Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر کے مجموعۂ ملفوظات اسرارالاؤلیا کا مطالعہ

اخلاق حسین دہلوی

شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر کے مجموعۂ ملفوظات اسرارالاؤلیا کا مطالعہ

اخلاق حسین دہلوی

MORE BYاخلاق حسین دہلوی

    دلچسپ معلومات

    ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ)

    اسرارالاؤلیا (فارسی نسخہ) مطبوعہ 1334 ۔ 1915 (بار ششم) مطبوعہ نول کشور کان پور حجم 94 صفحات سائز 17X37/8 مسطر25 سطری قلم خفی، اس کتاب میں حضرت بابا صاحب کے ملفوظات ہیں جو بائیس فصلوں پر مشتمل ہیں، ہر فصل کا عنوان جدا گانہ ہے، اس کے جامع مولانا بدرالدین اسحاق ہیں جو حضرت بابا صاحب کے خلیفہ و داماد اور حضرت بابا صاحب کی خدمت میں ہمہ وقت کے حاضر باش تھے۔

    اسرارالاؤلیا کی قدامت:- عہدِ مغلیہ کے شہرۂ آفاق عالم، درویش اور مسلم الثبوت اہلِ قلم شیخ عبدالحق محدث دہلوی (المتوفیٰ 1051 ہجری مطابق 1641 عیسوی) مولانا بدالدین اسحاق کے احوال میں لکھتے ہیں:-

    دے را رسالۂ ایست مسمیٰ اسرارالاؤلیا کہ در وے ملفوظاتِ گنج شکر راجع کردہ در علم تصریف کتابے نظم کردہ است

    ترجمہ :- ان کا ایک رسالہ ہے جس کا نام اسرارالاؤلیا ہے جس میں انہوں نے حضرت بابا صاحب کے ملفوظات جمع کئے ہیں، علم صرف میں ایک کتاب نظم کی ہے۔

    (اخبار الاخیار، مجتبائی پریس، صفحہ 67)

    مفتی غلام سرور لاہوری مرحوم نے مولانا بدالدین اسحاق کے ذکر میں لکھا ہے:-

    کتاب اسرارالاؤلیا تصنیف وے است

    (خزینۃ الاصفیا جلد 1 صفحہ 319)

    کتاب اسرارالاؤلیا ان کی (مولانا بدالدین اسحاق) کی تصنیف ہے۔

    درین خاندان دو کتاب بنام سیرالاؤلیا معروف و مشہور است یکے تالیف مولانا بدرالدین اسحاق کہ از ملفوظاتِ خواجہ فریدالحق والدین جمع آوردہ است دوم سیرالاؤلیاء تالیف سید محمد بن مبارک کرمانی رحمۃ اللہ علیہ۔

    (خزینۃ الاصفیاء جلد 1 صفحہ 366 نول کشور)

    اس خاندان میں سیرالاؤلیا نام سے دو کتابیں معروف و مشہور ہیں، ایک مولانا بدرالدین اسحاق کی تالیف ہے جس میں حضرت بابا صاحب کے ملفوظات جمع کئے ہیں، دوسری سیرالاؤلیا سید محمد بن مبارک کی تالیف ہے۔

    مفتی غلام سرور لاہوری مرحوم کے بیان سے معلومات میں یہ اضافہ ہوتا ہے کہ سیرالاؤلیا نامی کوئی کتاب مولانا بدرالدین اسحاق کی تالیف بھی ہے جو حضرت بابا صاحب کے ملفوظات پر مشتمل ہے جو اسرالاؤلیا کے علاوہ ہے جس کا ذکر انہوں نے مولانا بدرالدین اسحاق کے احوال میں کیا ہے مگر نہ تو مفتی غلام سرور لاہوری مرحوم ہی نے متذکرہ سیرالاؤلیاء کا ذکر مولانا بدرالدین اسحاق کے احوال میں کیا ہے اور نہ کسی اور نے ممکن ہے کہ مغالطہ ہوا ہو، یہ کتاب سیرالاؤلیا تالیف مولانا بدرالدین اسحاق ہمارے مطالعہ میں بھی نہیں آئی، اس لئے ہم اس کے متعلق اظہارِ خیال سے معذور ہیں۔

    کتاب شمائل الانقیاد دلائل الاتقیا تالیف مولانا رکن الدین عماد کاشانی کی فہرست مآخذات میں اسرارالمتحیرین نامی ایک کتاب ہے جو حضرت بابا صاحب ہی کے ملفوظات پر مشتمل ہے جو نایاب ہے، مؤلف کا نام بھی نہیں لکھا ہے ممکن ہے متذکرہ سیرالاؤلیا سے مراد یہی کتاب ہو، تاہم فی الحال وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

    حضرت خواجہ غلام فرید چشتی (المتوفیٰ 1319 ہجری مطابق 1901 عیسوی) جو عہدِ ماضی قریب کے ممتاز ترین مشائخ میں تھے جن کی عالمانہ اور درویشانہ شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے، ان کے ملفوظات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ علوم و فنون سے انہیں کمالِ آگاہی تھی وہ فرماتے ہیں:-

    بدرالدین اسحاق قدس اللہ سرہ جو اسرارالاؤلیاء کے جامع مسجد ہیں، ان کا ضبط تاریخ و الفاظ اس قدر پختہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے شیخ شیوخ کی زبان در فشاں سے سنا اسی طرح لکھ دیا، اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

    (مقابیس المجالس، صفحہ 365)

    متاخرین میں یہ ان جلیل القدر بزرگ کا بیان ہے جو علم و فضل اور بصیرت باطنی سے مالا مال تھے، اس بیان سے یہ مترشح ہے کہ موصوف کے زیر مطالعہ اسرالاؤلیاء کا کوئی مستند و معتبر نسخہ تھا جس کی صحت پر انہیں کامل بھروسہ تھا، شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا بیان نقل کیا جا چکا ہے وہ نہایت درجہ نقہ اور باکمال بزرگ تھے، یقیناً ان کے پیش نظر بھی اسرارلاؤلیاء کا کوئی قدیم و مستند نسخہ تھا، ممکن ہے کہ وہ قدامت کے جملہ اوصاف سے متصف ہو، تاہم شیخ عبدالحق محدث دہلوی جیسے باکمال بزرگ سے متعلق اس بدگمانی کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے کہ وہ کسی نومولود نسخے کومولانا بدرالدین اسحاق سے منسوب فرماتے جو اصول تصوف اور تعلیمات اسلامی کے خلاف مضامین پر مشتمل ہونا وہ اصول تصوف سے بھی بہرہ کامل رکھتے تھے اور تعلیمات اسلامی سے بھی اگر کم علمی اور بداحتیاطی کا شائبہ بھی پاتے تو بلا شبہ ان کی حق گوئی ہر گز اس کے اظہار میں تامل نہ کرتی۔

    سات سو برس سے زیادہ زمانہ گزر چکا ہے ہزارہا علمائے مشائخ اور صوفیائے کرام گزرے ہیں، ان بزرگوں کے جو ملفوظات دستیاب ہوتے ہیں، ان سے واضح ہے کہ ان حضرات نے بھی اسرالاؤلیا سے استفادہ کیا ہے اور روگردانی نہیں فرمائی ہے یہ بھی ہے کہ دستیاب شدہ کتب ملفوظات میں قدامت کے اعتبار سے جو فوقیت نسخۂ اسرارالاؤلیا کو حاصل ہے وہ اور کسی کو حاصل نہیں، کتب ملفوظات کے جو قدیم ترین نسخے ہندوستان کے مشہور و معتبر کتب خانوں (لائبریریوں) میں محفوظ ہیں ان میں سب سے قدیم نسخہ اسرارالاؤلیا ہی کا ہے جو 1008 ہجری (دس سو آٹھ ہجری) کا مکتوبہ ہے اور جو مولانا آزاد لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (انڈیا) کے ذخیرۂ مخطوطات کی زینت ہے۔

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر اعتبار سے اسرارلاؤلیا کا قدیم و مستند ہونا اور مولانا بدرالدین اسحاق کی تالیف ہونا ثابت ہے، حتیٰ کہ داخلی شواہد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، البتہ عصری حالات کی اثر اندازی سے اور الحاق و تحریف سے مبرا ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس سے کسی قلمی کاوش کو مفر نہیں ہے، لہٰذا ضرورت ہے کہ صحت و مقابلہ سے آراستہ کر کے اسرارالاؤلیا کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ متدین معاشرہ کو اور دینی و اخلاقی اور صوفیانہ قدروں کو از سر نو رواج عام نصیب ہو اور طالبانِ حق کی تشنتگی رفع ہو۔

    جوامع الکلم بیان:- خواجہ سید محمد حسینی گیسودراز بندہ نواز مخدوم نصیرالدین چراغ دہلی کے خلفا میں نامور شخصیت کے مالک گزرے ہیں، ان کی سوانحِ حیات سے واضح ہے کہ وہ مخدوم نصیرالدین چراغ دہلی کی وفات 757ھ کے بعد عتباتِ عالیات کی زیارت کرتے ہوئے دہلی سے دکن تشریف لے گئے تھے، گلبرگہ میں قیام فرما ہوئے اور وہیں 825ھ میں انتقال ہوا، مزار انوار گلبرگہ ہی میں ہے اور مرجع خلائق ہے۔

    اس سفر کے دوران خواجہ گیسودراز بندہ نواز حضرت بابا صاحب کے مزار پُرانوار کی زیارت کو بھی گئے تھے، جوامع الکلم کی ایک ژدلیدہ عبارت یہ بتائی ہے کہ قیام اجودھن (پاک پٹن) میں انہوں نے ایک مجموعہ ملفوظات دیکھا تھا جسے بعض مولانا بدرالدین اسحاق کا مرتبہ بتاتے تھے اور بعض کو اس سے انکار تھا، جوامع الکلم کی مشمولہ عبارت یہ ہے:-

    ملفوظے ازاں شیخ فریدالدین در اجودھن دیدم کہ آں را نسبت بہ مولانا بدرالدین اسحاق می کنند سربسر ہمہ افترا است می گویند کہ جمع کردہ مولانا بدرالدین اسحاق نیست

    (جوامع الکلم صفحہ 134)

    ترجمہ :- میں نے اجودھن میں شیخ فریدالدین کا ایک ملفوظ دیکھا ہے جسے مولانا بدرالدین اسحاق سے منسوب کرتے ہیں وہ تمام تر بہتان ہے، کہتے ہیں کہ مولانا بدرالدین اسحاق کا جمع کیا ہوا نہیں ہے۔

    اس بیان کا اسلوب حضرت خواجہ گیسو دراز کے دیگر بیانات سے مختلف مشتبہ مذبذب اور مبہم ہے، یہ نہیں کھٹکتا کہ سربسر ہمہ افترا کس سے متعلق ہے، ملفوظے سے متعلق ہے یا نسبت سے اگر دونوں ہی سے ہے تو پھر می گویند جمع کردۂ مولانا بدرالدین اسحاق نیست کیا ہے، مائنا ہوگا یہ حشو ہے جس سے ابتدائی جملوں کا مفہوم مشتبہ اور مبہم ہوگیا ہے اور یہ اسقام بتاتے ہیں کہ یہ جملے حضرت خواجہ گیسو دراز جیسے باکمال انشاپرداز کے نہیں ہوسکتے بلکہ کسی ایسے شخص کے نوشتہ ہیں جو انشاء میں کامل دسترس نہیں رکھتا تھا، یہی کیفیت ان عبارتوں کی ہے جو سیرالاؤلیا اور خیرالمجالس میں الحاق کی گئی ہیں اور ایسے ہی اسقام سے الحاق عبارتیں گرفت میں آتی ہیں البتہ ذوقِ سلیم اور ادب و انشا میں دسترس درکار ہوتی ہے۔

    بہر حال! اس مبہم و مشتبہ عبارت سے جو نکات برآمد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔

    1. ایک صدی کے اندرہی اندر مولانا بدرالدین اسحاق کے تالیف کردہ مجموعۂ ملفوظات کا ذکر مل جاتا ہے اور یہ پتہ چلتا ہے، اس عہد کے خوانداہ حضرات اس سے باخبر تھے یہ علٰحدہ بات ہے۔

    بقولِ غالب:-

    گرچہ ہے کس کس برائی سے دلے با ایں ہمہ

    ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

    پھر خواہ اسرارالاؤلیا کا صحیح نسخہ دستیاب ہوسکا تھا یا نہیں مگر اس کے وجود کی نشان دہی ہوتی ہے جس سے معقولیت کے ساتھ انکار نہیں کیا جاسکتا۔

    2. اس بیان سے یہ بھی علم میں آتا ہے کہ اجودھن (پاک پٹن) میں مختلف الخیال دو گروہ تھے ایک اس کا قائل تھا کہ مولانا بدرالدین اسحاق نے حضرت بابا صاحب کا مجموعۂ ملفوظات تالیف کیا تھا جو بقولہ مسخ شدہ صورت میں دستیاب ہوسکا تھا، دوسرا گرہ منکر تھا جو کہتا تھا کہ جمع کردۂ مولانا بدرالدین اسحاق نیست یعنی متذکرہ مسخ شدہ نسخہ ملفوظات مولانا بدرالدین اسحاق کا جمع کردہ نہیں ہی مگر اس سے انکار نہیں کہ انہوں نے حضرت بابا صاحب کا مجموعہ تالیف فرمایا تھا۔

    3. امیر خورد کرمانی کے بیان سے بھی یہ ثابت ہے کہ اجودھن (پاک پٹن) میں ایک گروہ ایسا تھا جو مولانا بدرالدین اسحاق سے عنادل رکھتا تھا، اسی کی سازش سے شیخ بدرالدین سلیمان اور مولانا بدرالدین اسحاق کے درمیان کشیدگی ہوئی تھی اور مولانا بدرالدین اسحاق نے جامع مسجد اجودھن میں سکونت اخیتار کر لی تھی، شیخ بدرالدین سلیمان حضرت بابا صاحب کے سنجھلے صاحبزادے تھے جو بھائیوں کے مشورے سے اور بعض عقیدت مندوں کے مشورے سے حضرت بابا صاحب کے سجادہ نشیں بنے تھے، مولانا بدرالدین اسحاق ان کی خدمت بھی اسی طرح کرتے تھے جس طرح حضرت بابا صاحب کی کیا کرتے تھے مگر حاسدوں کا وہ گروہ جو منصب خادمی یا بالفاظ دیگر قرب شیخ کا طالب تھا وہی مولانا بدرالدین اسحاق کا مخالف تھا اور اسی کی سازش سے ان بزرگوں کے درمیان اختلاف کی خلیج حائل ہوئی تھی، امیر خورد کرمانی لکھتے ہیں:-

    حاسدان میاں شیخ بدرالدین سلیمان درمیان خدمت مولانا بدرالدین اسحاق القائے عداوت کردند و خواستند کہ منصب خادمی خود فرد گیرند، خاطر مبارک خدمت مولانا بدرالدین اسحاق بدین سبب منفض شد۔۔۔ خدمت مولانا۔۔۔ در مسجد جمعہ آمد و بنشست

    (سیرالاؤلیا، صفحہ 171)

    ترجمہ :- حاسدوں نے شیخ بدرالدین سلیمان اور مولانا بدرالدین اسحاق کے درمیان کشیدگی کرا دی تھی اور وہ یہ چاہتے تھے کہ خادمی (قرب شیخ) کا منصب وہ حاصل کرلیں مولانا بدرالدین اسحاق کی مبارک طبیعت ان حالات سے مکدر ہوئی۔۔۔ لہذا حضرت مولانا بدرالدین اسحاق نے (کنارہ کشی اختیار کی) اور۔۔۔ جامع مسجدمیں اقامت اختیار کر لی۔

    اس کشیدگی کی تلخی مولانا بدرالدین اسحاق کی وفات کے بعد بھی برقرار رہتی محسوس ہوتی ہے کہ نامساعد حالات سے مجبور ہوکر مولانا بدرالدین اسحاق کی بیوہ جو حضرت بابا صاحب کی چھوٹی صاحبزادی تھیں گھر بار کو خیرباد کہہ کر دونوں یتیم بچوں سمیت دلی چلی آئی تھیں اور تاحیات وہ دلّی ہی میں رہیں اور حضرت محبوبِ الٰہی کی کفالت میں رہیں اور ان کے بعد ان کے دونوں بچوں نے حضرت محبوبِ الٰہی کی سرپرستی میں پرورش پائی اور پروان چڑھے بلاشبہ حضرت محبوبِ الٰہی حضرت بابا صاحب کےاصلی جانشین تھے مگر فردِ خاندان یا محرم نہیں تھے، اس سے شدید کشیدگی اور کیا ہوگی کہ اللہ والوں میں صلہ رحمی کا فقدان نظر آنے لگے۔

    چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی

    4. قیامِ اجودھن (پاک پٹن) میں مجموعۂ ملفوظات کا دیکھنا بتایا گیا ہے (ملفوظے ازاں شیخ فرید الدین) اس کے متعلق یہ بتانا تھا کہ نام اس کا کیا تھا وہ نسخہ اسرارالاؤلیا تھا یا کوئی مجموعہ اور تھا کتنا حجم تھا، کب مکتوبہ تھا اور اس میں جو ملفوظات تھے جنہیں حضرت بابا صاحب سے منسوب بتایا ہے وہ کیا تھے کیسے تھے اور کیوں سربسر ہمہ افزا کی حد میں تھے خواہ وہ بے سرو پاک حکایات کا مجموعہ ہی سہی تاہم یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ تھے جنہیں سربسر مہ افترا کہا گیا ہے کیونکہ۔

    دعویٰ بلا دلیل قبولِ خرد نہیں

    یہ بھی حیرت انگیز ہے کہ اجودھن (پاک پٹن) ہی میں ایسا مجموعۂ ملفوظات حضرت بابا صاحب سے منسوب دکھانے کی جسارت کی جائے جو سربسر ہمہ افترا کی حد میں داخل ہو جہاں حضرت بابا صاحب کی تعلیمات سے دل و دماغ متاثر تھے وہ کون ہوسکتا ہے جو ایسا، از کارِ رفتہ مجموعۂ ملفوظات دکھا سکتا تھا۔

    الغرض یہ بیان نہایت درجہ مبہم اور بغایت از کار رفتہ ہے، اس میں حضرت بابا صاحب کو ایک عامی کی مثل یاد کیا گیا ہے (ملفوظے ازاں شیخ فریدالدین) جو نظرِ عقیدت میں دقیع نہیں ہے، حضرت خواجہ گیسو دراز کے شیخ محترم مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی نے بھی کبھی اس طرح یاد نہیں فرمایا ہے، ان کی مبارک زبان پر جب حضرت بابا صاحب کا نام نامی آیا ہے کمال ادب و احترام سے آیا ہے جو مشرقی تہذیب کا خاصہ ہے، آئندہ نقاد بتائے گا کہ یہ چیستان سے کیا اور اس بیان کا ادب و انشاء میں کیا مقام ہے صدیاں گزر گئیں، اہلِ علم میں سے کوئی بھی اس عبارت سے متاثر نہیں نہ اس کے سہارے کسی نے اسرارالاؤلیا کو ناقابلِ اعتنا قرار دیا ہے بلکہ معترف ہیں کہ ضبط الفاظ اس قدر پختہ ہے کہ بعینہ حضرت بابا صاحب کا بیان معلوم ہوتا ہے، البتہ چودہویں صدی کے ربع آخر میں ایسے اشخاص جو ادب و انشاء کی نزاکتوں سے نا آشنا ہیں وہ اس عبارت کے سہارے اسرارالاؤلیا کو جعلی بنانے لگے ہیں۔

    5. جس نسخۂ ملفوظات کا ذکر متذکرہ عبارت میں ہے اور جو سر برسہ ہمہ افترا کی مد میں شمار ہے وہ کیا تھا، اس کا آج بھی کسی کو علم نہیں ہے مگر اسرارالاؤلیاء کے دستیاب ہونے والے نسخے پر آج بھی سربسر ہمہ افترا کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ اسرارالاؤلیا کا متداول نسخہ اصولِ شریعت و طریقت کے بالکل مطابق ہے اور صحیفۂ رشد و ہدایت ہے اور اس کی روایات پر جو اعتراضات کئے ہیں وہ سطحی ہیں۔

    متذکرہ بیان جسے حضرت خواجہ گیسو دراز سے منسوب کیا گیا ہے اور جوفی الواقع ان کا نہیں ہے اور جو نہایت درجہ مبہم مشتبہ اور مذبذب ہے اور جس سے صحیح نقطہ واضح نہیں ہوتا ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے بلکہ اس کو حضرت خواجہ گیسودراز سے منسوب کھلا افترا بھی ہے اور جب کبھی کوئی صاحب کمال جوامع الکلم پر لکھے گا تو پوست کندہ کیفیت سامنے آجائے گی۔

    جوامع الکلم حضرت خواجہ گیسو دراز کا مجموعۂ ملفوظات ہے جسے ان کے صاحبزادے سید محمد اکبر حسینی نے مرتب فرمایا تھا جو تمام تر دس ماہ کا مجموعۂ ملفوظات ہے (18 رجب 802 ہجری تا 22 ربیع الثانی 803 ہجری) اس پر یہ اعتراض بھی ہے، اس کے بعض بیانات سے یہ بھی مترشخ ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ گیسو دراز مائل بشیعیت تھے مگر اس خیال کی تردید جوامع الکلم کے دیگر بیانات سے ہوتی جاتی ہے لیکن یہ واقعہ ہے اور افسوس ناک واقعہ ہے کہ جوامع الکلم میں متعدد ایسی روایتیں ہیں کہ شرم و حیا سے آج بھی کوئی مہذب باپ اپنے بیٹے کے سامنے بیان نہیں کرسکتا، کتنی ہی ایسی روایتیں ہیں جن سے بمشکل ہی کوئی اچھا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، کتنی ایسی ہیں جن سے متدین اور نیکوکار اشخاص کی شخصیت مجروح نظر آتی ہے کہ حتی خواجہ اقبال تک بد دیانتی سے ملوث نظر آتے ہیں جو بچپن سے پڑھاپے تک حضرت محبوب الٰہی کی خدمت میں رہے تھے اور خادمِ خاص کے منصب پر فائز تھے بلکہ حضرت محبوبِ الٰہی کی ذات گرامی بھی ملوث دکھائی دیتی ہے یہ کیا ہے، اگر الحاق و تصرف نہیں ہے اسی طرح ملفوظات کے متعلق جو کچھ ہے وہ بھی الحاق و تصرف ہی ہے اور وہ حضرت خواجہ گیسو دراز کا بیان نہیں ہے۔

    تاریخی اندراج :- کتب دینیات ہوں یا کتب تصوف ان میں تاریخی اندراج کی نہ کچھ اہمیت تھی اور نہ عہد قدیم میں اس کا رواج و اہتمام تھا چنانچہ متعدد کتابیں اس وصف سے معرا ملتی ہیں، غالباً اسرارالاؤلیا پہلا مجموعۂ ملفوظات ہے جس کے آغاز میں ایک تاریخی اندراج ہے جو غلط اور محرف ہے، غلطی کا سبب کاتبوں اور ناقلوں کا سہو بھی ہوسکتا ہے اور نہ تحریف و الحاق کرنے والوں کی کاریستانی ہے۔

    نقاد ہو یا محقق یا سوانح نگار تاریخی اندراجات سے کام لینے سے پہلے اس کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ تاریخی اندراجات کو خوب اچھی طرح کسوٹی پر کس لے اگر صحیح ہیں تو فہو المراد اور اگر غلط ہیں ان کو بے تکلف مسترد قرار دے اور تحقیق سے صحیح تاریخی تعین کی کوشش کرے اور ہر گز غلط تاریخی اندراج کو محور نہ بنائے ورنہ کیا دھرا سب اکارت جائے گا، سنین کے اندراجات میں اکثر غلطیاں ہوئی ہیں، خواہ نقل و کتابت ہی اس کا سبب ہو، تاریخی فرشتہ نہایت متداول تاریخی کتاب ہے مگر غلطیوں سے مبرا نہیں طبقات ناصری اور تاریخی فیروز شاہی برنی سے بھی مستثنیٰ نہیں ہیں مگر آج تک کسی دانشور نے غلط تاریخی اندراج کو صحیح و معتبر قرار دے کر محور نہیں بنایا ہے یہ انسانی لغزش ہے، اسے نظر انداز کرنا ہی ہوتا ہے۔

    اسرارالاؤلیا کی پہلی فصل کے آغاز میں ایک تاریخی اندراج ہے جو غلط ہے بلکہ محرف ہے ا س کے علاوہ اس میں اور کہیں کوئی تاریخی اندراج نہیں ہے اور وہ غلط اندراج یہ ہے۔

    دو شنبہ ہثردہم شعبان سن 631 ہجری احدیٰ و ثلٰثین و ستتہ مأیۃ

    (اسرارالاؤلیا، صفحہ 3)

    یعنی پیرکارن :- شبِ برات کے مہینے کی اٹھارہویں تاریخ 631 ہجری اس تاریخی اندراج کو تقویم کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہئے کہ صحیح ہے یا نہیں تو فہو المراد ہے اور اگر غلط ہے تو داخلی شواہد سے کام لے کر صحیح تاریخی اندراج کے استقراء کی کوشش کرنی چاہئے۔

    تقویم بتاتی ہے کہ 18 شعبان 631 ہجری کو دو شنبہ نہیں جمعہ ہے، تقویم میں ایک دن کا فرق تو ہوسکتا ہے مگر بالعموم اس سے زیادہ نہیں ہوتا، تقویم کے اعتبار سے 29 کو چاند نظر آتا تھا مگر کہیں مطلع صاف تھا اور کہیں نہ تھا، لہٰذا کہیں چاند نظر آیا اور کہیں نظر نہیں آیا جہاں نظر آیا وہاں تقویم سے مطابقت برقرار رہی اور جہاں نظر نہیں آیا وہاں ایک دن کا فرق پڑ گیا، ان ہی وجوہ کی بنا پر دو مختلف مقامات پر بعض اوقات دو مختلف دنوں میں عیدالفطر منائی جاتی رہی ہے اگر اس میں دن تاریخ اور مہینے کو صحیح مان لیا جائے جو صحیح بھی ہے تو داخلی شواہد بتاتے ہیں کہ 631 ہجری غلط ہے، 657 عیسوی ہونا چاہئے جو کاتب و ناقل کے سہو کی بنا پر تحریفی کارستانی کی بدولت غلط کر دیا گیا ہے، یہ بھی ہے کہ اسرارالاؤلیاء کے مطبوعہ نسخے میں نقل و کتابت کی بکثرت غلطیاں ہیں جن کی نشاندہی بآسانی کی جاسکتی ہے، حیرت ہے کہ مطبع نول کشور، کان پور سے نسخۂ اسرارالاؤلیاء اس قدر غلط کیسے شائع ہوگیا ہے۔

    داخلی شواہد :- داخلی شواہد سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت مخفی نہیں رہی کہ اسرارالاؤلیا کی تدوین و تالیف کاتعلق کس عہد سے ہے، داخلی شواہد میں سے بعض شواہد یہ ہیں۔

    1. امیر خورد کرمانی کا بیان ہے، دیگر تذکرہ نویس بھی اس سے متفق ہیں کہ مولانا بدرالدین اسحاق جب دلّی سے بخارا کے لئے روانہ ہوئے اور اجودھن (پاک پتن) پہنچے تو انہوں نے حضرت بابا صاحب کی خدمت میں حاضر کی سعادت حاصل کی تھی۔

    (سیرالاؤلیاء صفحہ 170)

    2. حضرت بابا صاحب آخری چوتھائی مدتِ حیات میں اجودھن (پاک پتن) میں سکونت پذیر تھے، قیام اجودھن (پاک پتن) کی مدت امیر خورد کرمانی نے اٹھارہ یا چوبیس سال بتائی ہے (اسرارالاؤلیا صفحہ 63) گویا کہ یقینی طور پر وہ بھی بتا نہیں سکے ہیں، علی بن محمود جاندار شاہ نے ستائیس سال بتائی ہے (دار نظامی صفحہ 128) اس اعتبار سے اجودھن (پاک پتن) میں قیام کا آغاز 652 ہجری اور دورانِ قیام اجودھن (پاک پتن) میں مرتب ہوتا ہے وہ 643 ہجری سے پہلے ہرگز مرتب نہیں ہوسکتا، سبب کچھ بھی ہو مگر یہ تاریخی اندراج قطعاً غلط ہے اور تحقیقی و تنقیدی نقطۂ نظر سے ہرگز اسے محور نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

    3. سن 633 ہجری میں حضرت بابا صاحب کا قیام بالاتفاق ہانسی میں تھا (سیرالاؤلیا صفحہ 94) قرین قیاس یہ ہے کہ 631 ہجری میں بھی ہانسی ہی میں ہوگا لیکن اگر ہانسی قیام نہ ہو تو نہ سہی تاہم اجودھن (پاک پتن) میں قیام ہرگز نہیں نہ تھا، واقعات شاہدی ہیں کہ حضرت بابا صاحب نے 633 سے کہیں بعد اجودھن (پاک پتن) میں سکونت اختیار کی تھی، لہٰذا جو مجموعۂ ملفوظات اجودھن (پاک پتن) میں مرتب ہوا ہے وہ 631 ہجری میں مرتب نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے کہیں بعد ہوا ہے اور اسرارالاؤلیاء میں مندرج 631 محرف اور قطعا غلط ہے۔

    3. جب خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اسرارالاؤلیا کا جائزہ لیا جاتا ہے اور مطالعہ کیا جاتا ہے تو زیادہ نہیں تو دو نکتے ایسے ضرور ملتے ہیں جن کی مدد سے اسرارالاؤلیا کے عہد تدوین کا تعین بآسانی کیا جاسکتا ہے۔

    الف :- اسرارالاؤلیا کی آخری اور بائیسویں فصل کے اختتام پر یہ عبارت ملتی ہے۔

    پس ایں بود کہ از اسرار انوار و الفاظ در را شیخ الاسلام در مدت و دراز دہ سال شنیدہ است دریں مجموعہ نوشتہ آمد

    (اسرارالاؤلیا، صفحہ 94)

    گویا کہ یہ مجموعۂ ملفوظات اسرارالاؤلیاء بارہ سالہ شغف و انہماک کا ثمرہ ہے جو مرتب کرنے والے کے فطری ذوق کا آئینہ دار ہے۔

    ب:۔ اسرارالاولیاء کے مطالعہ سے یہ واضح ہے کہ پندرہویں فصل سے آخر تک آٹھ فصلوں کے شرکا میں حضرت محبوبِ الٰہی بھی ہیں، جس سے یہ ثابت ہے کہ اس بارہ سالہ مدت میں وہ زمانہ بھی شامل ہے کہ جب حضرت محبوبِ الٰہیؒ اجودھن (پاکپن) میں حضرت بابا صاحبؒ کی خدمت میں تھے۔

    امیرِ خورد کرمانیؒ نے حضرت محبوبِ الٰہی کی خود نوشت یادداشت سے نقل کیا ہے کہ رمضان المبارک سن 669 ہجری میں حضرت بابا صاحبؒ نے حضرت محبوبِ الٰہیؒ کو خلافت نامہ عنایت فرمایا تھا، (سیر الاولیا صفحہ 116 چ) اور خواجہ امیر حسنی علا سجریؒ نے حضرت محبوبِ الٰہی کی زبانی یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت بابا صاحب نے حضرت محبوبِ الٰہی ؒ کو شوال کی کسی تاریخ کو اجودھن (پاکپتن) سے دہلی بھیج دیا تھا۔ اور محرم کی پانچویں کو حضرت بابا صاحبؒ واصل بحق ہوئے تھے۔ (فوائد الفواد صفحہ 52) لہٰذا اگر سن 669 ہجری کو بارہواں سال مان لیا جائے جو قرینِ قیاس بلکہ صحیح ہے تو اسرارالاولیا کی تدوین کا آغاز سن 650 ہجری قرارد پاتا ہے جو تقویم کے اعتبار سے بھی صحیح ہے۔ بلکہ ہر اعتبار سے صحیح ہے اور واقعات کے مطابق بھی ہے۔

    سن 657 ہجری کو یکشنبہ (اتوار) ہے ، اور جمادی الاآخر کا مہینہ 29 دن کا ہے، غالباً اجودھن (پاک پتن) میں مطلع صاف نہ تھا اس لئے جمادی الآخر کو 30 دن کا مہینہ مان لیا ہے جیسا کہ ہوتارہتا ہے، اس اعتبار سے 18 شعبان 657 ہجری کو دو شبنہ ہی ہے اور یہی آغاز اسرارالاؤلیا کی صحیح تاریخ ہے۔

    قلمی کتابوں میں جو غلطیاں ملتی ہیں انہیں اسی طرح سلجھنا ہوتا ہے، نقاد ہو یا محقق تا وقتے کہ اس کی کارگزاری میں اخلاق و خون جگر کی چاشنی نہ ہوگی، اس کی کار کردگی کی مقبولیت حاصل نہیں کرے گی، ہر حال میں کامل احتیاط سے حق تنقید ادا کرنا چاہئے۔

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسرارالاؤلیاء کی پہلی فصل کے آغاز میں جو تاریخی اندراج ہے اس کی وجود کچھ بھی ہوں مگر وہ غلط ہے، اس لئے پہلے اس کی صحت کی جانب متوجہ ہونا ہوگا جب صحیح حل مل جائے تو قدم آگے بڑھانا ہوگا ورنہ غلط اندراج کو کسی حالت میں بھی اپنا یا نہیں جاسکتا، لہٰذا تقویم کی مطابقت سے اور داخلی شواہد سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اسے صحیح تسلیم کرنا ہوگا یہ بھی مناسب ہے کہ قدیم قلمی نسخوں کے مطالعہ سے بھی استفاہ کیا جائے۔

    4. اسرارلاؤلیاء کا عہد تدوین :- تقویم کی مطابق سے اور داخلی شواہد سے یہ ثابت ہے کہ اسرارالاؤلیا کا عہدِ تدوین 657 تا 669 ہے اور یہ صحیح ہے، اس عہد تدوین کے اعتبار سے حضرت بابا صاحب کی مجالس میں حضرت محبوبِ الٰہی کی اور بعض مجالس میں مولانا برہان الدین ہانسوی کی شرکت بھی صحیح قرارپائی ہے اور شیخ نجیب الدین متوکل کی وفات کا ذکر بھی برمحل رہتا ہے، ان کے علاوہ دیگر تاریخی واقعات بھی برمحل قرار پاتے ہیں اور وہ خلفشار رفع ہو جاتا ہے جو غلط تاریخی اندراج کی بنا پر لاحق ہوتا ہے، لہٰذا عہدِ تدوین 650 ہجری تا 696 ہجری کو صحیح تسلیم کر کے اسرارالاؤلیا کا جائزہ لینا چاہئے، یقین ہے کہ پھر کوئی الجھن در پیش نہ ہوگی۔

    5. امتیازی خصوصیات اسرارالاؤلیا میں بعض امتیازی خصوصیات ہیں جو اس سے پہلے کے ملفوظات کے مجموعوں میں یا تو ہیں نہیں یا اگر میں تو شاذ و نادر ہی ہیں، اس اعتبار سے اسرارالاؤلیا امتیازی و منفرد حیثیت کی مالک ہے، ان میں سے بعض کا ذکر خیر زیر قلم آتا ہے۔

    6. استفسار و مکالمہ :- مولانا بدرالدین اسحاق کی پہلی حاضری کا واقعہ شاہد ہے کہ حضرت بابا صاحب کی مبارک نظر طالبوں اور حاضرِ خدمت ہونے والوں کے قلوب پر بھی رہتی تھی جو بھی سوال ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ بصیرت باطنی سے اسے معلوم کرلیتے اور تقریر ہی میں اسےحل فرما دیتے تھے، عموماً کسی کو دریافت کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی، اگر کیفیات سے مغلوب ہوکر کسی کی زبان پر کچھ آگیا ہے تو مستثنیات میں سے ہے، ایسی مثالیں اسرارالاؤلیا میں خال خال مل جاتی ہیں، اس کو مکالمہ سے تعبیر کر لیا جائے یا استفسار سے در اصل وہ ہی مغلوبیت کا تاثر، ورنہ دوران تقریر میں مداخلت و استفسار خوبی نہیں بلکہ معیوب ہے جو بے ادبی کے مصداق بھی ہوسکتا ہے۔

