعلوم کی جید عمارت کی پشت پر مغربی جنوابی گوشے میں بڑے عالیشان قبہ کی صورت میں ہے جس پر یہ کتبہ لگا ہے۔
نماند کسے دائم اندر جہان
ندارد بقاگنبد آسمان
بغلطند زیر زمین مہو شاں
بخاک اندر آیند کیخسروان
گداوشہٖ وقانع و تاجراں
گذشتند چوں بقر دریک زماں
بسابادشاہ سکندر نشاں
نشانش نماند دریں کارواں
در حقیقت دل است روضہ دوست
ہر کہ صافش گرفت دوست از اوست
دریں شہر ہر کس کہ امددواں
بدنیا کجا یافت آرام جاں
چہ شد آں سلیماں و نوشیرواں
چہ جمشید در آخر گلستاں
نہ آں شہسواران لشکر کشاں
نہ آثار ترکش نہ تیرو کمان
روضۂ چشم کن صفا اے دوست
اوست در ہر مقام خلق از اوست
کجا خاک و کو بادو آب رواں
کجا آتشِ گرمی دیگران
نہ افلاک پائندہ و سائباں
مگر ذات حق کل یوم بشان
صاف کن روضۂ دل خود دوست
صوفی زروضۂ دل خود اواوست!
بنا کرد حافظ دریں بوستاں
زبہر خدا مرقد دوستاں
مؤرخ زامداد غیب اللساں
نکویافتہ ’’روضۂ طالبان‘‘
چشم بکشا در آب روضہ دوست
ہرچہ بینی بداں کہ مظہر اوست
’’روضۂ طالبان‘‘(۱۱۰۴ھ) مفتی نوراللہ حسینی کا مادہ سالِ وفات ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.