شاہ عبدالاعلیٰ بنارسی
دلچسپ معلومات
تذکرہ مشائخِ بنارس
آپ نسباً جعفری اور صادقی ہیں اور ماں کی طرف سے سید ہیں، نسب نامہ یہ ہے۔ عبدالاعلیٰ بن کریم اللہ بن ظہور محمد بن جلال بن غلام مصطفیٰ بن قیام الدین بن عبداللہ بن شاہ محمد غوث گوالیاری بن خطیرالدین ظہورآبادی بن عبداللطیف بن معین الدین قتال بن خطیرالدین بایزید بن فریدالدین عطارؔ بن ابو سعید بن احمد صادق بن نجیب الدین بن تقی الدین بن نورالدین ابو بکر بن محمد بن عبداللہ بن اسمٰعیل بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی مرتضیٰ۔
آپ کی دسویں پشت میں خواجہ معین الدین قتال نیشاپور سے فیروز شاہ تغلق کے عہد میں ہندوستان تشریف لائے، چوں کہ یہ بادشاہ علم دوست تھا اور اس وقت مضافات جون پور اور صوبہ الہ آباد کا انتظام در پیش تھا، اس بنا پرآپ کو قصبہ ظہورآباد ضلع غازی پور اور اس کے اطراف کی حکومت مرحمت فرمائی، اس لیے کہ اس کے اطراف کی حکومت کو اول اول آپ نے فتح فرمایا تھا، اس کے بعد آپ کے خاندان میں ۱۸۳۳ء تک عہدۂ قضا رہا اور پرگنہ ظہورآباد کے متعلق مواضعات کی رجسٹری وغیرہ خاص ظہورآباد میں محکمہ قضا میں ہوتی رہی، ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ تصوف بھی آپ کا خاندانی شغل تھا، شاہ خطیرالدین ظہورآبادی کے صاحبزادے شاہ محمد غوث گوالیاری جو آپ کی ساتویں پشت میں ہیں، علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد شیخ حمید شطاری کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کا شرف حاصل فرمایا اور بارہ تیرہ سال تک چنار کے جنگلوں میں پتیاں کھا کھا کر ریاضت شاقہ کی، آپ کا اتنا شہرہ ہوا کہ خاندان مغلیہ کے ہمایوں بادشاہ دہلی آپ کے مرید اور معتقد ہوئے اور آپ ہی کی اثنا سے دوسری بار ہمایوں کو ہندوستان کی سلطنت نصیب ہوئی جس کا ثبوت ’’گلزار ابرار‘‘ میں ہمایوں کے منقولہ خط سے ظاہر ہوتا ہے، آخر زمانہ میں گوالیار جا کر مقیم ہوگیے اور وہیں ۹۷۰ھ میں وفات پائی، آپ کا مزار بھی وہی ہے، رسالہ معراج نامہ، جواہر خمسہ اوراد غوثیہ آپ کی تصانیف مشہور ہیں، آپ کے نام سے ظہورآباد میں غوثی تالاب مشہور ہے، شاہ محمد غوث اور ان کے برادران درویشی اور مشخیت میں شیخ کہلائے، مولانا شاہ عبدالاعلیٰ کے خاندانی تعلقات قصبہ بھتری ضلع غازی پور سے زیادہ تھے جو شرفا اور سادات کی قدیم بستی ہے، آبا و اجداد کا وطن ظہورآباد ضلع غازی پور ہے، ان دونوں بستیوں کا تعلق سلاطین دہلی سے رہا ہے، چوں کہ ہندوستان میں مضافات جون پور نامور علما اور فضلا کا مرکز رہا ہے، اس وجہ سے شاہجہاں اس کو ’’شیراز ہند‘‘ کہا کرتا تھا اور اکثر مشاہیر مصنفین اسی طرح کے ہوئے ہیں، بنارس، غازی پور، اعظم گڑھ بھی مضافات جون پور میں شامل ہیں، لٰذا ان تینوں اضلاع کے لوگ بھی اکثر جون پور ہی میں شامل کیے جاتے ہیں مثلاً ملا محمود جون پور مصنف شمس بازغہ وغیرہ اعظم گڑھ کے تھے مگر جون پور کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں، شاہ عبدالاعلیٰ کا فاروقی خاندان سے قدیم تعلق تھا، ان چار مذکورہ اضلاع بنارس، جون پور، غازی پور، اعظم گڑھ میں سادات کے علاوہ عباسی، صدیقی، فاروقی، انصاری آباد ہیں، شاہ عبدالاعلیٰ نے گیارہ برس کی عمر میں کتب فارسیہ متداولہ اور عربی صرف و نحو سے فراغت حاصل کرلی، ذہانت بلا کی تھی، اس کے بعد معقول و کتب فقہ و فرائض میں ایسی مہارت تامہ حاصل کی کہ اپنے زمانہ کے دوسرے علما سے فوقیت لے گیے، ۱۷ برس کی عمر میں تمام کتب درسیہ سے فارغ ہوگیے، حدیث اپنے پدر بزرگوار شاہ کریم اللہ سے پڑھی، اس کی سند یہ ہے۔
شاہ کریم اللہ نے شاہ قطب الدین الہ آبادی سے انہوں نے اپنے والد شاہ محمد فاخر الہ آباد سے، انہوں نے شیخ محمد حیات سندھی مکی سے انہوں نے سالم بصری مکی سے انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن سالم بصری مکی سے انہوں شیخ علاؤالدین باہلی مصری سے انہوں نے شہاب بن احمد بن محمد بن شامی سے، انہوں نے یوسف بن زکریا انصاری سے، انہوں نے ابراہیم بن علی بن احمد قلقشندی سے، انہوں نے احمد بن محمد مقدسی سے انہوں نے محمد بن محمد بن ابراہیم میدومی سے انہوں نے عبداللطیف بن عبد المتعم حرّانی سے انہوں نے ابوالفرج ابن الجوزی سےانہوں نے ابو حامد بن محمد بن محمد بزاز تھے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن بسر بن حکم ملیساپوری سے، انہوں نے سفیان بن عینیہ سے، انہوں نے ابو قابوص سے انہوں نے عبداللہ بن عمر بن عاص سے، انہوں نے حضرت رسول اللہ سے حدیث پڑھی اور روایت کی ہے۔
کتاب حصن حصین قلمی مناولہ آپ کے پاس تھی، شاہ محمد فاخر الہ آبادی کی اکثر تصانیف آپ کے کتب خانے میں موجود تھیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث سے محبت اور اتباع سنت کا شوق ہمیشہ سے اس خاندان میں رہا ہے، سلسلۂ تصوف میں بیعت بھی اپنے والد بزرگوار ہی سے حاصل تھی، جو شاہ قطب الدین (بن شاہ محمد فاخر نبیرۂ شاہ محمد افضل الہ آبادی) سے خاندان چشتیہ میں بیعت رکھتے تھے، شاہزادگان دہلی جو بنارس میں مقیم تھے، وہ آپ کے مرید رہے اور ہمایوں بادشاہ کے وقت سے لے کر اب تک سلاطین مغلیہ اس خاندان کے معتقد رہے، آحر عمر میں جب کہ آنکھیں جاتی رہیں تو صرف ذکر اور شغل بیعت ہی باقی رہا، آپ کو تصنیف و تالیف سے بھی ذوق رہا، ہدایۃ المسلمین فارسی دینیات میں الفرائض علم میراث کا فارسی میں رسالہ یادگار ہے، ایک رسالہ تصوف میں بھی فارسی میں لکھا، جس میں ’’صلوٰۃ طیبی‘‘ مصنفہ شاہ طیب بنارسی کی اکثر عبارتیں منقول ہیں، چنانچہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’بداں کہ تصوف چیست و اہل تصوف کیست؟ تصوف پیروی رسول اللہ است و اہل تصوف پیروان سنت رسول اللہ اند‘‘
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیائے کرام کا اصل مقصود اتباع سنت ہی رہتا ہے، نظم تہذیب عربی متن تہذیب کو آپ نے اپنے چھوٹے صاحبزادے کمال الدین کے لیے نظم فرمایا تھا، جیسا کہ نظم کے شروع میں یہی وجہ بیان کی ہے لیکن کمال الدین فوت ہوگیے، آپ کے فتاویٰ کا ایک مجموعہ تھا جس سے آپ کی وسعت نظر کا اندازہ کیا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے آپ کے خاندان کے آخری فرد حظیرالدین نے ان تمام کتابوں کو برباد کر دیا اور آپ کے علمی خاندان سے اب علم کا خاتمہ ہو چکا ہے، سخاوت علی جونپوری جنہوں نے حدیث کی ایک کتاب ’’القویم فی احادیث النبی الکریم‘‘ مشکوٰۃ کے طرز پر لکھی ہے اور کرامت علی جونپوری مصنف مفتاح الجنۃ وغیرہ سے شاہ عبدالاعلیٰ سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا، شاہ عبدالحق محدث بنارسی بھی اکثر آپ سے ملنے کے لیے آتے تھے، شاہ صاحب کے بڑے صاحبزادے جلال الدین احمد ہیں اور چھوٹے کمال الدین احمد جو ۲۵ سال کی عمر میں قضا کر گیے تھے، ان لوگوں کا قیام چیت گنج میں تھا مگر یہ تمام اولاد اہل حدیث مسلک پر قائم تھیں، اب کوئی نہیں ہے، ۱۲۷۴ھ میں شاہ عبدالاعلیٰ نے انتقال فرمایا اور قبرستان شاہزلوگان دہلی مقیم بنارس واقع باغ فاطمان مسجد کے گوشہ جنواب و مشرق کی جانب مرزا جہاں دار بہادر بن شاہ عالم دہلی کے مقبرہ کے اوپر مدفون ہیں، قبر وصیت کے مطابق خام ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.