    بہر حال! ایسی امثالیں متقدمین کی کتب ملفوظات کے بالمقابل امتیازی نوعیت کی مالک ہیں جس کی اتباع کے نقوش فوائدالفواد وغیرہ بعد کی کتب ملفوظات میں ملتے ہیں گویا کہ اسرارالاؤلیاء نقش اول ہے اور فوائدالفود نقش ثانی ہے اور وہ مثالیں یہ ہیں۔

    الف :- ہمیں کہ شیخ الاسلام ایں بیت بہ زبان راند عزیزے از اہل صفہ۔۔۔ روئے بہ زمیں آورد و عرض داشت کرد۔ الخ (اسرالاؤلیاء فصل سوم، صفحہ 16)

    ب :- آں گاہ عزیزے از اہلِ صفحہ حاضر بود، روئے بہ زمین آورد و عرض کرد و گفت۔ الخ (ایضاً صفحہ 17)

    ج :- در آں میاں عزیزے حاضر بود عرض داشت کرد۔ الخ (اسرارالاؤلیا فصل 14 صفحہ 72)

    ان مثالوں سے یہ واضح ہے کہ اسرارالاؤلیا میں استفسار و مکالمہ ہے مگر بقدر قلیل ہے، تاہم اس سے اسرارالاؤلیا کی اہمیت اور اس کی امتیازی نوعیت واضح ہے۔

    7. فصول :- اسرارالاؤلیا کئی فصلوں پر منقسم ہے، ہر فصل کسی عنوان سے متعلق ہے جو ہر فصل کے آغاز میں تحریر ہے، عنوان سے متعلق معلومات اس فصل میں فراہم کی ہیں، خواہ ان معلومات کا تعلق مختلف بیانات ہی سے کیوں نہ ہو تاہم اس سے یہ سہولت ہے کہ کسی ایک بات کو پوری کتاب میں تلاش کرنے کی زحمت سے وہ چار نہیں ہونا پڑتا بلکہ کسی ایک عنوان کے تحت تلاش کرلینا کافی ہوتا ہے، تلاش میں نہ تو وقت ضائع ہوتا ہے اور نہ تکلیف گوارا کرنی پڑتی ہے، بلا شبہ خوبی لائق تحسین ہے جو اس سے پیشتر کی کتب ملفوظات میں نہیں ہے، علی بن محمود جاندار شاہ نے درّرِ نظامی میں اسرارالاؤلیا ہی کی اتباع کی ہے، اس لئے اسرارالاؤلیا نقشِ اوّل ہے اور درّرِ نظامی نقش ثانی ہے مگر فوائدالفواد اور خیرالمجالس میں یہ خوبی نایا ہے۔

    بعض فصلوں کے آغاز میں بعض ممتاز ترین شرکا کے اسمائے گرامی مندرج ہیں جن سے مجالس کی نوعیت و اہمت واضح ہے، آخر میں اختتام کی نوعیت بھی واضح کی ہے، درّرِ نظامی میں ان دونوں اوصاف کا فقدان ہے۔

    8. عربی فارسی ہندی مرکبات :- اسرارالاؤلیاء میں کئی مقامات ایسے ہیں جن سے ہندی، فارسی اور ہندی عربی کتات کے استعمال و رواج کا پتہ چلتا ہے اور لسانی اتحاد کی نشان وہی ہوتی ہے گویا کہ یہ تخم ریزی ہے اور زبان کے لئے جو پھلی پھولی اور پروان چڑھی جو آج گونا گوں موانعات کے باوجود ہند و پاک کی شائستہ ترین زبان ہے بعض مثالیں یہ ہیں :-

    الف :- اور ابھیّا غریب گفتندے۔ (اسرارالاؤلیاء فصل پہلی، صفحہ 4)

    ب :- فرید اوجوہ علمی۔ (اسرارالاؤلیا فصل دوسری، صفحہ 14)

    لا :- اوراد دریش بدہنی گفتندے۔ (اسرارالاؤلیاء فصل تیرہویں، صفحہ 70)

    د :- ذخیرۂ ہندی۔ (اسرارالاؤلیاء فصل تیرہویں، صفحہ 71)

    اس روش کی اتباع صاحبِ سیرالاؤلیاء امیر خورد کرمانی نے کی ہے، اس اعتبار سے اسرارالاؤلیاء نقش اول اور سیرالاؤلیاء نقش ثانی ہے، خیرالمجالس میں اس اتباع کے گہرے نقوش ملتے ہیں۔

    9. تبلیغی کارنامہ :- اسرارالاؤلیاء کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک تبلیغی کارنامہ کا ذکر ہے جو راحت المحبین میں بھی ہے مگر فوائدالفواد اور خیر المجالس جیسی بعد کی کتبِ ملفوظات میں نہیں ہے، اس اعتبار سے اسرارالاؤلیاء اولین اور منفرد اوصاف کی مالک ہے اور واقعہ یہ ہے کہ خواجہ قطب الدین چشتی جن سے مراد خواجہ قطب الدین مودود چشتی ہیں، ان کی مجلس میں حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے دریافت کیا کہ کوئی کیسے جانے کہ وہ کامل ہوگیا ہے اور اس نے سلوک کی منازل طے کرلی ہیں، آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کسی مردے پر دم کرے، اگر وہ بحکمِ الٰہی زندہ ہوجائے تو یہ علامت اس کی کمالیت کی ہے۔

    فیض روح القدس ارباز مدد فرماید

    دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

    ابھی یہ گفتگو ختم ہونے نہ پائی تھی کہ ایک بڑھیا روتی دھوتی حضرت خواجہ قطب الدین چشتی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا ایک ہی لڑکا تھا، بادشاہ نے بے گناہ اسے سولی پر چڑھا دیا ہے، آپ یہ سنتے ہیں عصاہاتھ میں لے کر اس کے ہمراہ ہو لئے موقعۂ واردات پر پہنچنے پر لڑکے کو سولی پر چڑھایا جاچکا تھا آثار زندگی باقی نہ تھی آپ نے دیکھا اور بارگاہِ الٰہی میں التجا کی خداوندا! اگر بادشاہ نے اسے بے جرم و خطا سولی پر چڑھوایا ہے تو آپ اسے زندہ فرمادیں آپ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ دم لڑکا زندہ ہوگیا، مولانا روم نے فرمایا ہے۔

    اؤلیا را ہست قدرت ازالہ

    تیر جستہ باز گرداند ز راہ

    اس عملِ کرامت کی برکت سے ہزاروں غیر مسلم جن کا تعلق کسی طرح ہندوستان سے تھا، مسلمان ہوگئے اور صحیح راہ عمل اختیار کرلی تھی، لکھا ہے۔

    آں روز چند ہزار در ہزار ہندو مسلمان شندند (اسرالاؤلیاء، صفحہ 89)

    ہندو سے مراد بدہست بھی ہوسکتے ہیں جو چشت، خراسان اور بت بامیان کے علاقہ میں آباد تھے اور وہ ہندو بھی جو عہدِ غزنوی سے غزنی ادریس کے گرد نواح میں آباد تھے اور کھلم کھلا اپنے ٹھاکروں کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے، گبرو ترسانہ تھی۔

    استاد محترم:- اسرارالاؤلیا ہی سے ہماری معلومات میں یہ اضافہ ہوتا ہے کہ حضرت بابا صاحب کے ایک استاد محترم کا نامِ نامی مولانا بہاؤالدین بخاری تھا، آپ نے فرمایا:-

    اے درویش! وقتے از زبان استاد خود شنیدم مولانا بہاؤالدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ کہ وقتے خواجہ تمیم انصاری رحمۃ اللہ علیہ بردست حبشیان گرفتار شدہ بود

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 30)

    ایک دفعہ یہ بھی ذکر فرمایا:-

    اے درویش! از شیخ بہاؤالدین بخاری کہ یکے ازد واصلان حق بود ایں قطعہ از دیاد دارم اما از شوق گفتہ بود

    من اول روز چوں در توبدیدم شیفتہ گشتم

    ندانستم تو بودے یا کہ بودست ایں کہ من دیدم

    چنا در روئے آں جاناں شدم من شیفتہ دالہ

    کہ من از خود شدم بیروں ترا در جان و تن دیدم

    الغرض ان امتیازات سے اسرارالاؤلیا کی انفرایت واضح ہے، اسرارالاؤلیا کے مطالعہ سے معلومات میں وہ اضافہ ہوتا ہے جو دیگر کتب ملفوظات کے مطالعہ سے نہیں ہوتا۔

    اسرارالاؤلیاء کی ضمانت :-

    اسرارالاؤلیاء:- اسرارالاؤلیا کے فارسی مطبوعہ نسخے کا حجم 94 صفحات ہے، مولانا بدرالدین اسحاق نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ انہوں نے یہ صحیفہ رشد و ہدایت بارہ سال میں مرتب فرمایا ہے، اس بیان کے صحیح ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں، حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشا ہے:-

    مولانا بدرالدین اسحاق چناں خادمی شیخ الشیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز کردے کہ از دہ تین چنان خدمت نیامد بآں بہم مستغرق و مشغول حق بودے تابحدے کہ بخدمت شیخ شیوخ العالم نشستہ مستغرق حق تعالیٰ بودے کہ از خود خبر نہ داشتے

    (سیرالاؤلیاء صفحہ 177)

    ترجمہ :- مولانا بدرالدین اسحاق حضرت بابا صاحب کی ایسی خدمت کرتے تھے جو دس آدمی بھی نہیں کرسکتے تھے (اس مشغولی کے باجود) نہایت مستغرق اور یاد حق میں محو رہتے تھے حتیٰ کہ جب جضرت بابا صاحب کی خدمت میں بیٹھے تو بھی ہمہ تن یادِ الٰہی میں محو رہتے تھے، اپنا بھی ہوش نہ رہتا تھا۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے یہ بھی فرمایا:-

    وقتے مولانا بدرالدین اسحاق کہ تعویذ او نوشتے حاضر نہ بود و خلیفے بہجت تعویذ بروں آمدہ بودند، مرا اشارت کرد کہ تو بنویس من تعویذ نوشتم ناخلق انبوہ شد کتابت من بسیار شد و مزاحمت خلق بیشتر شد دریں میاں شیخ روئے سوئے من کردد فرمود کہ ملول شدی من گفتم کہ وقت شیخ حاضر است

    (فوائدالفواد، صفحہ200)

    ترجمہ:- ایک دفعہ مولانا بدرالدین اسحاق موجود نہ تھے جو حضرت بابا صاحب کے حکم سے تعویذ لکھا کرتے تھے، تعویذ لینے والے آئے ہوئے تھے، حضرت بابا صاحب نے مجھ سے

    فرمایا کہ تم لکھو میں نے تعویذ لکھے تعویذ لینے والے بہت ہی آ جمع ہوگئے مجھے بہت ہی لکھنا پڑا مخلوق کے ہجوم سے کام میں رکاوٹ بھی ہوتی تھی حضرت بابا صاحب نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا (کیا) تھک گئے، میں نے عرض کیا! آپ پر سب کچھ روشن ہے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی کے بیان سے واضح ہے کہ مولانا بدرالدین اسحاق کو بھی ہجوم خلائق سے دوچار رہنا پڑتا تھا جس میں خاصا وقت صرف ہوتا تھا، اس انہماک و مشغولیت کے باوجود دیگر امور بھی ان کے سپرد تھے، مہمانوں کی تواضع اور خدمت لنگر خانے کا انتظام و اہتمام بھی ان ہی کے سپرد تھا حتیٰ کہ لنگر خانے کے لئے جنگل سے لکڑیاں بھی لاتے تھے، (سیرالاؤلیا، صفحہ 176) پھر جو شخص اس قدر منہمک اور مشغول بکار ہو اور جس کے لئے حضرت بابا صاحب کی خدمت مقدم ہو اور خدمت بھی ایسی کہ اس سے دس آدمی بھی عہدہ بر آں نہ ہوسکیں اور ہمہ وقت مشغول بھی رہتا ہو، اس سے کتنی ضخیم کتاب کی تدوین متوقع ہوسکتی ہے لہٰذا جو کچھ بھی کیا وہ ان ہی کا کام تھا جو انہوں نے کیا دوسرا کوئی عہدہ براں نہ ہوسکتا تھا۔

    واقعات شاہد ہیں کہ یہ مجموعۂ ملفوظات اسرارالاؤلیا مولانا بدرالدین اسحاق ہی کے رشحاتِ قلم کا ثمرہ ہے جو دست برو زمانہ سے ہم تک محفوظ نہیں پہنچا ہے لیکن جو کچھ ہے عقیدت مندوں کے لئے سرمۂ چشم اور سالکانِ راہ سلوک کے لئے خضر راہ ہے۔

    کتابوں کے حوالے حضرت بابا صاحب کا مطالعہ وسیع اور حافظہ نہایت قوی تھا، آپ کو یہ یاد رہتا تھا کہ کس مضمون کا ماخذ کیا ہے لہٰذا آپ گاہِ بگاہ طالبوں کی رہنمائی کے پیشِ نظر جزوی یا کلی طور پر ماخذات کا ذکر بھی فرماتے رہتے تھے یہ روش ملفوظات میں عام ہے، عموماً ہر مجموعۂ ملفوظات میں ملتی ہے، اسرارالاؤلیا میں بھی متعدد ماخذات کا ذکر ہے مثلاً

    (1) قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ در تواریخ خود بنشستہ است (صفحہ 13۔4)

    (2) خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ جاءے بنشتہ است (صفحہ 5)

    (3) در زاد المبین بنشتۃ دیدہ ام (صفحہ 8)

    (4) خواجہ امام محمد طاہر غزالی غزالی در تواریخ خود بنشتہ است (صفحہ 13)

    (5) در آثارالاألیا بنشتہ دیدہ ام (صفحہ 15)

    (6) شیخ الاسلام شہاب الدین قدس اللہ سرہ العزیز فرمودہ است (صفحہ47)

    (7) در سلوک بشتہ دیدہ ام (صفحہ 73۔47) (سلوک سے مراد کتاب سلوک اؤلیا)

    (8) در عہد خواجہ جنید بغدادی قدس اللہ روحہ دیدہ ام (صفحہ 78۔47)

    (9) در اسرارالعارفین بنشتہ دیدہ ام (صفحہ 50)

    (10) در کتاب محبت بنشتہ دیدہ ام (صفحہ 53۔51)

    (11) درحجۃ العارفین آمدہ است (صفحہ 52)

    (12) خواجہ عبداللہ سہیل تستری رحمۃ اللہ علیہ جائے بنشتہ است (صفحہ 66)

    (13) در سلوک الاؤلیا شنیدم از زبان خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس سرہ العزیز (صفحہ 73)

    تلاش و تفحص سے کچھ حوالے اور بھی ملتے ہیں، ماخذات کی یہ تعداد نہایت قلیل ہے، آٹھ سات کتابوں کے نام ہیں دیگر حوالہ جات کا تعلق ذاتی معلومات اور ذاتی مطالعہ سے ہے، حوالہ جات کا یہی عالم دیگر کتبِ ملفوظات میں ہے، خیرالمجالس میں اکتیس تو مستقل کتابوں کے نام ہیں اور متعدد حوالے ذاتی معلومات پر مبنی ہیں، خیرالمجالس میں ماخذات کا ذکر کچھ اس طرح ہے۔

    (1) در کشاف نوشتہ است (صفحہ 83)

    (2) در کتابے نوشتہ است (صفحہ 66)

    (3) حجۃ الاسلام غزالی حکایت بزرگے نوشتہ است (صفحہ 95)

    (4) عین القضاۃ در کتاب خود نوشتہ است (صفحہ 97)

    (5) قول بزرگے فرموندہ (صفحہ 155)

    (6) در عوارف است (صفحہ 155)

    (7) از بزرگے روایت فرمودند (صفحہ (153)

    (8) در رسالہ بنشتہ دیدہ ام (صفحہ 235)

    (9) در فلاں کتاب نوشتہ است (صفحہ 239)

    (10) در کتابے دیدہ ام (صفحہ 257)

    متقدمین کی اکثر و بیشتر کتابیں نایاب و ناپید ہیں بعض کا پتہ نشان کشف الظنون (چیلپی) کی سی کتبِ حوالہ جات سے مل سکتا ہے لیکن کتب حوالہ جات بھی جزوکل پر حاوی نہیں ہوتیں، حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور (پاکستان) سے تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان دہند نام سے کئی جلدیں شائع ہوئی ہیں لیکن متعدد کتابوں کا ذکر رہ گیا ہے جن کی طرف ماہنامہ معارف اعظم گڑھ، (جنوری و فروری 1980عیسوی) میں توجہ دلائی گئی ہے، اس کا مدعا یہ ہے کہ اگر بعض کتابوں کا ذکر نہیں ملتا تو یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ یہ کتابیں جعلی و فرضی ہیں، اؤلیاءاللہ سے متعلق کتابوں کے باب میں تو یہ بدگمانی نہایت درجہ مکروہ ہے۔

    اِنَّ بعض الظَّنِّ اِثّمٌ

    بدگمانی کا مرتکب وہی ہوگا جو علمی قدروں سے نابلد ہوگا۔

    الغرض اسرارالاؤلیا میں ماخذات کے جو حوالے ملتے ہیں وہ خیرالمجالس کے حوالوں سے زیادہ وقیع اور معتبر انداز میں ملتے ہیں، ان کے باب میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں، تقریر و بیان میں حوالہ جات کی یہی روش ہے جو آج بھی ہے۔

    اسفار و مشاہدات:- ملفوظات کا مطالعہ شاہد ہےکہ اؤلیاءاللہ کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ وہ ملفوظات میں برمحل اپنے اسفار و مشاہدات کا ذکر فرماتے رہے ہیں، حضرت محبوبِ الٰہی کے اسفار نہایت قلیل ہیں، بدایوں سے دہلی اور دہلی سے اجودھن (پاک پٹن) مگر آپ نے ان مختصر اسفار و مشاہدات کا بھی ذکرِ خیر فرمایا ہے جو فوائدالفواد اور سیرالاؤلیا کے اوراق کی زینت ہے یہ صورتِ حال اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ بھی حضرت بابا صاحب کے اسفار و مشاہدات کی اور دیگر مشائخِ عظام ہی کی اتباع ہے، حضرت بابا صاحب کے اسفار و مشاہدات کا ذکر اسرارالاؤلیاء میں بھی ہے اور راحت القلوب میں بھی ہے، ممکن ہے کہ حضرت بابا صاحب کے ملفوظات کے ان مجموعات میں بھی ہو جو اب نایا ب ہیں، فوائدالفواد میں بیشک حضرت بابا صاحب کے ان سفروں اور مشاہدوں کے ذکر کو دہرایا نہیں گیا ہے جن کا تعلق دیگر ممالک سے ہے، فوائدالفواد نہ تو حضرت بابا صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے نہ حضرت بابا صاحب کی سوانح حیات ہے، نہ وہ کوئی انسائیکلو پیڈیا ہی ہے کہ اس میں وہ کچھ ہوتا ہے جو عموعی کتابوں میں ہوا کرتا، البتہ وہ صحیفۂ رشد و ہدایت ہے طالبانِ سلوک کے لئے مگر کیا اس میں سلوک سے متعلق سب ہی کچھ ہے پھر اگر حضرت بابا صاحب کے اسفار و مشاہدات کا ذکر نہیں ہے تو وہ نفی اسفار کی دلیل کیسے ہوسکتی ہے، لزوم مالا یلزم بے معنی سی بات ہے۔

    حضرت بابا صاحب کے جن سفروں کا ذکر اسرارالاؤلیا کے اوراق کی زینت ہے وہ یہ ہیں، ملک بابا (مقام سوتہ) بغداد، غزنی، طرف شام، بدخشاں، سیوستان، بدایوں، لاہور، ان کے علاوہ بھی دیگر معتبر ماخذات میں دیگر سفروں کا ذکر ملتا ہے، مثلاً اجمیر، دہلی، ہانسی، ملتان، اُچ، فریدکوٹ، علاقۂ سہارن پور، مارواڑ، بخارا، اور قندھار۔

    عہد وسطیٰ میں سیاحت مشائخِ عظام کا خصوصی مشغلہ تھا، خواجہ عثمان ہراونی، خواجۂ بزرگ خواجہ معین الدین سنجری، خواجہ قطب الدین بختیار اوشی، قاضی حمیدالدین ناگوری، شیخ جلال الدین تبریزی، شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی، شیخ سعدی شیرازی متواتر حرکت میں رہے اور اس میں پُر آشوب زمانے میں بھی عزالت گزیں نہ ہوئے، اس باب میں حضرت بابا صاحب بھی ان ہی بزرگوں کے ہم ردیف رہے اور سیر و سیاحت کے فوائد سے مستفید ہوئے۔

    تاریخی وقائع:- ہر کتاب کا ایک موضوع اور نصب العین ہوتا ہے اور وہ اس علم دفن سے متعلق ہوتا ہے جس سے وہ متعلق ہوتی ہے اگر ضمناً دیگر علوم و فنون سے متعلق کچھ شامل ہوئے اور وہ مربوط بھی ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں، ایسا خال خال ہی ہوتا ہے ورنہ ہر کتاب اپنے فن سے متعلق رہتی ہے، فلسفہ، منطق، ریاضی، سائنس، دینیات، تصوف، ان علوم سے متعلق جو کتابیں ہوں گی، ان میں تاریخی وقائع کی تلاش بے سود اور لاحاصل ہے، کتبِ ملفوظات کی نوعیت بھی یہی ہے کہ اذہان دنیاوی زق زق و بق بق میں مبتلا نہ ہوں، چنانچہ فوائدالفوائد اور خیرالمجالس میں بھی ان کے عہد تالیف کے تاریخی وقائع نہیں ملتے لیکن یہ عجوبۂ روزگار ہے، اسرارالاؤلیا میں مختصر سی دو تاریخی وقائع ملتے ہیں۔

    1. سلطان ناصرالدین محمود کا سفر ملتا ہے (655 ہجری) صفحہ 82

    2. اُچ پر مغلوں کی یورش اور والیٔ ملتان شیر خان کا مارا جانا (662 ہجری) صفحہ 69

    اس اعتبار سے بھی اسرارالاؤلیا کو دیگر کتبِ ملفوظات پر فوقیت حاصل ہے۔

    داخلی کیفیات:- اسرارالاؤلیا اگرچہ دستبرد زمانہ سے محفوظ نہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حضرت بابا صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے، صدہا سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس میں وہ کیفیت اور دل آوزیزی ہے جو بیان میں سما نہیں سکتی، بار بار پڑھنے سے کیفیت میں متواتر اضافہ ہوتا رہتا ہے، ذرا بھی کمی نہیں آتی پڑھنے والا نئی سے سے نئی کیفیت سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے، کبھی کسی بیان سے اور کبھی کسی بیان سے پڑھنے والے پر لگاتار کچھ ایسی کیفیت طاری ہوتی رہتی ہے کہ وہ اپنے کو ہر بار کسی اور ہی عالم میں پاتا ہے، محسوس کرتا ہے، کیفیت و ذوق سے طبیعت ایسی متکیف رہتی ہے کہ گویا وہ نغمۂ الست میں کھو سا گیا ہے اور کوثر و تسنیم کی موجوں سے کھیلنے سا لگا ہے، کیفیت و سرور کے عالم میں مدہوش و بے خبر ہے اور اسی عالم میں رہنا چاہتا ہے، کبھی عالم سرور و بے خودی میں گنگنانے لگتا ہے:-

    مومن آ کیش محبت میں کہ سب کچھ ہے روا

    حسرتِ حرمت بادۂ و مزامیر نہ کھینچ

    ضرورت حاضرہ کے پیشِ نظر میں نے اسرارالاؤلیا کا از سر نو مطالعہ کیا، کیا بتاؤں میں نے کیا پیا کئی مقام ایسے آئے کہ روح میں اہتراز پیدا ہوگیا جی بھر آیا، آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے، حسرت و حیرت طاری ہوگئی، دل دنیا سے بیزار کچھ اور ہی چاہنے لگا، سب سے حیرت انگیز یہ ہے کہ یہ بھی پتہ نہ چلا کہ یہ کیفیت و سرور، یہ سرمستی کس لفظ کس جملے یا کس عبارت سے حاصل ہوئی ہے، کہہ لیجئے کہ تدریجی طور سے جو کیفیت فراہم ہوتی رہی ہے جب پیمانہ لبریز ہوگیا تو چھلک پڑا ہے۔

    بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرارالاؤلیا از اول تا آخر کیف و مستی، شریعت و طریقت، ادب و زبان، نور و عرفان اور صداقت و دلربائی کا بے مثل مرقع ہے دیرینہ روزی کے اثرات سے متاثر ہونے کے باوجود تاثیر کا نشتررگ جان میں پیوست ہوتا ہے چلا جاتا ہے اگرچہ وہ زبانِ حال سے عقیدت مندوں کی سردمِہری اور بے اعتنائی کی نوحہ خوان بھی ہے کہ وہ صحت و مقابلہ سے مزین ہوکر منظر عالم پر نہ آسکی جس کی اشد ضرورت ہے۔

    عرفاءِ کاملین میں رشد و ہدایت کو بڑی اہمت ہے اور وہ اس باب میں ضعیف سے ضعیف حدیث کو بھی روا رکھتے ہیں اور اس سے کام لینےمیں تکلف نہیں برتتے وہ طبیب روحانی ہوتے ہیں، حاذق اطباء سے بھی اس باب میں ان کا مقام بلند ہے وہ دل کی نبض پر انگلی رکھتے ہیں اور تشخیص و تجویز کرتے ہیں اور تدبیر فرماتے ہیں جس طرح حاذق و طباء کو ان ادویہ سے کام لینے کا استحقاق ہے جو عام حالات میں شرعاً ممنوع اور حرام و نا روا ہیں اسی طرح عرفا بھی بوقت ضرورت ان تدابیر کو اپنا لیتے ہیں جنہیں علمائے شریعت وقیع نہیں جانتے اور ان سے اجتناب برتتے ہیں۔

    خوارقِ عادات اور محیر العقول نقلیں اور تمثیلیں بالطبع انسان کو مرغوب ہیں، عرفائے کاملین نے ان سے بھی کام لیا ہے انوارِ سہیلی (کلیہ و منہ پنجتن تر) منطق الطیر اور مثنوی معنوی تمثیلی بیان کے شاہکار ہیں جن کی حکایتوں اور تمثیلوں سے اہم اخلاقی نتائج بر آمد ہوتے ہیں جن سے دل و دماغ کی کایا پلٹ جاتی ہے، حیرت انگیزی کا وصف دلوں کو موہ لیتا ہے اور آمادۂ عمل بنا دیتا ہے، اسرارالاؤلیا اس وصف سے خالی نہیں، اگر اس کو اسرار متحیرین سے تعبیر کیا جائے تو بے جانہ ہوگا اور اسرارالاؤلیا ہی کیا عہد وسطیٰ کا جملہ ادب مشرقی ہو یا مغربی اس وصف سے مالا مال ہے اگر اسرارالاؤلیا میں وصف نہ ہوتا تو نگاہِ تحقیق میں یہ اس کا وصف نہ ہوتا سقم ہوتا۔

    یہ صحیح نہیں کہ محیرالعقول واقعات سے ناممکنات کے یقین کا نقش جمانا مقصود ہوتا ہے بلکہ مقصود ہوتا ہے اس کا اثر و نتیجہ اور در اصل اسلوب کی جاذبیت اور کشش مراد ہوتی ہے، بہر نوع دیرینہ روزی کے اثرات سے متاثر اور دستبرد زمانہ کے اثرات سے دو چار رہنے کے باوجود مجموعۂ ملفوظات اسرارِالاؤلیاء خوبیوں سے مالامال اور لائق مطالعہ و استفادہ ہے، البتہ ضرورت ہے کہ صحت و مقابلہ سے آراستہ کر کے اسے منظر عام پر لایا جائے تاکہ معاشرہ میں ایمانی تنوع رونما ہو اور حقیقی راہنمائی حاصل ہوسکے۔

    اسلوب بیان:- اسرارالاؤلیا کا اسلوبِ بیان اگرچہ سادہ سلیس اور عام فہم ہے مگر نہ ایسا وہ سپاٹ اور بے آب و رنگ کہ مطالعہ سے امتلائے ادبی پیدا ہو اور نہ ایسا رنگین و دقیق اور مسجع و مقضیٰ کہ اس پر مصنوعی ہونے کا اطلاق ہوسکے اور جس سے خاص و عام لطف اندوز نہ ہوسکیں، اسرارالاؤلیا بلکہ جملہ ملفوظات کے مجموعات کا یہ عمومی وصف ہے کہ ہر طبقہ کا فارسی دان مفہوم و مضمون کو بآسانی سمجھ لیتا ہے اور اپنی استعداد کے مطابق استفادہ کرلیتا ہے، تصوف کے دقیق اور نازک مسائل کو اس خوبی سے بیان کرنا زبان دانی کا اور اسلوبِ بیان کا ایسا وصف ہے جو ہر تعریف و توصیف سے بالا تر ہے۔

    اس وصف کا تعلق جامع سے بھی ہے اور صاحبِ ملفوظ بھی، جامع کتنے ہی فاضل سہی لیکن راہِ سلوک میں وہ مبتدی ہوتے ہیں، اگر شیخ کا اسلوبِ کمالیت سے مالا مال نہ ہو تو وہ یقینا عہدہ بر آں نہ ہوں، گویا کہ اسرارالاؤلیا کا اسلوب در اصل پرتو ہے حضرت بابا صاحب کے اسلوب کا حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے:-

    بار ہا در ذوق بیان ایشاں مردم چناں فردمی شد کہ تمنا بردہ شدے اگر ہمیں زماں مردم بمیرد نیکو باشد

    ترجمہ :- اکثر ایسا ہوا ہے کہ سامعین آپ کے (حضرت بابا صاحب کے) بیان کے کیف میں کھو سے گئے ہیں اور آرزو کرنے لگے ہیں کہ اسی کیفیت میں مرجائیں تو اچھا ہو۔

    حضرت خواجہ غلام فرید چشتی (متوفیٰ 1319 ہجری 1901 عیسوی) کا ارشاد ہے:-

    شیخ بدرالدین اسحاق قدس سرہ جو اسرارالاؤلیا کے جامع ہیں ان کا ضبط الفاظ اس قدر پختہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے شیخ شیوخ کی زبان درخشاں سے سنا اسی طرح لکھ دیا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے

    (مقابیس المجالس صفحہ 365۔366)

    ترجمہ :- یہ ان بزرگ کا بیان ہے جو علم و فضل اور بصیرتِ باطنی سے مالا مال اور درویشانہ عالمانہ شخصیت کے جامع تھے، ان کے بیان کے بعد اسرارالاؤلیا کے اسلوبِ بیان سے متعلق لب کشائی کی گنجائش نہیں رہتی، گویا کہ اسرارالاؤلیا کا اسلوبِ بیان ہر اعتبار سے جامع اور بے مثل ہے۔

    نفسِ مضمون:- اسرارالاؤلیا جن جواہر پاروں کا خزینہ ہے ان میں سے معدودے چند پیش کئے جاتے ہیں تاکہ نفسِ مضمون سے آگاہی حاصل ہوسکے اور اسرارالاؤلیا کی اہمیت واضح ہوجائے فرمایا ہے:-

    (1) اے درویش جو بادۂ محبت سے سرشار ہے وہی عرفا کے کلام کا قدردان ہے، وہی جانتا اور سمجھتا ہے۔

    (2) اے درویش کلام معرفت کی قدر و منزلت سے وہی آگاہ ہے جس کے دل میں انوارِ عشق اور اسرار دوست نے گھر کر لیا ہے ورنہ حقیت یہ ہے:-

    اے کہ آگاہ نۂ عالمِ درویشاں را

    تو چہ دانی کہ چہ سوداؤ سر است ایشاں را

    (3) اے درویش فقر اہلِ عشق ہیں اور علماء اہلِ عقل۔۔۔ اور درویش کا عشق علماء کی عقل پر غالب ہے۔

    (4) اے درویش مردان خدا نے یہی کیا ہے کہ و ہجس کسی درماندہ اور محتاج کے پاس سے گزرے اسی کو نعمت دراین سے مالامال کر دیا ہے، یہ فیض رسانی انسانی ہمدردی کے وصف کا ثمرہ ہے جو اب ناپید ہے۔

    (5) اے درویش جس دل میں محبت گھر کر لیتی ہے، اس میں محبوب کے سوا اور کسی شے کے سمانے کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔ وصالِ محبوب سے باریاب وہی ہوتا ہے جو دوئی کے عیب سے محفوظ مبرا ہوتا ہے، (18-17) پھر شرک و کفر کی گنجائش کہاں، عیب جوئی اور خوردہ گیری کا گزر کہاں۔

    (6) اے درویش عشق و محبت کی آگ درویش ہی کے دل میں سلگتی ہے، اس کی جلوہ آرائی کے لئے اور کوئی محل و مقام نہیں ہے، سماع سے یہ آگ بھڑک اٹھتی ہے، حضرت بابا صاحب کا ارشاد ہے۔

    السماع یحرک قلوب المستعین و یوقد نارالشوق فی صدور المشتاقین (سیرالاؤلیا صفحہ 492)

    (7) اے درویش اس عالم آب و گلِ سے جو کوئی ایمان سلامت لے گیا یہ یقین جانو اس نے بڑا کام کیا، پالا مارلیا، سلامتی ایمان کا تو یہاں احساس تک نہیں، اللہ ہی انجامِ بخیر فرمائیں تو فرمائیں۔

    (8) جب کسی درویش پر کیفیت طاری ہوتی ہے تو از عرش تا فرش بلکہ تحت الثریٰ تک کوئی شے اس سے چھپتی نہیں رہتی، یہ کیفیت فضلِ الٰہی پر منحصر ہے، یہ بڑا نازک مرحلہ ہے، اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں، عالمِ تحیر میں بسا اوقات اسی کیفت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

    (9) دنیا طلبی مسلمانوں کو راس نہیں، مسلمانوں میں جو بھی طالبِ دنیا ہوگا وہ محروم ہی رہے گا، دنیا پاس بھی نہیں پھٹکے گی، بڑے گر کی بات ہے، معاشرہ کے نقص کی نشاندہی ہے، طبِ دنیا کیا ہے، حق سے بے خبری اور رو گردانی۔؂

    چیست دنیا، از خدا غافل بودن

    (10) اے درویش دنیا میں کوئی شے صدقے سے بہتر اور سخاوت سے افضل نہیں ہے جس نے بھی کچھ پایا ہے سخاوت ہی کی بدولت پایا ہے۔

    ایثار و قربانی کی ترغیب و تحریص ہے، درویش اسی پر عامل ہوتے ہیں، سعدی علیہ الرحمۃ کا ارشاد ہے:-

    نیم نانے گر خورد مردِ خدا

    بذلِ درویشان کندنیم دگرد

    درویشی میں حاتم کا سا دل درکار ہے قارون کی سی تنگ دلی مطلوب نہیں، آج کے درویش کیا طمع زر اور حبِ جاہ میں مبتلا نہیں ہیں۔

    (11) نزول رحمت کے تین وقت ہیں:-

    1. سماع کے دوران اہلِ سماع پر اور ان کے یار و نصار پر نزولِ رحمت ہوتا ہے۔

    2. اؤلیااللہ کے ذکر کے دوران شرکائے محفل پر نزولِ رحمت ہوتا ہے۔

    3. اہلِ دل جب انوار و تجلیات کے عالم میں مستغرق ہوتے ہیں تو ان پر نزولِ رحمت ہوتا ہے۔

    سماع نفسہ مباح ہے، اس کی حرمت نقص قطعی سے ثابت نہیں جو سماع صوفیۂ کرام کے ہاں مروج تھا وہ اب نایاب ہے، قوالی جس کا رواج آج کل ہے وہ سماع نہیں، سماع کی مسخ شدہ شکل ہے، موجودہ قوالی کو سماع سے تعبیر کرنا اور اس کے پردے میں سماع کو حرام بتانا صحیح نہیں، اسی طرح مروجہ قوالی کو سماع سے تعبیر کرنا اور روا جاننا بھی صحیح نہیں ہے۔؂

    جنو کو نہیں شعور زیست ان کو یہ کہنا ہے روا

    حسن بلائے چشم ہے نغمہ وبالِ گوش ہے

    (12) اے درویش یادِالٰہی میں ہمہ تن مشغول رہنا چاہئے، بصداق دل بیار و دست بکار، ہر ہرکام اللہ کی رضا کے مطابق ہو نا چاہئے، دیکھا پھر تم کیسی کیسی نعمتوں سے نوازے جاتے ہو۔

    خداوند عالم عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائیں، یہی خلاصہ ہے اسلامی تعلیمات کا۔

    (13) اے درویش مولیٰ اور بندے میں جو دوری ہے اور درمیان میں جو پردے حائل ہیں وہ آلائشِ دل کا سبب ہیں، دل دنیاوی دھندوں میں الجھا ہوا ہے اگر الائشِ دل دور ہوجائے تو پردے حائل ہیں اٹھ جائیں گے، وصفِ مکاشفہ اور مقامِ مشاہدہ حاصل ہوجائے گا جو بہت بڑی نعمت ہے، توبۃ النصوح سے یہ پردے مرتفع ہوسکتے ہیں، توبۃ النصوح کی تلقین اور خدا رسی کی تعلیم ہے جو انانیت کا اعلیٰ وصف ہے، خدائے پاک توفیق نصیب فرمائیں۔

    جب صبح ہوتی ہے تو جسم انسانی کے ساتوں حصے زبان سے پناہ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے زبان اگر تونے اپنے کو قابو میں رکھا تو ہم ہلاکت سے محفوظ رہیں گے ورنہ تباہ و برباد ہوجائیں گے، اے زبان ہمارے حال پر رحم کر اور اپنے کو قابو میں رکھ تاکہ ہم ہلاکت سے محفوظ رہیں۔

    ہفت اندام سر۔ سینہ پیٹھ۔ دونوں ہاتھ 7،6 دونوں پیر بعض نے دل وماغ، کلیجہ تلی، پھیپھڑا، پتہ، معدہ یا گردہ قرار دیئے ہیں لیکن ان کا تعلق در اصل علم طب سے ہے، عمومی طور پر ہفت اندام سے مراد پہلے ہی سات عضو انسانی ہیں، خواجہ حالیؔ کی زبان گویا کا ماخذ یہی حکایت ہے، دیکھئے اہلِ کمال برادرانِ وطن کی ضیافت کے لئے کہاں کہاں سے خوشہ چینی کرتے ہیں اور دسترخوان سجاتے ہیں۔

    تمتع زہر گوشۂ یافتم

    زہر خرمنے خوشۂ یافتم

    (14) زبان کی آفت و بلا سے محفوظ رہنے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ جو کوئی اس آفت سے محفوظ رہنا چاہئے وہ تازدہ دم وضو کرے، دو رکعت نمازِ نفل پڑھے پھر قبلہ رو بیٹھ کر جناب باری میں عرض کرے الٰہ العالمین! میری زبان کو بدگوئی سے محفوظ رہنے کی توفیق نصیب فرمائے اور یہ وصف عنایت فرمائے کہ ذکر الٰہی کے سوا کوئی ذکر زبان پر نہ آئے اور ان باتوں سے میری زبان کو اپنی پناہ میں رکھیے جو آپ کی رضا کے خلاف ہیں۔

    سمجھے یہ کیا ہے، معاشرے ہی کی عکاسی ہے، غیبت و بدگوئی کی بدولت جنگ و پیکار کا جو بازار گرم تھا یہ اسی کا سد باب ہے، اسرارالاؤلیاء میں قدم قدم پر سماجی اور تہذیبی زندگی کا نہ صرف سراغ ملتا ہے بلکہ سماجی خرابیوں کی اصلاح کی تدابیر بھی ملتی ہیں مگر دیکھنے کے لئے دیدۂ بینا در کار ہے۔؂

    بے بصیرت یہ راز کیا جانے۔

    (15) اے درویش نکو کاری کار از سربستہ یہی ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھے، طبیعت کے تقاضوں سے کنارہ کش رہے اور دنیاوی لذتوں میں مبتلا نہ ہو۔

    (16) یہ بھی وہی ہے جس سے معاشرہ مسموم تھا، آج جن کے ایٹی کیٹ دنیاوی مشاغل ہیں جن سے انہیں دم بھر کو مہلت نہیں ملتی، ان کا ذکر کیا، ان کا تصوف اور ان کی شریعت تو ان کی خواہشات ہیں۔

    (17) اے درویش سعادت کی نعمت جس کسی نے پائی ہے، خدمت ہی سے پائی ہے، دین و دنیا کی فلاح و بہبود مشائخ کی خدمت میں ہے۔

    ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد

    بلاشبہ مشائخ کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے، طریقت بجز خدمتِ خلق نیست مگر اب مشائخ ہیں کہاں جو ان کی خدمت سے دین و دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوسکیں، علامہ اقبال بتا گئے ہیں۔

    میراث میں آئی ہے انہیں سند ارشاد

    زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

    (18) صوفی وہ ہے جو دنیاوی آلایشوں سے پاک و صاف ہے جس کا آئینہ مکدر یا زنگ آلود ہے وہ صوفی نہیں۔

    (19) صوفی وہ ہے جس کا آئینہ دل صاف و شفاف ہو حتیٰ کہ ہر شے اس میں منعکس ہوجائے کچھ بھی پوشیدہ نہ رہے

    (20) تصوف سے مراد خدا کی دوستی ہے، نورِ وحدت کے سوا دل میں اور کچھ بھی نہ ہو۔

    یہی صفائے باطن ہے گو لفظ مختلف ہیں مگر مفہوم واحد ہے، اللہ ہی کی دوستی و محبت سے قلب آئینہ ہوجاتا ہے، حدیثِ مبارکہ ہے کہ اللہ کے ذکر سے قرآن پا ک کی تلاوت سے اور موت کی یاد سے آئینہ دل کا زنگ چھوٹ جاتا ہے اور دل آئینہ بن جاتا ہے۔

    (21) حیات علم میں ہے، راحت معرفت میں ہے، شوق محبت میں ہے اور ذوق یاد میں ہے، علم و معرفت اور محبت و یاد سے مراد علمِ الٰہی معرفت الٰہی، محبت الٰہی اور یادِ الٰہی اور یہ کیفیات سے متعلق کلام ہے۔

    (22) کوئی عبادت تلاوتِ قرآن سے بہتر نہیں، اس سے غفلت روا نہیں، اؤلیااللہ تلاوتِ قرآن پاک میں اکثر محو رہتے تھے اور رات دن میں کئی کئی قرآن پاک ختم کر لیا کرتے تھے۔

    (23) قرآن پاک کی تلاوت کے دوران حضوری اور مشاہدے کی نعمت نصیب ہوتی اور عالمِ بالا کے راز بھی تلاوت کرنے والے پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔

    اللہ پاک قرآن پاک کی تلاوت کی سعادت نصیب فرمائیں اور ایسی توفیق عنایت فرمائیں کہ حقِ تلاوت ادا ہوجائے تو پھر سب ہی کچھ ہے۔

    (24) بھوک کیا ہے، ابر رحمت ہے، اس سے رحمت ہی کی بارش ہوتی ہے، حضرت بابا صاحب نے حضرت محبوبِ الٰہی کو نصیحت فرمائی تھی۔

    روزہ داشتن نیمے را است و اعمال دیگر چوں نماز و حج (نفلی) نیچے راہ

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 112)

    (25) ضرورت مندوں کی خدمت میں مشغول رہنا اوراد و وظائف سے افضل ہے، یہی راہ سلوک ہے کہ

    طریقت بجز خدمتِ خلق نیست

    یہی انسانیت کا اعلیٰ وصف ہے، یہی حضرت بابا صاحب کا عمل تھا، حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے کہ حضرت بابا صاحب کا دستور یہ تھا کہ عصر کی نماز کے بعد بھی اگر ضرورت مند ہوتے یا آجاتے تو درود و وظائف میں مشغول نہ ہوتے بلکہ ضرورت مندوں کی سنتے اور ان کے دکھ درد کا درماں فرماتے، حالانکہ عصر و مغرب کا درمیانی وقت صوفیۂ کرام کے لئے مشغولیٔ خاص کا وقت ہے، اس وقت یادِ الٰہی کے سوا اور کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے مگر حضرت بابا صاحب فرماتے تھے۔ یکے برسرراہ محتاج بود او مشغول بور و ماند، در چنیں حالتے اگر کسے بہ وردے مشغول باشد چہ ذوق یابد (سیراؤلیاء صفحہ 442 ) ضرورت مند موجود ہوں درود و وظائف میں دل کیسے لگے گویا ان کے دکھ درد کا احساس مشغولی میں مانع رہتا ہے، اس ذکر کے بعد حضرت محبوبِ الٰہی نے یہ شعر بھی پڑھا تھا۔

    در کوئے خرابات و سرائے او باش

    منعے نہ بود بیاؤ بنشین و بباش

    (26) سجادۂ طریقت اس کے لئے ہے جو متوکلانہ بسر کرتا ہے، مخلوق میں سے کسی سے توقع نہیں رکھتا، اگر ایسا نہیں تو وہ لائق سجادۂ طریقت نہیں ہے، مدعی دروغ زن ہے، آج اس کے بر عکس عمل ہے جو جتنا فراہمیٔ زر میں مشغول ہے اور امرا کی دربوزہ گری کرتا پھرتا ہے، اتناہی وہ کامیاب سجادہ نشیں ہے اور معزز و محترم ہے۔

    (27) اے درویش بیماری اچھی چیز ہے، اس کی وجہ سے انسان گناہ سے پاک صاف ہوجاتا ہے، بیماری میں انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کو فریاد رس سمجھتا ہے، اس سے یقین کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اعتماد باللہ کو استحکام نصیب ہوتا ہے جو بڑی اہم چیز ہے۔

    (28) درویش کے روپ میں جو طلبِ دنیا میں مبتلا ہے، طلب جاہ و منزلت میں کوشاں ہے وہ درویش نہیں وہ گمراہ ہے اور گمراہی کے دشت و بیابان میں مارا پڑا پھرتا ہے، درویش صورتِ رہزن سیرت بہروپیوں سے دور ہی رہنا چاہئے، ان کے جال میں پھنسنا خسرالدنیا والآخرۃ ہے مولانا روم نے فرمایا ہے۔

    اے بسا ابلیسِ آدم روے است

    پس بہر دستے نہ شاید داد دست

    یہ ہیں معدودے چند جواہر پارے جو اسرارالاؤلیا کے اوراق کی زینت ہیں، پوری کتاب ایسے ہی جواہر پاروں سے مالا مال ہے، پوری کتاب میں کوئی ایسی روایت یا کوئی مقولہ ایسا نہیں جو آئینِ شریعت و اصولِ تصوف یا عقائدِ اہلسنت کے خلاف ہو، اس سے یہ بھی واضح ہے کہ حوادثِ روزگار سے دوچار رہنے کے باوجود اور عقیدت مندوں کی سخت بے اعتنائی کے باوجود اسرارالاؤلیا بے پناہ قدر و منزلت کی مستحق ہے اور اس سے کیا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، اخلاق و معاشرہ کی اصلاح کے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو ہمیں درکار ہے، اللہ پاک اکتسابِ سعادت کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین ثم آمین

    بعض اہم ترین روایتیں:- کتبِ ملفوظات کا مطالعہ شاہد ہے کہ بظاہر کتبِ ملفوظات کی روش میں نمایاں فرق نہیں ہے، نقطۂ نظر ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان قرآنی تعلیمات کی راہ نمائی کے سہارے خدا رسیدہ ہوجائے جو واحد ذریعہ ہے، اصلاحِ اخلاق معاشرے کا سدھار انسانی ہمدردیٔ غرض جو بھی کچھ ہے اسی کے فروعات ہیں، اسلام کا بنیادی نقطۂ نظر یہی ہے، کلمہ لا الہ الا اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو کچھ ہے وہ اسی کی فروعات و ثمرات میں صوفیائے کرام اسی پر کاربند رہے جس کی بدولت معاشرہ میں سدھار آیا اور انسانیت نے فروغ پایا۔

    بہر حال! جب کتبِ ملفوظات کو نظرِ تعمق سے مطالعہ کیا جتا ہے تو ہلکا سا امتیاز ہے اور وہ یہ ہے کہ جن ملفوظات کے سامعین میں کوئی ایسی شخصیت بھی ہے جسے مخلوق کی خدمت و رہنمائی اور شیخ کی جانشینی کی ذمہ داری سونپنی ہے تو ان میں کچھ ایسی روایتیں بھی ہیں کہ سطحی نگاہ ان کی کہنہ کو نہیں پہنچتی اور ان کی تفہیم سے وہ قاصر رہتے ہیں جو ذوقِ تصوف سے لذتِ آشنا نہیں ہوتے اور وہ تردد بے جا میں مبتلا ہوکر راہِ حق سے دور جا پڑتے ہیں۔

    واللہُ یھدی مَن یَشاءُ اِلیٰ صراط مستقیم

    اسرارالاؤلیا میں بھی ایسی روایتیں ہیں جن کی تفہیم سے خصوصاً مادہ پرست اذہان قاصر رہتے ہیں ان ہی میں سے بعض کو پیش کیا جاتا ہے اور مناسب محل طریق تفہیم کی یا اس کے پس منظر کی وضاحت اور ان نکات کی موشگافی کی کوشش کی جائے گی جو تفہیم میں قدرے حائل ہوسکتی ہیں جو در اصل تلی اوجھل بہاڑ کی مصداق ہیں۔

    روایت مولانا بدرالدین اسحاق لکھتے ہیں:-

    غلباتِ شوق میں حضرت بابا صاحب نے یہ حکایت بیان فرمائی کہ جب حضرت یوسف نے حضرت زلیخا کو چاہا اور بلایا تو وہ آئیں اور انہوں نے دینِ یعقوب علیہ السلام کو قبول کیا اور اللہ پاک کی عبادت میں مشغول رہنے لگیں، کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے خلوت میں چاہی تو وہ بھاگیں حضرت یوسف نے ان کا پیچھا کیا اور پکڑ لیا اور ان سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ پہلے تو تم میرا پیچھا کرتی اور مجھے پکڑتی تھیں، اب میں چاہتا ہوں تو تم مجھ سے بھاگتی ہو، حضرت زلیخا نے کہا کہ اے یوسف! جب تو میں خد سے ناواقف تھی اور تمہارے سوا مجھے کسی سے محبت و انسیت نہ تھی لیکن اب میں نے رب کو پالیا ہے، اب میں اسی کی عبادت و پرستش میں لگی رہتی ہوں، مجاہدے سے مجھے مشاہدے کی نعمت نصیب ہوگئی ہے، اس کی محبت نے میرے دل میں گھر کر لیا ہے، اے یوسف! اب تم اور تم سے لاکھوں درجے افضل بھی کوئی ہو تو وہ بھی میری نظر میں سما نہیں سکتا پھر جب مجھے اللہ سے محبت ہوگئی اور میں اس کی ہوگئی ہوں تو اگر میں کسی اور سے محبت کرنے لگوں تو میں دروغ گو اور جھوٹی ہوں اور محبت میں یہ بات زیبا نہیں۔

    مقصد واضح ہے کہ اللہ کا ہونے کے بعد کسی اور کی چاہت یا طلب ہرگز مناسب نہیں یہی تو توحیدِ خالص ہے اور نہ سچھی محبت کی اجازت دیتی ہے، بیان واقعہ سے ہی مراد نہیں ہوتا بلکہ اس کا اثر نتیجہ بھی مراد ہوتا ہے، اس واقعہ سے مقصود استحکامِ محبتِ الٰہی کا اظہار ہے اور بس یہ حکایت قبل از تاریخِ واقعات سے متعلق ہے، اس پر تاریخی واقعات کا اطلاق نہیں ہوتا، فنِ تاریخ کا آغاز مسلمانوں کا مرہونِ منت ہے دانشورانِ یورپ کو بھی اس کا اعتراف ہے اور اس روایت کو تاریخی واقعہ سے تعبیر کرنا عجرِ واقفیت کی علامت ہے البتہ اس کا تعلق ائیلیات سے ہے، قرونِ اولیٰ میں علمائے یہود جو مسلمان ہوگئے تھے وہ قصص القرآن سے متعلق اسرائیلی روایات کو بھی بیان کیا کرتے تھے لہٰذا اگر وہ روایات کفر و شرک کی آمیزش سے پاک ہیں تو انہیں اپنالینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:-

    حَدِّثُوا عن بنی اسرائیل ولَا حَرَجَ۔

    ترجمہ :- بنی اسرائیلی کی روایات نقل کرو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے علما و مفسرین نے متعدد روایتیں بنی اسرائیل سے نقل کی ہیں، یہ بھی ان ہی میں سے ہے، سورۂ یوسف کی تفسیر پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں اس روایت کو اپنا یا ہے، ہمارے مشائخِ کرام نے بھی اعتنا فرمایا ہے، برصغیر ہند و پاک کے سب سے پہلے مشہور و مقبول اسلامی مبلغ عالم درویش کامل حضرت داتا گنج بخش لاہوری (سید علی ہجویری) نے لکھا ہے:-

    چوں یوسف با یعقوب رسید خداوند دیرا وصال یوسف کرامت کردہ زلیخا را جوان کرد با اسلام راہ نمود و بزنی یوسف داد، یوسف قصددے کرد، زلیخا ازدے گریخت

    (کشف المحجوب)

    حضرت بابا صاحب نے ذکر فرمایا ہے جو عارف کامل اور بے مثل عالم شریعت و طریقت تھے، مولانا عبدالرحمٰن جامی نے مثنوی یوسف زلیخا میں کمال شستگی سے اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے، یہ مثنوی مدارس اسلامیہ میں مدتوں سے داخلِ درس ہے، مولانا جامی وہ جلیل القدر عالم بلکہ عالم گر ہیں جن کی شرحِ جامی اسلامی درس گاہوں کے نصاب میں مدت مدید سے شامل اور آج تک داخلِ نصاب ہے جسے پڑھ کر طالب علم عالم بنتے ہیں۔

