Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شاہ محمد وارث رسولنما بنارسی

عبدالسلام نعمانی

حضرت شاہ محمد وارث رسولنما بنارسی

عبدالسلام نعمانی

MORE BYعبدالسلام نعمانی

    دلچسپ معلومات

    تذکرہ مشائخِ بنارس

    محمد وارث اسم گرامی، رسول نما لقب، نجیب الطرفین سید تھے، آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے، محمد وارث بن قاضی عنایت اللہ بن حبیب اللہ بن عبدالرقیب بن سالم بن لاڈلے بن محمد معروف عرف سلونی بن سعداللہ بن خدا بخش شہید بن یحییٰ بن قطب الدین بن امیر مسعود بن جلال الدین بن عبدالوحید بن عبدالحمید بن حسن بن سلیمان الملقب بہ کفار شکن بن زید شہید بن احمد زاہد سوانسی بن حمزہ بن ابو علی بن عمر بن محمد توختہ بن عارف جلیل بن احمد بن توختہ مثال الرسول بن علی الکفی بن حسین ثانی بن محمد مدنی بن حسن الحمیص عرف ناصراء الترمذی بن موسیٰ الحمیص بن علی السجاد بن حسین الاصغر بن علی زین العابدین بن امام حسین۔

    آپ ۱۰۸۷ھ میں پیدا ہوئے، ولادت کے وقت کسی منجم نے یہ خبر دی تھی کہ یہ مولود اپنے وقت کا غوث الاعظم ہوگا، ’’خلیفہ رسول اللہ‘‘ سے ولادت کی تاریخ نکلتی ہے، آپ کا آبائی وطن غازی پور کا ایک اہم قصبہ نو نہرہ ہے جو علما و مشائخ کا ایک بہت بڑا مرکز تھا، عالم گیر کے زمانے میں آپ کے والد ماجد قاضی عنایت اللہ بنارس کے قاضی تھے، اس تقریب سے آپ بھی بنارس ہی میں تشریف رکھتے تھے اور والد ماجد کی وفات کے بعد یہیں رہ گیے، والد کے بعد آپ نے یہ عہدہ قبول نہ فرمایا، آپ کی عمر شریف ۷ سال کی تھی اس وقت سے عشق رسول نمایاں ہوا، مکتب کے ہم عمر طلبہ عشقیہ مضمون کے اشعار پڑھتے تو آپ فرماتے کہ ہمارا محبوب تو بس رسول خدا کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، اسی عمر میں آپ نے یہ معمول کیا کہ ہر روز عصر کے بعد خلوت میں ہوتے اور اندر سے دروازہ بند کر لیتے، تنہائی میں عشقیہ مضمون کے اشعار پڑھتے اور رو کر یہ کہتے کہ یا رسول اللہ! تنہائی میں آپ پر عاشق ہوں اور معشوق اپنے عشاق کو وصال سے مسرور کیا کرتے ہیں اور عشاق کو اپنےمعشوق سے ملنے پر فخر ہوتا ہے، افسوس کہ میرے نصیب سوتے ہیں، آپ میرے حال پر رحم نہیں فرماتے، دو برس تک آپ کا یہی انداز رہا اور آپ شوق ملاقت میں نہایت مضطر تھے کہ حضرت رسول اللہ نے اپنے جمال جہاں آرا کے دیدار سے مشرف فرمایا اور مولانا نے باطنی آنکھوں سے حضور انور کو دیکھا حضرت رسول اللہ نے آپ کی تسکین فرمائی اور فرمایا کہ اب تو تمہیں شکایت کا موقع نہیں رہا، اگر اور معشوق اپنے عشاق کو اپنے دیدار سے مسرور کیا کرتے ہیں تو میں بھی تمہیں خوش کرنے آیا ہوں، حضرت رسول اللہ واپس تشریف لے جانے لگے تو غایت شوق میں مولانا نے دامن پکڑ لیا اور کہا کہ یا مراد المشتاقین! کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ اور پھر کیوں کر اور کہاں قدم بوسی نصیب ہوگی، حضور انور نے بکمال شفقت فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، میں روز تم سے ملا کروں گا، چنانچہ اس کے بعد سے ہر روز آپ بچشم ظاہر دیدار جمال مصطفوی سے مشرف ہوا کرتے تھے، آپ پر حضرت رسول اللہ کی کمال شفقت و مہربانی تھی، یہی کیا کم تھا کہ ہر روز اپنے جمال سے مشرف فرماتے تھے، بعض اذکار و اشغال بھی آپ ہی کے عطیہ ہیں، ایک دن ارشاد نبوی ہوا کہ بعض مقامات و تجلیات و صفات وغیرہ کی سیر جو اگلے اؤلیااللہ کو نصیب ہوتی تھی، اب بعنایت الٰہی تمہارے طریقے میں پھر بخش دی جاتی ہے، خاص آپ کے سلسلے کو حضرت رسول اللہ نے دو چیزیں اور بھی بخشی ہیں، اول طریقہ نماز مکتوبی کہ معرفت کا کمال حاصل کرنے کو صرف یہی کافی ہوں اور بانصیب لوگ محض ان ہی دو چیزوں کی برکت سے مقامات کی حد کو پہنچیں، فقط اس درود کا پڑھنا یا بطریق مختص نماز ادا کرنا طالب کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے کافی ہے، جمال نبوی کا دیدار حاصل ہونے کے لیے بطریق مقرر اس درود طریقہ کو پڑھنا اور اس کی کثرت کرنا کار آمد ہے اور جنون کو دور کرنے کے لیے اکسیر اعظم ہے، طالب علمی کے زمانے میں جب کہ آپ کا حال کسی پر کھلا نہ تھا، ایک دن استاد نے فرمائش کی کہ حقہ بھر کر لاؤ، آپ نے چلم درست کرلی اور حقہ تازہ کرنے کی غرض سے صحن کی طرف گیے، حقہ تھا شیشہ کا ہتھیلی پر رکھ کر پانی کا اندازہ جو کرنے لگے تو خدا شناس آنکھوں سے خدا جانے آپ نے کیا دیکھا کہ محویت کا عالم طاری ہوگیا، واپس جانے میں دیر ہوئی تو استاد نے کسی دوسرے طالب علم کو بھیجا کہ دیکھو حقہ ٹوٹا تو نہیں، اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے، یہ طالب علم آکر دیکھنے لگا کہ حقہ ہتھیلی پر رکھا ہے اور آپ نظر گڑائے ہوئے دوسرے عالم میں محو ہیں اور آپ کے سر سے لے کر آسمان تک نور کا ستون روشن ہے اسے بہت تعجب ہوا اور استاد کو ماجرا سنایا، استاد طلبا کے ساتھ اٹھے اور تمام ہی لوگوں نے آ کر یہ حال دیکھا، استاد بھی سالکین میں سے تھے، اس حقیقت کو سمجھ گیے، دیر تک تو کھڑے محو تماشارہے، جب مولانا کے چہرے سے افاقہ کے آثار ظاہر ہوئے تو آپ اپنی جگہ لوٹ آئے، جب مولانا کو اپنی حالت سے کلی افاقہ ہوا تو آپ نے جلدی سے حقہ درست کرکے استاد کے سامنے لا رکھا، استاد کھڑے ہوگیے اور بولے کہ حضرت معاف فرمائیے گا، آپ سے ایسی خدمت لینا مناسب نہیں، شاگرد سہمے کہ دیر ہونے کی وجہ سے استاد ناخوش ہوئے، فوراً ہی معذرت کرنے لگے، استاد نے کہا کہ رنج کا کیا ذکر ہے؟ آج سے میں نے تمہاری حقیقت پہنچانی، آج سے استاد کی نگاہ میں آپ کی وقعت بہت زیادہ ہوگئی پیار کے ساتھ تعظیم کے مستحق سمجھے جانے لگے، دوسال کی مدت میں آپ نے علم فقہ اصول تفسیر، حدیث و دیگر علوم مروجہ منطق و حکمت و فلسفہ پر عبور حاصل کر لیا، آپ کے یہ استاد ملا محمد لعی ہروی تھے، جو اس دور میں علوم متداولہ معقولات و منقولات میں بڑی ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔

    جب آپ بارہوں سال میں ہوئے تو ارشاد نبوی ہوا کہ شاہ رفیع الدین قادری کے ہاتھ پر بیعت کر لو، آپ نے عرض کیا کہ میرا ارادہ تو آپ ہی کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا ہے، حضرت رسول اللہ نے بیعت قبول فرما لیا مگر یہ بھی فرمایا کہ سلسلۂ بیعت کے اجرا کے لیے ظاہر میں بھی بیعت کرنی ضرور ہے، تا ہم اپنے دادا شاہ رفیع الدین کے ہاتھ پر بیعت کر لو چنانچہ آپ سے سلسلۂ قادریہ میں مرید ہوئے، آپ نے قرآن مجید کی ایک تفسیر بھی لکھی تھی اور شرح وقایہ کا حاشیہ بھی تحریر فرمایا تھا، علوم ظاہری سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس، ہدایت و ارشاد کا سلسلہ بھی جاری فرمایا، اس زمانہ کے عام مذاق کے مطابق آپ کے یہاں منطق و فلسفہ کا درس بڑے زور و شور کے ساتھ ہوتا تھا، اسی بنا پر قاضی مبارک شارح سلّم سے علمی مناقشہ رہا، جو آپ کے ہم عصر تھے، آپ کی عادت یہ تھی کہ پاؤں کبھی نہیں پھیلاتے تھے، چنانچہ سوتے بھی تھے تو دو رانو ہوکر، اگر خادموں میں سے کسی نے استراحت فرمانے کو کہا تو آپ فرماتے کہ حق تعالیٰ کے حضور میں بے ادبانہ رہنا مناسب نہیں، آپ کو سماع سننے کی برداشت نہ تھی، آپ تعجب کے ساتھ فرماتے کہ لوگ مجلس سماع سے زندہ کیوں واپس آتے ہیں؟ ایک دن آپ کے یاروں میں سے کسی نے سماع کی خواہش کی، آپ نے فرمایا، سماع عشق کی آگ کو لہکانے والی چیز ہے جب یہ آگ خو لہکتی ہے تو اس کو بھڑکانے والی چیز سماع کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ اس حال کے آدمی کو سماع سے جان کی ہلاکت کا خوف ہے، آپ کی داہنی ہتھیلی پر پوست باریک کے نیچے سبز نشانوں میں حضرت رسول اللہ کا نام لکھا ہوا تھا، جس کو ہر شخص آسانی سے پڑھ لیتا تھا، آپ کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی، خصوصاً مراقبہ کے بعد، یہاں تک کہ بعض دوسرے لوگ بھی جو عرض حاجت کے لیے جاتے تھے ان کو مشک کی خوشبو آتی تھی، جس چیز پر آپ کا ہاتھ پہنچتا تھا اس سے بھی مشک کی خوشبو آتی تھی، آپ ایک بار شیخ قاسم سلیمانی کے مزار پر تشریف لے گیے، اتفاق سے تاج العارفین پیر مجیب اللہ قادری آپ کے خلیفہ بھی ہمراہ تھے، واپسی میں فرمانے لگے کہ حضرت قاسم بڑے خلیق ہیں، میں مزار کے دروازے ہی پر تھا کہ آکر استقبال کرکے اپنے مزار تک لے گئے، بجنسہٖ ایسا ہی اتفاق دیوان عبدالرشید جونپوری کے مزار پر بھی پیش آیا تھا، اہل مزار کے اخلاق کا جب ذکر آتا تو آپ ان دونوں بزرگوں کی تعریف فرماتے، آپ کا خطاب رسول نما مشہور ہے، آپ لوگوں کو حضرت رسول اللہ کی زیارت کرایا کرتے تھے، اس کی کیفیت یہ تھی کہ جب کوئی مستدعی ہوتی تھا تو اس کو ساڑہے تین مہینہ استخارہ کی ہدایت فرماتے، اگر امیدوار اس ہدایت پر عمل کرتا تو اس مدت میں زیادہ کی سعادت حاصل کر لیتا، گیارہویں ماہ ربیع الثانی ۱۱۶۶ھ کو ااپ کا وصال ہوا، ‘‘باذات نبی‘‘ سے آپ کے وصال کی تاریخ نکلتی ہے، آپ کے وصال کے بعد لوگوں نے بنارس کے ایک بزرگ کو دیکھا کہ بہت اضطراب میں زمین کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے، زمین کو سخت زلزلہ ہے، کچھ دیر تک ان کا یہی حال رہا، افاقہ کے بعد الحمد للہ الحمد للہ کہا، لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ زمانہ کا قطب دنیا سے اٹھ گیا، جس سے زمین تہ و بالا ہو رہی تھی، جب اس کا قائم مقام منتخب ہوا تو زمین کو سکون ہوا، آپ کا مزار شہر بنارس محلہ مولوی جی کا باڑہ میں ہے جو آپ ہی کے نام سے منسوب ہے، ہر سال ۱۲، ۱۳، ۱۴ ربیع الثانی کو اعلیٰ پیمانہ پر عرس ہوتا ہے، سارا اہتمام و انتظام خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف کے ماتحت ہے، مولانا رسول نما کے خلیفۂ خاص تاج العارفین پیر مجیب اللہ قادری ہیں، آپ نے مولانا کے ملفوظات کو جمع فرمایا ہے، جس میں مختلف رسالے ہیں، مثلاً رسالہ اذان و نماز وغیرہ و رسالہ درود و اذکار، یہ سب کتابیں اس خاندان میں خصوصیت کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں، آپ کے مستقل خلفا ۱۷ ہیں جن میں چار صاحبِ مثال اور دو مکمل گزرے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے