حضرت بندگی فرید
دلچسپ معلومات
تذکرہ مشائخِ بنارس
آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق تک پہنچتا ہے، اس اعتبار سے آپ فاروقی النسل ہیں، آپ کے جدا مجد شیخ خلیل فاروقی ولایت سے تشریف لا کر قصبہ بھتری ضلع غازی پور میں مقیم ہوگیے تھے، چنانچہ آپ کی ولادت کا شرف بھی اسی مقام کو حاصل ہے اور شیخ خلیل فاروقی کو اپنی خاک میں سپرد کرنے کا بھی آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ قطب تھا، جن کی شادی شیخ نور کی صاحبزادی سے ہوئی، ان سے شیخ فرید قطب اور بندگی شیخ داؤد پیدا ہوئے، بندگی فرید جب پیدا ہوئے تو والد بزرگوار شیخ نور کی خدمت میں ان کو لے کر حاضر ہوئے، شیخ نور نے دیکھتے ہی آپ کے علوشان کی بشارت دی اور تعظیم کے لیے کھڑے ہوگیے، شیخ فرید اور شیخ داؤد جب سن تمیز کو پہنچے تو تحصیل علوم کی غرض سے بنارس تشریف لائے اس وقت موسیٰ فردوسی بنارسی کا بہت شہرہ تھا، ان کی روحانی کشش نے حاضری کی سعادت بخشی، جب حضرت فرید کا شیخ ابو موسیٰ فردوسی سے سامنا ہوا تو فرمایا کہ ’’فرید ثانی! یہاں آؤ‘‘ پھر بڑے تپاک سے خیر مقدم کیا اور اندرونِ خانہ سے دو روٹیاں لا کر عنایت فرمائیں، اس کے بعد فرمایا کہ دونوں بھا ئیوں کے علم ظاہری و باطنی کی تکمیل میرے بھائی خواجہ مبارک کی تقدیر میں ہے اور ایک آدمی کے ذریعہ ان کو خواجہ مبارک کی خانقاہ میں بھیج دیا اور اس دربار میں پہنچ کر شیخ فرید نے علوم ظاہری اور باطنی کی تکمیل فرمائی، جب خواجہ مبارک کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو اپنے محبوب مرید شیخ سعداللہ کو یاد فرمایا مگر اس وقت وہ حاضر نہ تھے اور بندگی فرید موجود تھے، اس لیے تمام نعمتیں حضرت فرید ہی نے پائیں اور خلافت کی سعادت بھی حاصل کی، اس کے بعد فجر کے وقت بندگی شیخ سعداللہ حاضر ہوئے اور یہ حال دیکھا تو خواجہ کے قدموں میں گر پڑے اور بے قرابہ ظاہر کرنے لگے، حضرت نے فرمایا کہ ’’ان شاء اللہ كان خود را مضطرب مکن‘‘ خدا کو جو منظور تھا وہ ہوا، خود کو بے چین نہ کرو اور دل خوش رکھو کہ تمہیں بھی تمام سعادتیں اور نعمتیں حاصل ہیں’’ اما سعداللہ تا سعداللہ فرید تا قیامت‘‘ حضرت کے بعینہٖ یہ الفاظ تھے کہ سعداللہ کی نعمتیں سعداللہ ہی تک ہیں اور فرید کی تعمتیں قیامت تک، چنانچہ حضرت کی یہ پیشن گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور شیخ فرید کی نعمتیں اب تک جاری ہیں اور سلسلۂ ارادت تا حال جاری ہے۔
خواجہ مبارک کی نظروں میں آپ کی اتنی وقعت تھی کہ اپنے ایک خاص بھائی شیخ بدن کے ہوتے ہوئے جو کمال تقویٰ سے آراستہ تھے، آپ اپنا جانشین بنایا، آپ کی زندگی کی ابتدائی منزلیں سخت ریاضت و مجاہدہ بین سر ہوئیں، سیر و سیاحت کے سلسلے میں بہت سے متبرک مقامات کی زیارت کی اور کئی بار زیارت حرمین شریفین نصیب ہوئی، بنارس میں آپ کا مزار مبارک محلہ مدن پورہ سے متصل فرید پورہ یک مسجد کے اندر واقع ہے، یہ محلہ آپ ہی کے نام سے موسوم ہے، ہر سال ۱۴ شوال کو عرس ہوتا ہے، آپ کے تین فرزند تھے۔
(۱) میاں شیخ محی الدین، انہوں نے کتب متداولہ اپنے والد ماجد سے پڑھ کر درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمایا، صلاح و تقویٰ میں ضرب المثل تھے، پدر بزرگوار کے ہمراہ کئی بار حرمین شریفین کی زیارت کی، آپ کو بھی کئی اولاد ہوئیں، بنارس سے تھوڑی دور پر موضع محی الدین پور میں آپ کا مزار ہے، آپ کی اولاد بھی وہیں دفن ہیں۔
(۲) شیخ ابواللیث، علوم ظاہری سے فراغت نہ ہو سکی، سماع و وجدسے خاص ذوق تھا، کئی با ر سماع میں عجائب احوال کا مشاہدہ فرمایا، خواجہ مبارک کےچبوترہ مزار بھدؤں میں مدفون ہیں۔
(۳) میاں شیخ حبیب اللہ، آپ نے خرقۂ خلافت زیب تن فرمایا، پدر بزرگوار کی آپ پر شفقت رہی، علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ ہونے کے بعد صاحبِ کشف و کرامات ہوئے، حج کے ارادہ سے نکلے تھے، راستے میں فرنگی تاجروں نے پانی کے اندر ڈبو دیا اور وفات ہوئی، آپ کے صاحبزادے دو ہیں، (۱) میاں شیخ چاند بڑے صاحبزادے ہیں جن کو خرقۂ خلافت نصیب ہوا، (۲) میاں شیخ طاہر۔
شیخ فرید کے خلفا
(۱) آپ کے صاحبزادے شیخ حبیب اللہ بڑے پایہ کے عالم اور محدث گزرے ہیں، صاحبِ حال تھے۔
(۲) شاہ حسن داؤد بنارسی۔
(۳) سید بڈھ حسنی، عہدِ شیر شاہ میں اکثر افغانی آپ کے مرید ہوئے۔
(۴) میاں شیخ لاڈ جونپور میں اکثر خدمت خلق فرماتے رہے اور وہیں وصال ہوا۔
(۵) خواجہ مبارک محدث فاروقی جو اپنے زمانہ کے بڑے عالم اور محدث تھے اور ثقہ شیوخ سے سند حاصل فرمائی تھی، حدیث کی مشہور کتاب ’’مشارق الانوار‘‘ کی حدیثوں کو آپ نے خاص طور پر ترتیب دے کر ’’مدارج الاخبار‘‘ نام رکھا، شیر شاہ سوری اکثر آپ کی صحبت میں رہا کرتا تھا، آپ کی اولاد بنارس اور جونپور میں موجود ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.