    ہمارے لئے اتنا ہی بہت ہے کہ ہمیں یہ روایت ثقہ بزرگوں سے پہنچی ہے، ہمیں اس سے بحث نہیں کہ یہ روایت آج یہودیوں کے علمی ذخیررے میں ہے یا نہیں ہے کیونکہ رد و بدل ان کی دیرینہ عادت ہے، اسی کی بدولت وہ کتابِ مقدس توریت کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکے ہیں، رب العٰلمین کا یہ ارشا د ہے، ان ہی کے لئے یُحرِّفونَ الکَلمَ عن مَوَاضیعہِ اور قدیم علمائے یہود میں سے کسی نے انکار بھی نہیں کیا ہے پھر ثقہ بزرگوں کی روایت کو ہر اعتبار سے ترجیح ہے، اس روایت کے متعلق اتنی ہی معلومات مناسب ہے جس سے اس کی نوعیت و اہمیت واضح ہے۔

    اس روایت میں کئی جملے ایسے ہیں جو روایت کی جان اور روحِ در رواں ہیں اور ایسے ہی بزرگ کے فرمودہ ہوسکتے ہیں جو توحید و حق شناسی کی نعمت سے مالا مال ہوگا، ان جملوں کو دہرائیے اور ان کی نورانیت اور کیفیت سے لطف حاصل کیجئے عجب پُر کیف جملے ہیں۔

    ایں زماں کہ حق تعالیٰ را بشناختم۔۔۔ در پرسش او مشغولِ شدم از مجاہدہ بمشاہدۂ او تافتم۔۔۔ چوں مرا حق تعالیٰ الفت شد۔۔۔ اگر بعد ازیں باغیرے او الفت گیرم۔۔۔ مدعی دروغ زن بودم۔

    یہی شواہد سراسر منہ سے پڑے بول رہے ہیں کہ اسرارالاؤلیا کا انتساب حضرت بابا صاحب سے بلاشبہ صحیح اور درست ہے۔

    روایت 2:-

    حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ یہ دعا گو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قاضی حمید الدین ناگوری کے ساتھ محفلِ سماع میں تھا، سماع ہورہا تھا دونوں بزرگ سماع میں محو تھے، ایک شبانہ روز رقص فرماتے رہے البتہ نماز کے وقت نماز پڑھ لیتے تھے کیف کے دوران میرا ہاتھ پکڑا اور محو کیف ہوگئے اور رقص فرمانے لگے، گانے والے جو قصیدہ گارہے تھے وہ یہ تھا۔

    من آں نیم کہ ز عشق تو پائے پس آرم

    اگر بہ تیغِ کشدم در تو نہ گزارم

    مپرس از شبِ ہجراں چگونہ می گزرہ

    مباد ہیچ کسے را قویست دشوارم

    من از جمالِ تو اے سرو باغ نادیدم

    ہوس نہ شد کہ گہے دل رو وبہ گلزارم

    اگر دہند بفردا بہشت باہمہ چیز

    بحبہ نہ خرم من کہ مست دیدارم

    اس روایت سے یہ واضح ہے کہ اتباع شریعت ان حضرات کی طیبعتِ ثانیہ تھی اور اتباع کا ملکہ ایسا راسخ اور پختہ تھا کہ کیسی ہی کیفیت ہو نماز بروقت ادا فرماتے تھے جو عجوبۂ روزگار ہے، نماز دین کا ستون ہے اگر ستون برقرار نہ رہے تو دین و ایمان کہاں؟ تصوف کی معراج یہی ہے کہ صوفی عاملِ شریعت ہو اگر یہ نہیں تو خاک بھی نہیں، اس روایت میں بروقت نماز پڑھنے کی عملی ترغیب و تحریص ہے ممکن ہے کہ بے نمازیوں کو اس سے وحشت ہوتی ہو اور وہ اسے اقوالِ نامناسب میں شمار کرتے ہوں یا در ہوا شدند کے غلط معنی سے کوئی متاثر ہو ورنہ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے سادہ و صاف ہے، اعمالِ صوفیہ کے مطابق ہے۔

    روایت 3:-

    حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ یہ دعاگو اور برادرم مولانا بہاؤالدین (زکریا ملتانی) ایک جگہ بیٹھے ہوئے سلوک کی باتیں کر رہتے تھے ذرا دیر بعد برادرم مولانا بہاؤالدین اٹھ کھڑے ہوئے، زار و قطار رونے لگے اور کہا انا للہِ و اِنا الیہ راجعون۔

    میں نے کہا کیا بات ہے، انہوں نے کہا اٹھو اور دیکھو، میں اٹھ کھڑا ہوں، دیکھتا کیا ہوں کہ دروازۂ بغداد سے شیخ سعدالدین حمویہ کا جنازہ لائے ہیں اور بغداد کی جامع مسجد کے سامنے نمازِ جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ (اسرارالاؤلیا صفحہ 11)

    یہ روایت سادہ و صاف ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے البتہ سطحی علم رکھنے والوں کو دو اشکال لاحق ہوسکتے ہیں، ایک تاریخی اندراج سے متعلق اور دوسرا بصیرتِ باطنی سے متعلق تاریخی خلفشار و اندراج کے متعلق یہ دو نکات ذہن نشین رکھنے چاہئیں:-

    (1) اسرارالاؤلیا کا عہدِ تدوین 657 ہجری تا 669 ہجری ہے البتہ اس کتاب کے آغاز میں جو 361 ہجری لکھا ہے وہ غلط اور تحریف شدہ ہے۔

    (2) شیخ سعدالدین حمویہ کے سالِ وفات کے متعلق حضرت محبوبِ الٰہی کے ارشاد سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے، حضرت والا کا ارشاد ہے:-

    اول شیخ سعدالدین حمویہ نقل کرد بعد از و بسہ سال شیخ سیف الدین باخرزی بعد از و بسہ سال شیخ بہاؤالدین زکریا بعد از و بسہ سال شیخ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہم

    (اسرارالاؤلیا، صفحہ 91 - فوائدالفوائد صفحہ 130)

    ترجمہ:- پہلے شیخ سعدالدین حمویہ نے انتقال فرمایا ان سے تین سال بعد شیخ سیف الدین باخرزی نے انتقال فرمایا ان سے تین سال بعد شیخ بہاؤالدین زکریا نے انتقال فرمایا، ان سے تین سال بعد حضرت بابا صاحب نے انتقال فرمایا۔

    تذکروں میں جو سنین مرقوم ملتے ہیں وہ عموماً سماعی اور خلافِ تحقیق ہوتے ہیں، اسی لئے وہ مختلف بھی ہیں لہٰذا ان پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کیا جاسکتا، حضرت محبوب الٰہی کے ارشادات کے مطابق اور بروے تحقیق حضرت بابا صاحب کا سنہ وفات 670 ہجری ہے، سن 664 ہجری وغیرہ سنین غلط اور بالکل غلط ہیں۔

    شیخ الاسلام شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کا سنہ وفات بروئے تحقیق 667 ہجری ہے جو حضرت محبوب الٰہی کے مذکورہ بیان کے مطابق ہے، سن 661 ہجری غلط اور نہایت غلط ہے، شیخ سیف الدین باخرزی کا سن وفات حضرت محبوبِ الٰہی کے ارشاد کے مطابق اور حضرت بابا صاحب کے سن وفات کی مطابقت میں 664-663 ہجری ہے۔

    شیخ سعد الدین حمویہ کا سن وفات بھی حضرت محبوبِ الٰہی کے ارشاد کے مطابق اور حضرت بابا صاحب کے سن وفات کی مطابقت میں 660-661 ہجری ہے، سن 650 ہجری یا 655 ہجری یا 560 ہجری غلط اور بالکل غلط ہے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی بصیرتِ باطنی سے مالا مال اور کثیر المطالعہ بزرگ تھے، تذکروں میں نوشتہ سنین کے غیر مستند ہونے کا یقیناً انہیں احساس تھا، تعجب نہیں کہ اسی احساس کی بنا پر ان بزرگوں کے انتقال کے باہمی فصل کا ذکر فرما دینا آپ نے مناسب سمجھا ہو اور جو کچھ آپ کے ارشاد کے مطابق ہے وہ حرف حرف صحیح ہے، تذکروں میں جو سنین لکھے ہیں ان پر بلا تحقیق اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

    اسرارالاؤلیا کے عہد تدوین سے متعلق تحقیق سے بتایا جا چکا ہے کہ اس کا عہد تدوین سن 657 ہجری تا سن 669 ہجری ہے لہٰذا جن بزرگ کا انتقال 660-661 میں ہوتا ہے تو ان کا ذکر سن 657 ہجری کی نوشتہ کتاب میں ہونا صحیح اور بالکل صحیح ہے اور اسرارالاؤلیا میں شیخ سعدالدین حمویہ کی وفات کا ذکر صحیح اور برمحل ہے اس میں اختلاف و تردد کی گنجائش نہیں ہے۔

    دوسری مشکل جو سطحی علم رکھنے والوں کو لاحق ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ شیخ الاسلام شیخ بہاؤالدین زکریا نے اور حضرت بابا صاحب نے شیخ سعدالدین حمویہ کے نمازِ جنازہ کے منظر کو کیسے دیکھ لیا تھا، اس کا تعلق بصیرتِ باطنی سے ہے، مختصراً اتنا ہی عرض کر دینا کافی ہے کہ یہ مشہور و معتبر روایت ہے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ مصر میں قبطیوں سے جنگ فرما رہے تھے، امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں جمعہ کی نماز کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ساریہ الجبیل حضرت عمر کی آواز سے متنبہ ہوئے، پہاڑ کی طرف رخ کیا جہاں قبطی چھپے ہوئے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ حضرت ساریہ اور ان کا لشکر آگے نکل جائے تو پیچھے سے یہ حملہ کردیں اور شکست خوردہ مصری فوج پلٹ کر مقابلہ کرنے لگے اس طرح گھیر کر اسلامی لشکر کو شکست دے دیں، واقعہ سے آگاہی اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو متنبہ فرمانا اور حضرت ساریہ کا یقین و اعتماد اور تعمیلِ ارشاد اسی پر شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا کی اور حضرت بابا صاحب کی شیخ سعدالدین حمویہ کے واقعہ وفات سے آگاہی کو قیاس کر لینا چاہئے ورنہ یہ تصوف کا اہم مسئلہ ہے تا وقتے کہ مادیت کے پردے مرتفع نہ ہوں، اس کی حقیقت تک رسائی نہیں ہوسکتی، آں اشکال کے رفع ہونے کے بعد اس روایت کو درست مان لینے میں کوئی شے مانع نہیں رہتی۔

    روایت4:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی جب تلاوتِ قرآن پاک فرماتے اور کسی آیتِ وعید (عذات کی آیت) پر پہنچے تو سینے پر ہاتھ مارتے اور بیہوش ہوکر گرجاتے تھے جب ہوش میں آتے تو پھر قرانِ قرانِ پاک کی تلاوہ میں مشغول ہوجاتے اور اس طرح دن میں ہزار بار بیہوش ہوتے اور ہوش میں آتے تھے (روزے ہزار بار بیہوش آمدے) اسی طرح جب آپ آیت مشاہدہ (دیدار الٰہی کی آیت) پر پہنچتے تو مسکراتے اور اٹھ کھڑے ہوتے اور عالمِ مشاہدہ میں متحیر رہتے، ایک رات دن عالمِ مشاہدہ میں ایسے متحیر رہتے کہ اپنی بھی خبر نہ رہتی یہ مخصوص ترین کیفیت ہے جو عالم حالات سے ممیز ہے، اس کا تعلق مراتبِ سلوک سے ہے۔

    تو نطر بازنۂ در نہ تغافل نگہ ست

    تو زبانِ فہم نہ ٔدر نہ خموشی سخن ست

    اس کا احساس تو کیا جاسکتا مگر اصل کیفیت کو نہ گرفت میں لایا جاسکتا ہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے کیفیات کی ترجمانی قوتِ بشری سے باہر ہے اس میں یہی راز سربستہ ہے،

    اہلِ زبان کی روش سے کم آگاہی ہزار بار پر بھی انگلی دھرے گی مگر سمجھ لینا چاہئے کہ عرف عام میں ہزار سے مراد گنتی نہیں کثرت ہے، مرزا غالب کہہ گئے ہیں۔

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

    محاورے میں کہتے ہیں ہزار بار سمجھایا باز نہ آئے، اب بھگتو خمیازہ اس کا یہ بھی ہے کہ ایسی حالت میں گنتی گنی ہی نہیں جاتی، قرینے ہی سے کہہ دیا جاتا ہے، مراد ہوتی ہے کثرت، اس روایت میں یہی دو نکتے تھے جو حل ہوگئے ورنہ ہر دانش ور ہر اعتبار سے روایت کی معنویت اور اسلوب کی لطافت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    روایت5:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ کل قیامت کے دن جب عاشقوں کو مقامِ تجلی میں لایا جائے گا تو حکم ہوگا کہ آنکھیں کھولو پھر عاشقوں میں سے ہر ایک کو آگے لایا جائے گا اور ہر ایک پر ہر بار تجلی ہوگی وہ سات ہزار برس تک بیہوش رہیں گے جب ہوش میں آئیں گے تو فریاد کریں گے ھَل من مَزِید ان پھر بھی تجلی ہوگی، ستر مرتبہ ایساہی ہوگا پھر وہ اپنی جگہ آجائیں گے حضرت بابا صاحب نے یہ بیان فرمانے کے بعد آہ کی اور بیہوش ہوگئے اور بیہوشی ہی کے عالم میں یہ رباعی پڑھی۔

    از بہرِ رخِ تو مبتلا می باشم

    اندر غمِ عشق در بلا می باشم

    وزیاد جمال تو چناں مدہوشم

    کز خود خبرے نیست کجا می باشم

    اس بیان کا اور اس روایت کا تعلق عالمِ بقا سے ہے

    جو اس عالمِ فنا سے مختلف ہے۔یہ مادی ہے اور وہ غیر مادی، وہاں کی کیفیات کو اس عالم کی مشابہت سے بیان کرنا ہوتا ہے لیکن جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ تشبیہ و تمثیل سے منزہ ہوتا ہے، بیہوشی سلوک کی اصطلاح ہے، اس حالت میں سالک صفات ذات میں محو ہوتا ہے، اسی عالم باقی کی اس کیفیت کا احساس کیا جاسکتا ہے جیسے بیہوشی سے تعبیر کیا ہے، اس کی فہمید کا تعلق عرفاء سے ہے، ہر کس و ناکس سے نہیں ہے یہ ایسی ہی بات ہے کہ منطق و فلسفہ کی اصطلاحات کو علمائے منطق و فلسفہ ہی جانتے ہیں جو ان علوم سے آگاہ نہیں وہ نہیں جانتے۔

    دوسری چیز ہے طول مدت اس کا تصور واقعۂ معراج سے کیا جاسکتا ہے یہاں بستر بھی گرم رہا، کنڈی بھی ہلتی رہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قابَ قوسینِ اَو انیٰ کی سیر بھی فرما لی ان نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس روایت کو سمجھا جاسکتا ہے ورنہ نا آشنائے تصوف اس کی فہمید سے قاصر رہتے ہیں وہ کچھ بھی کہیں ان کا کہنا معتبر نہیں۔

    تلقینِ درس اہلِ نظر ایک اشارتست

    کردم اشارتے و مکرر نمی کنم

    روایت6:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ یہ دعاگو اور خواجہ قطب الدین بختیار اوشی ملک بالا کی طرف سفر میں تھے، سوتہ نامی دریا کا کنارہ تھا، ہم دونوں جب وہاں پہنچے تو وہاں کوئی کشتی نہ تھی جو ہم پار جاتے، مقام بھی خوف کا تھا حضرت خواجہ نے فرمایا فرید آؤ! پار چلیں میں نے عرض کیا زہے سعادت مگر دل میں یہ بات آئی کہ کشتی تو ہے نہیں، پار کیسے ہوں گے دل میں یہ خطرہ گزرا ہی تھا کہ اپنے کو اور حضرت خواجہ صاحب کو دریا پار کھڑے دیکھا موقع ملا تو میں نے دریافت کیا کہ ہم کیسے پار ہوگئے تھے آپ نے فرمایا کہ جب دیکھا کہ دریا کے کنارے کشتی نہیں ہے تو میں نے سورۂ اخلاص (قل ھو اللہ احد) پڑھ کر دریا پر دم کیا دریا شق ہوگیا اور ہم چلے آئے۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 37)

    پوری حکایت سادہ اور عام فہم ہے البتہ دریا کا راستہ دنیا خوارقِ عادت میں سے ہے لیکن صوفیۂ کرام کے حالات میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں اور ان کتابوں میں ملتے ہیں، جنہیں اولیا دشمن نہایت درجہ مستند اور ادب صوفیہ میں بے مثل مانتے ہیں گویا کہ ایسے واقعات صوفیہ کے معمولات میں سے ہیں عجائبات میں سے نہیں ہیں۔

    امیر خورد کرمانی لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں اور قاضی حمیدالدین ناگوری دریا کی طرف سفر میں تھے۔۔۔ ہم نے دریا پار جانا چاہا، کشتی تھی نہیں، ہم نے دعا کی تو بحکم خدا دریا نے ہمیں راستہ دے دیا، آپ کا مبارک بیان یہ ہے:-

    دست بدعا بردیم بفرمانِ خدائے تعالیٰ دریا دو شق شد زمیں خشک پیدا شد ما بگزشتیم

    ترجمہ :- ہم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے خدا کےحکم سے دریا شق ہوگیا، خشک زمین نکل آئی اور ہم دریا پار چلے گئے۔

    امیر خورد کرمانی نے خواجۂ بزرگ خواجہ معین الدین سنجری کی زبانی نقل کیا ہے:-

    خواجہ معین الدین حسن سنجری طیب اللہ مضجبہ می فرمود کہ وقتےمن برابر خواجہ عثمان ہارونی در سفر بودم در کنارۂ دجلہ رسیدیم، کشتی بہ بود، خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ العزیز فرمود کہ چشم پیش کن چشم پیش کردم، خواجہ را و خود را در گزر اے دجلہ دیدم از خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ العزیز پرسیدم کہ شما ایں چہ کردید، فرمود چند بارسورۂ فاتحہ خواندم

    (سیرالاؤلیاء صفحہ 44)

