Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ملا شاہ محمد عمر سابق بنارسی

عبدالسلام نعمانی

ملا شاہ محمد عمر سابق بنارسی

عبدالسلام نعمانی

MORE BYعبدالسلام نعمانی

    دلچسپ معلومات

    تذکرہ مشائخِ بنارس

    ملا محمد عمر کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے، نسب نامہ یہ ہے۔

    قاضی عبداللہ المشہور بہ ملا محمد عمر سابق بنارسی بن قاضی محمد غوث بن قاضی محمد سعید بن قاضی نور محمد بن قاضی عبدالکریم بن قاضی معروف بن قاضی سلیمان بن قاضی سعداللہ بن قاضی ابراہیم بن شیخ شرف الدین بخاری بن شیخ علاؤالدین القطب بن غیاث الدین الغوث بن عظیم الدین بن احمد بن محمد بن عثمان بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب۔

    آپ کے والد اولاً عرب سے گلبار اور بخارا میں آئے، اس کے بعد وہاں سے اکبر بادشاہ کے زمانے میں ہندوستان آئے اور شاہی تعلقات کی بنا پر قصبہ کنتت ضلع مرزا پور میں جو بندھیاچل کے متصل ہے عہدۂ قضا پر مامور ہوئے، ملا صاحب کی پیدائش کنتت ہی میں ہوئی، ۱۱۳۳ھ میں پیدا ہوئے، عربی و فارسی کی متداولہ کتب اپنے والد سے پڑھیں اور فراغت حاصل کی، طبیعت میں شعر و سخن کا خداداد مذاق حاصل تھا، بچپن ہی میں بے شمار نظم فرماتے تھے، تکمیل کے قصد سے دہلی گیے، وہاں ۵ سال رہ کر علوم منطق جگمت ریاضی، فقہ، اصول، تفسیر، حدیث، معانی و بیان کی تکمیل کی، اسی زمانے میں سراج الدین علی خاں آرزوؔ اور مرزا الف بیگ شیرازی سے ملاقات ہوئی اور ملا صاحب اصلاح سخن لیتے رہے اور اپنا تخلص سابقؔ رکھا، آپ نے اپنی مثنوی قضا و قدر میں اپنی سیر و سیاحت کا بھی تذکرہ کیا ہے، شعر و سخن سے فطری مناسبت تھی، اس بنا پر اس زمانے کے نامور شعرا سے تعلق رہا، مثنوی قضا و قدر کے چند اشعار یہ ہیں۔

    چو ریحان شبابم تازہ تر بود

    عنانم در کف شوق سفر بود

    بمغرب رہ بود پیر نیک ہنجار

    بحسن خلق بامن در سفر بار

    بکام شوق رہ را می بریدم

    فضا را در مقامے وا رسیدم

    کہ بیم دزدی و غارت چناں بود

    کہ خواب خوش جو عنقابے نشاں بود

    سیر و سیاحت سے واپس آنے کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا اور کشاں طالبین آکر فیضیاب ہونے لگے، ایران کا مشہور شاعر شیخ علی حزیںؔ اصفہانی ملا صاحب ہی کے زمانے میں بنارس مقیم تھا، اس تقریب سے حزیں اور ملا صاحب کے تعلقات بڑے وسیع تھے، ابتدا میں ملا صاحب کا تعلق انگریزی حکومت سے تھا لیکن آخر میں اپنے بیٹے مولوی عنایت کی تقرری اپنی جگہ کرا دی اور خود دست بردار ہوگیے، ملا صاحب غایت درجہ منکسر اطزاج اور بڑے اچھے صوفی منش بزرگ تھے، انکساری کی یہ کیفیت تھی کہ نہ لباس فاخرہ کا شوق تھا، نہ عمدہ غذا کی خواہش، اپنے مکان میں ایک چھوٹی سی مسجد بنالی تھی، اپنے اوقات کو اس کے اندر عبادت اور اوراد و وظائف میں صرف فرماتے ہیں، آپ کے بڑے بیٹے مولوی محمد ابراہیم ایک مرتبہ سفر سے واپس آئے تو ایک قیمتی قالین لائے، ملا صاحب نے قبول نہ فرمایا، احباب اور متوسلین نے عرض کیا کہ آپ گو اپنے فقر و استغنا کے باعث قبول نہیں فرماتے لیکن صاحبزادے کو آزردہ دل کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا، ملا صاحب نے فرمایا کہ میں صرف اس خیال سے قبول نہیں کرتا کہ اس کے استعمال سے نفس سرکش کو آرام پہنچ گا، ہاں ابراہیم کے اصرار کی بنا پر اس شرط پر قبول کروں گا کہ اس قالین پر میری چٹائی بچھادی جائے، چنانچہ یہی ہوا، آپ امرا اور رؤسا کے یہاں جانے سے گریز فرماتے تھے، امرا اور نواب آپ کے یہاں آتے تھے مگر آپ کہیں نہیں گیے،

    ہر کہ راضی با رضا و با توکل می شود

    خار گرریزد اندر جیب او گل می شود

    یہ شعر صرف ملا صاحب کی اتاد طبیعت کا مصداق تھا اور یہ صرف آپ کا مقولہ نہ تھا بلکہ ساری زندگی اس پر عامل رہے، آپ کی کئی تصنیفات ہیں جن میں گنج شائگاں آپ کی پہلی تصنیف ہے اس کتاب میں متقدمین شعرا سے لے کر اپنے عہد تک کے شعرا اور فصحائے اہل عجم و ہند کا تذکرہ فرمایا ہے، اس کتاب کا قلمی نسخہ مولوی عبدالقادر وکیل (کتوا پورہ، بنارس) کے کتب خانے میں موجود تھا، اب ضائع ہوچکا ہے اور آپ کا فارسی دیوان نیز دوسری تصانیف کا سراغ اب تک نہیں لگ سکا، ۴ شعبان ۱۲۲۵ھ کو بروز سہ شنبہ آپ نے انتقال کیا، تکیہ دھنسرا تالاب پر سڑک کے شمالی جانب چبوترہ پر آپ کا مقبرہ ہے، آپ کے خاندان میں بہت سے علما و مشائخ پیدا ہوئے اور ان کی خدمات سے بنارس والوں کو نفع پہنچا، بالخصوص آپ کے خاندان کے آخری چشم و چراغ مولانا شاہ رضا علی قطبِ بنارس ہیں، جن کو بنارس کا ہر فرد جانتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے