شاہ عبدالسبحان مچھلی شہری ثم بنارسی
دلچسپ معلومات
تذکرہ مشائخِ بنارس
تاریخ پیدائش ۱۱ ذی الحجہ ۱۲۳۳ھ بوقت صبح صادق، یوم جمعہ، بمقام مچھلی شہر، آپ کے والد بزرگوار کا نام فضل امام عباسی ہے، نسباً عباسی اور ماں کی طرف سے انصاری ہیں، ولادت کے وقت آپ کے نانا نے جو علم نجوم میں کافی مہارت رکھتے تھے، یہ پیشین گوئی سنائی تھی کہ یہ مولود نو برس کی عمر میں ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوگا، اگر اس سے بچ گیا تو بارہ برس کے سن میں پانی میں ڈوبے گا، اگر اس آفت سے بھی خدا نے نجات دی تو اس کی عمر ۸۰ برس تک پہنچے گی اور اتنی عمر میں یہ بڑے بڑے علما اور مشائخ کی خدمتوں سے فیض حاصل کرے گا، غرض اس پیشین گوئی کے مطابق ۷ برس کی عمر میں خون کے دستوں کے مریض ہوئے، اس مایوس کی حالت میں شاہ فضل اللہ دہلوی اتفاقاً بنارس تشریف لائے اور ان کی دعا کی برکت سے خدا نے صحت عطا فرمائی پھر ۱۰ برس کی عمر میں اتفاق سے اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ تالاب میں غسل کرنے کے لیے گیے اور ڈوبنے لگے مگر اس مصیبت سے بھی نجات ملی، ان سب مہلکات سے نجات پاکر قران مجید پڑھنے میں مشغول ہوگیے، والد بزرگوار نے قرآن مجید پڑھایا اور شیخ برکت اللہ انصاری سے فارسی پڑھی پھر جون پور تشریف لائے لیکن وہاں ذرائع عنقا پاکر بنارس تشریف لائے اور طالب الحق لکھنوی (مقیم مسجد چوک، بنارس) کی خدمت میں رو کر عربی پڑھنا شروع کیا، فارسی پڑھنے کا شوق بھی دامن گیر تھا، اس لیے خادم حسین (ساکن کتوا پورہ) سے جو ملا محمد عمر سابقؔ بنارسی کے علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور اسی زمانے میں لکھنؤ سے فارغ ہو کر تشریف لائے تھے، انشا و دیوان کی کتابیں پڑھیں اسی زمانے میں نواب شریعت اللہ کی ڈیوڑھی پر نواب ولایت حسین خاں اور قربان علی خاں کی تلعیم کے لیے ملازمت بھی ملی تھی، اس اثنا میں مولانا مصطفیٰ شیر بہاری شاگرد خادم حسین سے چند عربی کی کتابیں پڑھیں اس وقت علم کے لحاظ سے بنارس بڑی مرکز حیثیت کا مالک تھا، شیخ احمد اللہ محدث دہلوی، رحمت اللہ دہلوی شاگرد خاص شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، غلام یحییٰ بنارسی، غلام حسین منجم جونپوری، غلام یحییٰ لکھنوی، قطب الدین فرنگی محلی وغیرہم مشاہیر علما کا قیام تھا، آپ اپنے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ
ایک روز فجر کے وقت چوک کی مسجد میں گیے، نماز کے بعد ایک بزرگ کو مسجد کے فرش پر استراحت کی حالت میں پایا، کچھ دیر کے بعد فرمایا کہ تو کون ہے؟ جواب دیا طالب علم پھر نام پوچھا، بتایا عبدالسبحان، اس کے اور تعلیم اور مسکن کے متعلق دریافت کیا، چنانچہ ہر ایک کا جواب دیا، اس کے بعد مولانا نے حضرت کا نام نامی دریافت کیا، فرمایا کہ سید عبداللہ قندھاری، اس کے بعد دریافت فرمایا کہ کب تشریف لائے، فرمایا کل رات کو آیا، آپ نے قرینے سے گمان کیا کہ ان بزرگ نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے، فوراً حضر ما حضر لا کر پیش کیا، ارشاد ہوا کہ کس لیے یہ تکلیف گوارا کی، جواب دیا کہ صرف اپنی سعادت سمجھ کر لایا، غرض اس میں سے کچھ کھایا اور مولانا کو کھلایا پھر فرمایا کہ بھائی! نزد ما آمدہ باش، عرض کیا ان شاء اللہ اس کے بعد سے برابر وہاں جاتے رہے اور سید صاحب کی خدمت سے باریاب ہو کر ان کے سایۂ عاطفت میں علمی اور روحانی پرورش پائی، ایک روز فرمایا کہ میں تیری طبیعت کامیلان منطق کی طرف دیکھتا ہوں بھائی! فقہ، فرائض اور اصول و عقائد پڑھ کر تیرے کام آئے، چنانچہ دوسرے دن جمعہ تھا، تعمیلاً نماز، جمعہ سے پہلے شرح و قایہ لے کر حاضر ہوئے، اس وقت حضرت استراحت فرما رہے تھے، آہٹ پا کر بیدار ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھا، فاتحہ کے بعد ایسی خوشبو پھیلی کہ تمام مسجد معطر ہوگئی، اسی وقت کتاب شروع ہوگئی پھر حضرت نے فرمایا کہ یہ خوشبو جانتے ہو کیا تھی؟ آپ نے عرض کیا کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ فاتحہ کے بعد و بزرگ تشریف لائے اور انہیں کے لباس میں یہ خوشبو تھی، فرمایا کہ سچ کہا ہے کہ حضرت رسول اللہ فاتحہ کے بعد مع مصنف کتاب تشریف فرما تھے، عرض کیا کہ یہ سب آپ ہی کے فیض توجہ کا نتیجہ ہے، ورنہ
چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک؟
شرح وقایہ پڑھنے کے زمانے میں آپ کو عجیب و غریب خواب نظر آتے تھے، کبھی اپنے کو ایک مجلس کے اندر پاتے، کبھی دریا کے کنارے لق و دق میدان میں، ایک روز خواب دیکھا کہ ایک محفل میں گیے اور ایک بزرگ نے ایک کتاب مرحمت فرمائی اور حفاظت سے رکھنے کی تاکید فرمائی، دوسرے روز سید صاحب کی خدمت میں پہنچے تو پوچھا کہ کل رات تمہیں کوئی کتاب ملی ہے؟ عرض کیا کہ جی ہاں! اس کے بعد ہنس کر فرمایا کہ کل شرح وقاریہ مع الغیر و العافیہ ختم ہو جائے گی، یہ اسی کی بشارت تھی، چنانچہ ایسا ہی ہوا،
آپ کو بیعت و ارادت شاہ گلزار کشنوی سے حاصل تھی، آپ نے موصوف سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت حاصل فرمائی تھی، قیام اخیر تک محلہ کندی گرٹولہ میں رہا، آپ کے مریدین کثرت سے ہوئے اور اب بھی موجود ہیں، آپ کے ملفوظات کا قلمی اور غیر مطبوعہ دیوان آپ کے فرزند شاہ نورالحق (مالک ہندوستانی پریس) کے کتب خانے میں محفوظ ہے، جن کا اب انتقال ہوگیا ہے اور ان کے بیٹے قاری محمد ابراہیم کے پاس یہ متروکات محفوظ ہیں، آپ کا قلمی کتب خانہ اب بھی موجود ہے اور نوادر سے پُر ہے، آپ کو کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا، عبدالاحد ایک ایرانی تاجر کتب کی دوکان چوک کی مسجد کے نیچے تھی، وہ قلمی کتابوں کا بڑا ذوق رکھتا تھا، آپ اکثر وہاں سے خریدتے، ۲۷ ربیع الثانی ۱۳۲۳ھ میں ۸۹ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا، اس وقت آپ کے پوتے قاری محمد ابراہیم آپ کے جانشین ہیں، آپ کے فرزند مولانا نورالحق کا حال ہی میں انتقال ہوگیا، آپ کا مزار مبارک مسجد اونچوا، قریب شکر تالاب واقع ہے اور بڑی بلندی پر ہے، ہر سال عرس بھی ہوتا ہے، آپ کے مرید حاجی گھسیاون بھی وہیں مدفون ہیں، مولانا نورالحق نے آپ کے مزار پر یہ کتبہ نصب کیا ہے۔
چوں بنام عبد سبحان شیخ عہد
پیک رب آورد پیغام اجل
صوفی صاحب صفا قطب زماں
بندۂ خاص خدائے کم یزل
چوں تجاوز کرد از ہشتادونہ
سال عمرش وار ہیدہ از علل
عازم ملک بقا شد زیں سرا
ترک دنیا کر دیا نعم البدل
بست وہفت از ماہ چہارم وقت شب
پاس اول بودہ ہم یوم الرحل
رفت از دنیا بروضات جناں
امل اغفلا دعالم باعمل
نور محزوں جست سال انتقال
ایں ندالذغیب آمد بر محل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.