    خواجۂ بزرگ خواجہ معین الدین سنجری فرماتے تھے کہ

    ایک دفعہ میں خواجہ عثمان ہارونی کے ہمراہ سفر میں تھا جب ہم دریائے دجلہ کے کنارے پہنچے تو وہاں کشتی نہ تھی، خواجہ عثمان ہارونی نے فرمایا آنکھیں بند کرلو میں نے آنکھیں بند کر لیں، آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ہم دونوں دریا کے پار ہیں، میں نے خواجہ عثمان ہارونی سے دریافت کیا تو فرمایا میں نے چند بار سورۂ الحمدشریف پڑھی تھی۔

    مخدوم نصیرالدین چراغ دہلی نے شیخ جلال الدین تبریزی کے ذکر میں فرمایا۔

    ازوے روایت کردہ اند پیر من ہفتاد مرید تارک داشت، پوشش ایشاں میرزی و عرق چیں در برکلاہ بر سر او اگر ابے پیش آمدے و کشتی نہ بودے پائے می نہادند و می گزشتند

    (خیرالمجالس، صفحہ 151)

    وہ یہ بیان کرتے تھے کہ میرے پیر کے ستر مرید تارکِ دنیا تھے، ان کا لباس تہمد تھا اور بدن میں عرق چین یعنی پسینہ کو جذب کرنے والا لباس اور سر پر ٹوپی (سارا ہی لباس سادہ تھا مگر ایسے باکمال تھے) کہ دریا آجاتا اور کشتی نہ ہوتی تو (پانی ہی پر) پیر رکھتے اور چلے جاتے تھی گویا کہ اسرارالاؤلیاء کا مذکورہ واقعہ بھی کچھ ایسا واقعہ نہیں ہے جو دیگر کتبِ ملفوظات میں مندرجہ واقعات کے لگ بھگ نہ ہو۔

    روایت7:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں بغداد کی طرف مسافر تھا دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ ایک بزرگ پانی پر مصلیّٰ بچھائے نماز پڑھ رہے ہیں جب نماز پڑھ چکے تو سجدہ میں سر رکھا اور سجدے ہی میں جناب باری میں التجا کرتے رہے کہ خداوندا! حضرت خضر سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہورہا ہے، آپ انہیں توبہ کی توفیق عنایت فرمایئے، اتنے میں حضرت خضر بھی آگئے اور دریافت کیا کہ اے بزرگوار! میں کون سے گناہ کبیرہ کا مرتب ہورہا ہوں، انہوں نے کہا کہ تم نے جنگل میں (فی سبیل اللہ) بویا جب وہ بار آور ہوگیا تو تم اس کے سایے میں بیٹھتے اور آرام کرتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ درخت میں نے خدا کے لئے بویا ہے، حضرت خضر نے دریافت کیا کہ آپ کس طرح رہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ان بزرگ نے کہا کہ میں اس طرح رہتا ہوں کہ اگر مجھے ساری دنیا عنایت فرمائیں اور کہیں کہ تم سے اس کا حساب بھی نہ لیا جائےگا اور یہ بھی کہیں اگر قبول نہ کروگے تو دوزخ میں ڈال دیئے جاوگے تو میں دوزخ میں پڑنا قبول کرلوں گا مگر دنیا کو لینا گوارا نہ کروں گا، حضرت خضر نے دریافت کیا کہ کیوں؟ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ وہ (دنیا) خدائے عزوجل کی مبغوضہ ہے جس چیز کو اللہ پاک دشمن قرار دیں میں اسے قبول نہ کروں گا، اس کی بجائے دوزخ کو قبول کرلوں گا۔

    حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ میں ان کے نزدیک ہوا اور سلام کیا نہر حائل رہی، انہوں نے کہا آجاؤ، میں سوچنے لگا کہ پانی کو عبور کیسے کروں میں اسی فکر میں تھا کہ خشکی نمودار ہوئی میں چلا اور ان کے پاس پہنچ گیا، تھوڑی دیر بعد انہوں نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا اے فرید! چالیس برس ہوئے کہ میں سونے کے لئے لیٹا تک نہیں لیکن اے درویش میرے مقام پر مجھے جو کھانے کو ملتا ہے تو جب تک کوئی آنے والا آنہیں جاتا اور میں اپنے ساتھ اسے کھلا نہیں لیتا مجھے اطمینان حاصل نہیں پڑتا، اتنے میں دو پیالے سالن کے اور چار روٹیاں ہلکی ہلکی سی عالمِ غیب سے آئیں، ایک پیالہ میرے آگے رکھا اور دوسرا اپنے آگے، دونوں نے کھانا کھایا جب رات ہوگئی تو عشا کی نماز پڑھی پھر وہ بزرگ نماز نفل پڑھنے لگے، میں نے ان کے ساتھ پڑھنے لگا، انہوں نے دو رکعات نماز میں چار بار قرآن پاک ختم کیا ہر رکعت میں دو قرآن پاک ختم کرتے تھے اس کے بعد اسلام پھیرا اور سر سجدے میں سر رکھا اور زار و قطار رونے لگے اور عرض کیا کہ خداوندا! میں نے آپ کے شایانِ شان عبادت نہیں کی جو میں یہ سمجھوں کہ میں نے کچھ کیا ہے، اس کے بعد صبح کی نماز پڑھی اور مجھے رخصت کیا، میں نے اپنے کور دریا کے کنارے کھڑا پایا اور وہ بزرگ نظروں سے غائب ہوگئے نہیں معلوم کہاں گئے۔

    اس کے بعد حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ اے درویش! درویشی یہ تھی جو وہ رکھتے تھے کہ دنیا کی چیزوں میں سے ان کے پاس ٹوٹی ہوئی پانی کی ٹھلیا کے سوا اور کچھ نہ تھا، رات ہوتی تو اس کا پانی بھی پھینک دیتے تھے اور رات دن تجرید و محاسبہ میں مشغول رہتے تھے۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 44-45)

    یہ حکایت بہت دلچسپ اور نہایت سبق آموز ہے، اس میں مافوق العادۃ عنصر بھی ہے اس روایت کو خواجہ حسن علائے سجزی نے حضرت محبوبِ الٰہی کی زبانی نقل کیا ہے، بیان میں وہی فرق ہے جو فطرتاً دو صاحبوں کے بیان میں ہوا کرتا ہے لیکن موازنہ یہ بتاتا ہے کہ مولانا بدرالدین اسحاق کا ضبط الفاظ خواجہ حسن علائے سجزی کے ضبط الفاظ سے افضل و اعلیٰ ہے، محل غور ہے کہ ایک ہی خیال کو دونوں صاحبوں نے کس کس طرح بیان فرمایا ہے، مولانا بدرالدین اسحاق نے لکھا ہے:-

    مصلی بر آب انداختہ نماز می گزار د چوں از نماز فارغ شد، سیر بسجدہ نہاد، در مناجات می گفت

    ترجمہ:- پانی پر مصلی ڈالے نماز پڑھ رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے سر سجدے میں رکھا اور التجا کرتے رہے۔

    خواجہ امیر حسن علائے سجزی نے لکھا ہے۔

    مصلی بروئے آب انداختہ بود و نماز می کرد ومی گفت خداوند! الخ

    (فوائدالفواد صفحہ 82)

    ترجمہ :- پانی پر مصلی ڈال رکھا تھا اور نماز پڑھتے رہے اور کہتے رہے کہ خداوندا۔

    جسے علم و فن سے ذرا بھی آگاہی ہے وہ ان جملوں کے اوصاف سے واقف ہے کہ چوں از نماز فارغ شد سر بسجدہ نہاد در مناجات می گفت اقتضائے حال کے مطابق ہے یا یہ کہ نماز می کرد و می گفت (نماز پڑھتے رہے اور کہتے رہے) نماز میں کچھ کہتے رہنا کہاں تک مناسب ہے، اؤلیااللہ تو ہمہ تن ذات الٰہی میں محو ہوجاتے ہیں اور اگرچہ مدعا یہی ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد دعا کی مگر ظاہر ہے اسرارالاؤلیاء کا اسلوب زیادہ اقضائے حال کے مطابق ہے بہر نوع اسرارالاؤلیاء کو اسلوب بیان اور ماخذ کے اعتبار سے ترجیح حاصل ہے۔

    روایت8:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ زمانۂ ماضی میں ایک بزرگ تھے جو بیس سال عالمِ تحیر میں رہے، ایک سال گزرتا تو وہ عالمِ صحو میں آتے، ان کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا البتہ ایک چھوارا تھا جو ان کی خانقاہ کے طاق میں رکھا رہتا تھا جب بھوک کا غلبہ ہوتا تو وہ اس چھوارے کو طاق میں سے اٹھاتے اور چوس لتیے پھر وہیں رکھ دیتے، کہتے ہیں کہ پچاس برس تک یہی کرتے رہے ابھی وہ کچھ باقی ہی تھا کہ ان بزرگ کا انتقال ہوگیا اور وہ رحمتِ حق سے جاملے۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 45)

    احدیت میں محو ہونے اور مشاہدۂ حق میں مستغرق رہنے کو حیرت و تحیر سے تعبیر کیا جتا ہے اور صحو کہتے ہیں ہوش میں آن یا رہنے کو مراد اس سے یہ ہے کہ انہماک و توحید حقیق تک رسائی حاصل ہونے کے باوجود سالک حفظ مراتب سے غافل نہ ہو۔

    بہ حکایت بلاشبہ عجائباتِ روزگار سے ہے تاہم ہر عہد میں عجوبۂ روزگار شخصیتیں عالمِ وجود میں آتی رہی ہیں اور کتب ملفوظات میں ایسے بزرگوں کا ذکر خوب ملتا ہے، خواجہ امیر حسن علا سجزی حضرت محبوبِ الٰہی کی زبانی نقل فرماتےہیں:-

    بقائے بود علیہ الرحمۃ در مدت بست و پنج سال صائم بود ہیچ کس را برحال او اطلاع نہ بود کہ او صائم می باشد اگر درخانہ بودے چناں نمودے کہ در دکان چیزے خوردہ است و اگر دو دکان بودے چناں نمودے کہ در خانہ چیزے خوردہ است

    (فوائدالفواد صفحہ 24)

    ترجمہ :- ایک بقال تھا اس پر خدا کی رحمت ہو، پچیس برس روزہ دار رہا، کسی کو خبر نہ ہوئی (کہ وہ روزے سے ہے) حتیٰ کہ اس کے گھر والوں کو بھی خبر نہ ہوئی اگر وہ گھر میں ہوتا تو یہ ظاہر کرتا کہ اس نے دکان پر کھانا کھا لیا ہے اور دکان پر ہوتا تو یہ ظاہر کرتا کہ گویا اس نے گھر پر کھا لیا ہے۔

    روایت7 :- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ زمانہ ماضی میں ایک بزرگ تھے جو بیس سال عالمِ تحیر میں رہے، ایک سال گزرتا تو وہ عالمِ صحو میں آتے ان کے پا س کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا البتہ ایک چھوارا تھا جو ان کی خانقاہ کے طاق میں رکھا رہتا تھا جب بھوک کا غلبہ ہوتا تو وہ اس چھوارے کو طاق میں سے اٹھاتے اور چوس لیتے پھر وہیں رکھ دیتے، کہتے ہیں کہ پچاس برس تک یہی کرتے رہے، ابھی وہ کچھ باقی ہی تھا کہ ان بزرگ کا انتقال ہوگیا اور وہ رحمت حق سے جا ملے۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 45)

    اس حکایت میں سلوک کی دو اصطلاحیں آگئی ہیں۔

    (1) تحیر

    (2) صحو

    سالک کے مرتبۂ احدیت میں محو ہونے اور مشاہدۂ حق میں مستغرق رہنے کو حیرت و تحیر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور صحو کہتے ہیں ہوش میں آنے یا رہنے کو مراد اس سے یہ ہےکہ انہماک و توحید حقیقی تک رسائی حاصل ہونے کے باوجود سالک حفظ مراتب سے غافل نہ ہو۔

    یہ حکایت بلاشبہ عجائباتِ روزگار سے ہے تاہم ہر عہدِ میں عجوبۂ روزگار شخصیتیں عالمِ وجود میں آتی رہی ہیں اور کتبِ ملفوطات میں ایسے بزرگوں کا ذکر خوب ملتا ہے، خواجہ امیر حسن علائے سجزی حضرت محبوبِ الٰہی کی زبانی نقل فرماتے ہیں:-

    بقائے بود علیہ الرحمۃ در مدت بست و پنج سال صائم بود ہیچ کس را برحال او اطلاع نہ بود کہ او صائم می باشد اگر در خانہ بودے چناں نمودے کہ در دکان چیزے خوردہ است و اگر دوکان بودے چناں نمودے کہ در خانہ چیزے خوردہ است

    (فوائدالفواد (صفحہ 24)

    ایک بقال تھا اس پر خدا کی رحمت ہو، پچیس برس روزہ دار رہا، کسی کو خبر نہ ہوئی (کہ دہ روزے سے ہے) حتیٰ کہ اس کے گھر والوں کو بھی خبر نہ ہوئی اگر وہ گھر میں ہوتا تو یہ ظاہر کرتا کہ اس نے دکان پر کھانا کھا لیا ہے اور دکان پر ہوتا تو یہ ظاہر کرتا کہ گویا اس نے گھر پر کھا لیا ہے۔

    اسرارالاؤلیا میں شیخ بزرگ کی حکایت ہے اور یہ ایک بقال کی کیفیت ہے، مخدوم نصیرالدین چراغ دہلوی نے رشید و ہدایت کا ذکر فرمایا ہے کہ اسے کاروباری مشغولیت میں کھانا یاد ہی نہ آتا تھا اور یہ کلیہ بھی بیان فرمایا ہے۔

    دو عالم عشق ہم چنیں است چوں دل عاشق بہ معشوق متعلق می شود او را طعام و خواب یاد نمی آید، جائے کہ در عالم ظاہر ایں معاملہ است در عالم باطن ہر طریق اولیٰ، آں کہ مشغول مشاہدات عالم غیبی باشد طعام کہ؟ آب کہ؟ خواب کہ؟

    (خیرالمجالس صفحہ 93)

    عشق کے عالم میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب محب کا دل محبوب سے متعلق ہوجاتا ہے تو اسے کھانا اور سونا یاد نہیں آتا جب عالم ظاہر میں یہ کچھ ہے تو عالم باطن میں بطریق اولیٰ ہے جو بھی عالم غیب کے مشاہدے میں محو مستغرق ہوتا ہے اس کے لئے کھانا پینا اور سونا کیسا۔

    حضرت مخدوم نے یہ بھی فرمایا ہے۔

    عبادت ظاہری سبب می شود برائے غذا و ہمیں عبادت ظاہری جائے غذا می شود برائے اشتہا۔۔۔ بعد ازاں فرمودند ذکر ہم سبب اشہا است و ہم بجائے غذا ما مراقبہ در ہمہ حال بجائے غذا است زیر کہ در مراقبہ حضور و مشاہدہ است و جوارح در حرکت نمی آید، ملائم ایں فرمودند کہ خواجہ عقال مغربی چہار سال در کعبہ مراقب بود دریں چہار سال طعام و آب نخور

    (خیرالمجالس صفحہ 153۔ 154)

    عبادت ظاہری کا سبب ہوتی ہے (عبادت ظاہری سے بھوک لگتی ہے) اور یہی ظاہری عبادت غذا بن جاتی ہے اور اگر کسی کو ذوق شوق نہیں ہے تو وہی۔۔۔ پھر فرمایا کہ ذکر بھوک بھی لگتا ہے اور غذا بھی بن جاتا ہے مگر مراقبہ ہر حال میں غذا کا قائم مقام ہے کیونکہ مراقبے میں حضور و مشاہدہ ہے اور اعضا حرکت میں نہیں آتے، اسی سے متعلق یہ فرمایا کہ خواجہ عقال مغربی چار سال کعبۃ اللہ میں مراقب رہے، اس چہار سالہ مدت میں انہوں نے نہ کھایا نہ پیا۔

    خواجہ عقال مغربی کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے:-

    خواجہ عقال مغربی قدس اللہ سرہ العزیز ہفت سال طعام نہ خورد چوں وقت نماز شدے بہ خود آمدے، بر خاستے نماز گزاردے، باز در مراقبہ شدے

    (خیرالمجالس صفحہ 92)

    ترجمہ :- خواجہ عقال مغربی قدس اللہ سرہ العزیز نے سات برس کھانا نہیں کھایا جب نماز کا وقت ہوتا ہوشیار ہوجاتے، اٹھتے نماز پڑھتے پھر مراقبے میں مشغول ہوجاتے۔

    کتب ملفوظاتِ مشائخِ چشت رحمہم اللہ میں ایسے واقعات اور بھی ملتے ہیں، حضرت خواجہ گیسودراز نے فرمایا:-

    شیخ شرف الدین (بو علی قلندر) پانی پتی نے تیس سال تک کھانا نہیں کھایا۔

    (جوامع الکلم ملفوظ، 1 رمضان المبارک 802 ہجری)

    یہ بھی فرمایا ہے:-

    سید مصری ایک خطاط تھے، انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اٹھائیس برس سے پانی نہیں پیا ہے۔

    (جوامع الکلم ملفوظ، 10 رمضان المبارک 802 ہجری)

    حضرت مخدوم نصیرالدین چراغ دہلی نے اشتہا پیدا نہ ہونے اور مدتوں تک کچھ نہ کھانے پینے کی حکمت بھی بیان فرما دی ہے جنہیں علم تصوف سے ذرا بھی آگاہی ہے وہ جانتے ہیں کہ راہِ سلوک میں ایسے مقام بھی آتے ہیں جن کی فہمید سے سطحی اذہان معذور رہتے ہیں، اسرارالاؤلیاء کی مذکورہ حکایت آئیں تصوف کے مطابق اور نہایت درجہ مؤقر ہے۔

