حضرت شاہ رضا علی قطب بنارسی
دلچسپ معلومات
تذکرہ مشائخِ بنارس
بن مفتی سخاوت علی بن مولانا محمد ابراہیم بن ملا محمد عمر سابق بنارسی سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق پر جاکر ختم ہوتا ہے آپ ملا محمد عمر کے علمی خاندان کی آخری چشم و چراغ اور تیرہویں صدی ہجری کے ایک زبردست عالم اور درویش کامل تھے، ملا صاحب کے خاندان میں آپ کے وجود سے بنارس کی مخلوق کو بڑا نفع پہنچا اور اب تک یہ نفع جاری ہے، آپ کی ولادت ۱۶ صفرالمظفر ۱۲۴۶ھ بروز یکشنبہ موضع پتھرا میں ہوئی جو آپ کا نانہال تھا، ۱۲۶۴ھ میں آپ نے لکھنؤ سے علوم و فنون کی تکمیل فرمائی، ۱۲۶۶ھ میں کلام پاک حفظ فرمایا اور علم قرات بھی پڑھا، ۱۲۷۵ھ میں زیارتِ حرمین شریفین سے مشرف ہوئے، بنارس میں آپ کا حلقۂ فیض و ارشاد بہت وسیع تھا، مسجد شاہی دہرارہ میں ہر جمعہ کو امامت و خطابت فرماتے تھے اور شہر کی مرکزی عیدگاہ لاٹ میں عیدین کی امامت فرماتے تھے، ہندوستان کے دور دراز کے مقامات سے آپ کے پاس استفتا آتے تھے اور آپ ان کے جوابات تحریر فرماتے تھے، آپ کا مجموعہ فتاویٰ ’’فیوض الرضا‘‘ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکا ہے، مولانا عبدالحئی حنفی فرنگی محلی سے آپ کی علمی معاصرت تھی، ایک بار ایک مسئلہ کی تحقیق کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے تھے، لکھنؤ کے اطراف میں آپ کے علمی فضل و کمال کا بڑا شہرہ تھا، مولانا سراج الیقین بلگرامی نے اپنی ایک کتاب ’’شمس العارفین‘‘ میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’آپ بہت بڑے عالم و فاضل، حافظ و قاری، درویش کامل، صاحبِ نسبت، اہلِ دل تھے، کاتب الحروف آپ کی زیارت سے اکثر مشرف ہوا ہے، آپ یہاں کرسی میں والد ماجد کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے اور فقیر کو بھی شرف اندوز فرمایا ہے، آپ ہر وقت سر بہ گریبان حالت استغراق میں رہتے تھے، آپ کی قرات اور خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ سننے والے بے خود اور محو ہو جاتے تھے اور زمانۂ سابق میں آپ کا قیام لکھنؤ میں رہتا تھا، آخر عمر میں اپنے وطن بنارس جا رہے تھے، ایک معتمد شاہ صاحب کا بیان ہے کہ بوقت ذکر شب کو آپ کے ہاتھ پاؤں اور جملہ اعضا علٰیحدہ ہو جاتے تھے‘‘ (شمس العارفین، ص۷۴ )
آپ کا کتب خانہ نایاب اور گراں قدر علمی کتابوں پر مشتمل تھا اور اکثر کتابیں خود آپ ہی نے نقل کی ہیں، آپ خوش نویس بھی تھے اور شاعر بھی ہر صنف میں طبع آزمائی فرماتے تھے، عربی، فارسی اور اردو میں غزلیات اور دیوان کا بڑا ذخیرہ آپ نے چھوڑا تھا اور چند کتابیں بھی تصنیف کیں، جن میں مظاہرالحق عربی میلاد شریف کے جواز میں اور غائب الالباب فارسی علم قرات میں اور سفر نامۂ ہندوستان قابل ذکر ہے، ۱۲۷۶ھ میں شاہ احمد سعید مجددی دہلوی بیعت فرمائی اور بنارس میں اس سلسلہ کا اجرا فرمایا، اس کے علاوہ آپ کو دوسرے خاندان کے سلاسل کی اجازت بھی ملی تھی، آپ نے شجرہ خاندانِ نقشبندیہ صرف ۷ شعروں میں نظم بھی فرما دیا تھا، آپ کے دو بیٹے تھے، محمد شریف جنہوں نے تحصیل علم کے بعد نوجوانی کے عالم یں ۲۱؍ ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ میں پدر بزرگوار کی حیات میں انتقال فرمایا، دوسرے محمد ظریف بڑے صاحبزادے جنہوں نے آپ کی وفات کے ۵ سال کے بعد انتقال فرمایا اور اپنے والد ماجد کے پہلو میں دفن ہوئے، آپ کا وصال ۲۱؍ شعبان المعظم ۱۳۱۲ھ بروز یکشنبہ عصر و مغرب کے درمیان ہوا اور عیدگاہ لاٹ کے پوربی حصے کے قبرستان میں دفن ہوئے، آپ کے مزار کی لوح پر یہ اشعار کندہ ہیں۔
بود در ذو الجلال مولانا
شہ محمد رضا علی فانی
عالم و فاضل عدیم المثل
صاحب درع و زہد لا ثانی
سالک و کامل ولی اللہ
عارف غرق بحر عرفانی
از کمالات سینہ اش منور
دل چو خور فیض بخش نورانی
غیر حق را بدل بنودش جا
از وفور حضور ربانی
رفت در خلد روز یکشنبہ
بست دیک بد ماہ شعبانی
ہاتفے سال انتقالش گفت
خلد شد ساز قطب صمدانی
ہر سال آپ کا عرس ہوتا ہے، ۱۳۱۲ھ اور شاہ غلام محمد رضوی اور شاہ محمد اعظم کے اہتمام سے قل اور فاتحوں کا پابندی سے سلسلہ جاری ہے، کافی زائرین کا اجتماع ہو جاتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.