    روایت 9:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ بزرگانِ دین میں سے ایک بزرگ تھے، انہیں عبداللہ خفیف کہتے تھے چالیس سال تک وہ رات کو نہیں سوئے بلکہ لیٹے تک نہیں اور وہ خدائے تعالیٰ کے خوف سے اس قدر روئے کہ ان کے مبارک رخساروں پر گوشت نام کو بھی نہ رہا تھا یہ کہتے ہیں کہ چڑیوں نے ان کے مبارک رخساروں میں گھونسلے بنا لیتے تھے اور وہ خدائے تعالیٰ کے خوف سے ایسے حیران و سراسیمہ تھے کہ انہیں چڑیوں کی آمد و رفت کی خبر تک نہ ہوتی تھی جب وہ بزرگ قیامت کی باتیں اور قبر کی کیفیت سے سنتے تو مثل بید کانپنے لگتے، زمین پر گر پڑتے اور ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپنے لگتے جب ہوش میں آتے تو اٹھتے اور یہ آیت پڑھتے۔

    فریقُ فی الجنۃَ و فریقٌ فی السّعیر

    زار و قطار روتے اور فرماتے ہیں کچھ نہیں جانتا کہ کس فریق میں ہوں گا، ساری عمر انہوں نے اسی طرح گزاری اور اللہ کو پیارے ہوئے۔

    (اسرارالاؤلیا صفحہ 58)

    یہ روایت بھی محیرالعقول اور عجائباتِ روزگار میں سے ہے لیکن ایسی روایتیں دیگر کتبِ ملفوظات میں بھی ہیں، اس لئے یہ ماننا ہوگا کہ صوفیۂ کرام کے احوال سے ایسی، روایات کو خصوصی علاقہ ہے یہ بھی ذہن نشین رکھنے کے لائق ہے کہ یہ جملہ کہ یہ کہتے ہیں کہ چڑیوں نے ان کے مبارک رخساروں میں گھونسلے بنا لیتے تھے۔ الخ

    بعض نسخوں میں نہیں ہے اس کے ماسوا چنانچہ می گویند اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ وہ روایت ہے جو بطورِ افواہ عوام کی زبان پر ہے اس کا کوئی معتبر راوی نہیں ہے، بات کا بتنگڑ بنا دینا عوام کی عادت ہے اس نکتے کو سمجھ لینے کے بعد روایت میں کوئی خلفشار نہیں رہتا۔

    اب رہی یہ بات کہ چالیس سال تک وہ رات کو نہ سوئے تو کاملین صوفیہ کرام کے احوال میں ایسے واقعات ملتے ہی ہیں چنانچہ حضرت محبوبِ الٰہی کا ارشاد ہے:-

    شجاع کرمانی چہل سال شب نہ خفت

    (فوائدالفواد صفحہ 40)

    ترجمہ :- شجاع کرمانی چالیس سال تک رات کو نہ سوئے۔

    اسی روایت کو مخدوم نصیرالدین چراغ دہلی نے دہرایا ہے، فرماتے ہیں:-

    شاہ شجاع کرمانی فرمودند چہل سال نخفت (خیرالمجالس صفحہ 239)

    ترجمہ :- شاہ شجاع کرمانی نے فرمایا کہ وہ چالیس سال سوئے نہیں۔

    فوائدالفواد اور خیرالمجالس کے بیانات سے بھی اس خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ یہ روایت بھی صوفیہ کرام سے خصوصی رابطہ رکھتی ہے اور خیشتِ ایزدی کی ترجمان ہے اور اس کا اسلوبِ بیان یہ بتاتا ہے کہ اس کا تعلق حضرت بابا صاحب ہی سے ہے۔

    روایت10:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ اے درویش! شیر خاں ملتان کا حاکم تھا وہ دعاگو سے صاف نہیں تھا خلش رکھتا تھا میں نے بارہا نہایت نرمی اور ہمدردی سے کہا اور سمجھایا کہ درویشوں سے بغض و کینہ مناسب نہیں ہے بلکہ ملک کی تباہی و بربادی کا سبب ہے مگر وہ نہ مانا اور من مانی ہی کرتا رہا، انجام کار تاتاریوں نے اُچ پر یورش کی اور لوٹ مار بھی کی قضاء عنداللہ صرف وہی مارا گیا پھر آپ نے یہ شعر پڑھا۔

    (اسرالاؤلیاء صفحہ 69)

    دریش بہ شہر نہ بودے اگر مقام

    گشتے سراسر ہمہ عالم خراب حال

    یہ واقعہ بروئے تاریخ سن 262 ہجری کا ہے، اسی واقعہ کو حضرت محبوبِ الٰہی نے بھی بیان فرمایا ہے خواجہ امیر حسن علاء سجزی نے لکھا ہے:-

    شیر خاں والیٔ اُچ و ملتان بود در حق شیخ الاسلام شیخ فریدالدین قدس اللہ سرہ العزیز چنداں اعتقادے نداشت تا بارہا شیخ الاسلام در معنیٔ او ایں

    ترجمہ :- شیر خاں اُچ اور ملتان کا حاکم تھا حضرت بابا صاحب کے متعلق کچھ اچھا اعتقاد نہ رکھتا تھا یہاں تک کہ حضرت بابا صاحب نے اس سے متعلق بارہا یہ شعر پڑھا۔

    دو مصرع بگفتے:-

    افسوس کہ از حال منت نیست خبر آنگہ خبرت شود کہ افسوس خوری بعد ازاں فرمود کہی چوں شیخ الاسلام قدس اللہ سرہ العزیز از دنیا برفت ہماں سال کافراں دراں دیار رسیدند

    (فوائدالفواد صفحہ 220۔221)

    مفہوم کے اعتبار سے دونوں بیان یکساں ہیں، الفاظ کا دو بدل فطری شے ہے جو دو مختلف اشخاص کے بیان میں ہوتا ہے البتہ اشعار مختلف ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے، البتہ فوائدالفواد میں بعد ازاں کے یہ واقعہ بروئے تاریخ سن 262 ہجری کا ہے، اسی واقعہ کو حضرت محبوبِ الٰہی نے بھی بیان فرمایا ہے خواجہ امیر حسن علاء سجزی نے لکھاہے:-

    شیر خاں والیٔ اُچ وملتان بود در حق شیخ الاسلام شیخ فریدالدین قدس اللہ سرہ العزیز چنداں اعتقادے نداشت تا بارہا شیخ الاسلام در معنیٔ او ایں دو مصرع بگفتے

    ترجمہ :- شیر خاں اُچ اور ملتان کا حاکم تھا حضرت بابا صاحب کے متعلق کچھ اچھا اعتقاد نہ رکھتا تھا یہاں تک کہ حضرت بابا صاحب نے اس سے متعلق بارہا یہ شعر پڑھا۔

    افسوس کہ از حال منت نیست خبر آنگہ خبرت شود کہ افسوس خوری بعد ازاں فرمود کہ چوں شیخ الاسلام قدس اللہ سرہ العزیز از دنیا برفت ہماں سال کافراں دراں دریار رسیدند

    (فوائدالفواد صفحہ 221-220)

    مفہوم کے اعتبار سے دونوں بیان یکساں ہیں، الفاظ کا دو بدل فطری شے ہے جو دو مختلف اشخاص کے بیان میں ہوتا ہے البتہ اشعار مختلف ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے البتہ فوائدالفواد میں بعد ازاں کے بعد کے جو کچھ لکھا ہے اس کا تعلق اس واقعہ سے نہیں ہے کیونکہ شیر خاں کا واقعہ 662 ہجری کا ہے اور اس بیان میں حضرت بابا صاحبِ کی وفات کے بعد کے واقعہ کا ذکر ہے، اس کا ذکر امیر خورد کرمانی نے بھی کیا ہے۔

    بعد نقل شیخ شیوخ العالم کفار در دریار اجودھن رسیدند خواجہ نظام الدین از جہت مروی و غایت دلادری بحرب کفار پیوست بعد اقتال بسیار شہادت یافت

    (سیراولالیاء صفحہ 190)

    یہ خواجہ نظام الدین حضرت بابا صاحب کے چوتھے صاحبزادے تھے غالباً حضرت محبوبِ الٰہی نے یہ بھی ذکر فرمایا تھا کہ حضرت بابا صاحب کی وفات کے بعد یہ حادثہ بھی پیش آیا تھا جو حضرت بابا صاحب کے فرمودہ اس شعر سے بھی متعلق ہے جو اسرارالاؤلیاء میں اس ذکر کے بعد ہے، خواجہ امیر حسن علاء سجزی کے اسلوب میں ایجاز ہے، انہوں نے بعد ازاں سے اس واقعہ کو علٰحدہ تو کردیا ہے لیکن پھر بھی مبہم ہی رہا، اس سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ وہی واقعہ شیر خاں مارا گیا تھا مگر ایسا ہے نہیں، کیونکہ واقعہ حضرت بابا صاحب کی وفات کے بعد کا ہے اور شیر خاں کے مارے جانے کا واقعہ حضرت بابا صاحب کی حیات سن 666 ہجری کا ہے، یہ واقعہ حضرت محبوب الٰہی نے راحت القلوب میں بھی قلم بند فرمایا ہے۔

    آپ کا مبارک بیان یہ ہے۔

    شیر خاں والیِٔ اُچ و ملتان بود، در حق دعا گوئے چنداں عقیدہ نہ داشت کہ بر زبان آید بارہا درحق او ایں بیت گفتہ:-

    افسوس کہ از حال منت نیست خبر

    انگہ خبرت شود کہ افسوس خوری

    بعد از چند روز ہماں سال کفار در رسیدند، تمام نہیب کرندند و بردند

    (راحت القلوب صفحہ 17-16)

    تینوں بیان سامنے ہیں مگر یہ وضاحت صرف اسرارالاؤلیا میں ہے کہ مغلوں کی یورش اُچ کے گر د و نواح میں تھی، دوسرے یہ وضاحت بھی اسرارلاؤلیاء ہی میں ہے کہ حملہ آور مغل (تاتاری) تھے، کفار و کافراں میں یہ وضاحت کہاں ہے، اس اعتبار سے اسرارالاؤلیاء کے بیان کو ترجیح ہے، خواجہ امیر حسن علاء سجزی کا بیان ایجاز کی بنا پر قدرے گنجلک ہوگیا ہے اس لئے اس کا مقام تیسرا ہے، اولیت اسرارالاؤلیاء کے بیان کو حاصل ہے اور یہ وصف تقابل میں بھی اسرارالاؤلیاء کے مستند ہونے کی بین دلیل ہے۔

    مصرع : صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے

    روایت11:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا ایک دفعہ سلطان ناصرالدین (محمود) علیہ الرحمۃ والغفران ملتان جا رہا تھا تو جب اجودھن (پاک پٹن) پہنچا تو مجھ سے ملنے آیا جو آدابِ ملاقات ہیں، اس نے انجام دیئے اور چلاگیا (فوجی جو اس کے ساتھ تھے وہ بکثرت آتے رہے) جب میں ہجوم خلق سے عاجز ہوگیا تو میں نے تنہائی اختیار کرنی چاہی لیکن پھر یہ سوچا کہ ہمارے بزرگوں نے ایسا نہیں کیا ہے، سب ہی سے مصافحہ کیا میں ایک چھت پر جاکے بیٹھ گیا، ہاتھ نیچے لٹکادیئے، آنے والے آنے اور مصافحہ کرنے والے بے حد شمار آتے مصافحہ کرتے اور کپڑے کا ٹکڑا، عقیدتے مندی سے پھاڑ کرلے جاتے، اس دن دس کرتے یکے بعد دیگرے پہننے پڑے سب ہی پارہ پارہ ہوگئے مجھے ان کی اس عقیدت مندی پر حیرت ہوئی کہ یہ کیسے خوش عقیدہ ہیں، جمعہ کا دن تھا میں نماز کو گیا واپس آیا تو پھر مخلوق کا ہجوم ہوگیا، میں مصافحہ کرتے کرتے تنگ آگیا تھا، اتنے میں ایک فراش نے میرا پیر پکڑ کر گھسیٹا مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی، فراش نے برجستہ کہا کہ شیخ فرید خدا کا شکر ادا کرو کہ اپنے ہی جیسے انسان پاے بوسی کے آرزو مند ہیں مجھے اس کی یہ بات بہت پسند آئی کہ اس نے خوب کہا (واقعہ میں مجھے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے) پھر فرمایا اے درویش! جو اللہ کو پیارا ہے وہ سب ہی کو پیارا ہے۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 83-82)

    اس روایت میں کئی اہم نکات ہیں۔

    1. یہ اس عہد کا یعنی 655 ہجری کا اہم تاریخی واقعہ ہے جس کے پسِ منظر میں وہ سب کچھ ہے جس کا تعلق اس عہد کے سیاسی اور سماجی حالات سے ہے، اس باب میں اسررالاؤلیاء پہلا مجموعہ ملفوظات ہے جو اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی احوال کی نشان دہی کرتا ہے اور اس باب میں دیگر کتبِ ملفوظات پر اسے فوقیت ہے۔

    2. اس روایت سے حضرت بابا صاحب کی مقبولیت کے عمومی رجحان کی اور ان سے عقیدت مندی کی پوری کیفیت سے آگاہی ہوجاتی ہے اور معاشرے کا واضح نقشہ سامنے آجاتا ہے۔

    3. فراش کی بصیرت اور جسارت اور برمحل توجہ دلانا ایسا واقعہ ہے جو آپ اپنی نظیر ہے جس سے قرونِ اولیٰ کے کردار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو صحت مند معاشرہ کی علامت ہے۔

    یہ روایت فوائدالفواد (صفحہ 145) میں بھی ہے اور سیرالاؤلیاء (صفحہ 79) میں بھی ہے بلکہ فوائدالفواد اور سیرالاؤلیاء ایک اور روایت بھی ہے جس میں الغ خان (غیاث الدین بلبن) کے حضرت بابا صاحبِ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ذکر ہے۔

    بہر حال! یہ واضح ہے کہ اسرارالاؤلیا، فوائدالفواد کا ماخذ بھی ہے اور سیرالاؤلیاء کا بھی اسلوب کی سادگی و صفائی اور دلآویزی منہ سے پڑی پڑی بول رہی ہے کہ یہ کلام حضرت بابا صاحب ہی کا ہے۔

    روایت12:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ ایک شخص بیعت ہونے کی نیت سے دہلی سے اجودھن چلا تاکہ مجھ سے بیعت ہو، راستے میں ایک عورت سے ملاقات ہوئی، اس نے اس عورت سے دست درازی کرنی چاہی یا بات چیت کرنی چاہی اچانک ایک ہاتھ نمودار ہوا اور اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ تو کسی سے بیعت ہونے کی نیت سے جارہا ہے یہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔

    القصہ جب وہ شخص میرے پاس آیا تو سب سے پہلے میں نے اس سے یہی کہا کہ دیکھا اس دن اللہ پاک نے تجھے اس بلا سے کیسے محفوظ رکھا۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 86)

    حضرت بابا صاحب نے اس سے پہلے ایسے ہی ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے وہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کی خدمت میں بیعت ہونے کی نیت سے چلا تھا، راستے میں ایک مطربہ پر مائل ہوئی، اتفاق سے یہ دونوں ایک گاڑی میں ہم سفر ہوئے کوئی دوسرا نہ تھا تو اسے اس کی طرف کچھ رغبت ہوئی کچھ دست دراز کی یا بات چیت کی، اس حالت میں اس نے دیکھا کہ ایک شخص آیا، اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ کس بزرگ کی خدمت میں جارہا ہے اور کس نیت سے جارہا ہے اور یہ کیا ہے جو کر رہا ہے غرض کہ جب وہ حضرت قطب صاحب کی خدمت میں پہنچا تو سب سے پہلے آپ نے یہی فرمایا اللہ پاک نے اس دن تیری بہت ہی حفاظت فرمائی۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 86)

    الغرض جو روایت حضرت بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے والے کے متعلق ہے وہ فوائدالفواد (صفحہ 220) (مطبوعۂ مطبع نول کشور) میں بھی ہے لیکن بعض تفصیلات جو اس شخص سے متعلق ہیں اور جو حضرت قطب صاحب کی خدمت میں بیعت و ارادت کی نیت سے چلا تھا وہ بھی حضرت بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے والے سے متعلق ملتی ہیں، اس لئے گمان یہ ہوتا ہے کہ فوائدالفواد کسی ناقص نسخے سے منقول ہے اور کسی کاتب و ناقل نے دونوں روایتوں کی معلومات کو خلط ملط کرکے ایک ہی سے وابستہ کردیا ہے اور یہ قرینِ قیاس ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ اسرارالاؤلیاء ہی فوائد الفواد کا مآخذ ہے جو مستند و معتبر ہے، اس کے علاوہ حضرت بابا صاحب نے جو اس شخص کا واقعہ بیان فرمایا ہے وہ بسبیل تذکرہ زبان پر آگیا ہے، مقصود اظہار کرامت نہیں ہے پھر ایسے واقعات سے آگاہی کو امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق اور حضرت ساریہ کے واقعہ پر قیاس کرنا چاہئے جس کا تعلق بصیرت باطنی سے ہے جو بادنی توجہ حاصل ہوجاتی ہے، اس کے لئے خیرالمجالس (صفحہ 138-137) کی وہ روایت ذہن نشین رکھنی چاہئے جو روغن فروش کی بیوی سے متعلق ہے۔

    روایت13:- حضرت بابا صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں اور شیخ جلال الدین تبریزی قدس اللہ سرہ العزیز دونوں بدایوں گئے، ایک دن ہم دونوں گھر کی دہلیز میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہی بیچنے والا وہی کاہنڈہ سرپر رکھے، سامنے آیا یہ وہی بیچنے والا مواسی کا رہنے والا تھا جو بدایوں کے پاس ہی ہے اسے کہم (کھیتر) کہتے ہیں، وہاں ڈاکو بہت رہتے تھے، وہی بیچنے والا بھی ان ہی میں سے تھا۔

    الغرض جب وہی بیچنے والے کی نظر شیخ جلال الدین تبریزی کے مبارک چہرے پر پڑی، دیکھتے ہی وہ متاثر ہوا اور جب شیخ جلال الدین تبریزی نے اس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا کہ دین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے ایسے بزرگ بھی ہیں، فوراً ہی مسلمان ہوگیا، اس کا نام علی رکھا، جب مسلمان ہوگیا تو اپنے گھر گیا اور فوراً ہی واپس آگیا اور ایک لاکھ چیتل لاکر شیخ جلال الدین تبریری کی خدمت میں پیش کئے، شیخ جلال الدین تبریزی نے انہیں قبول فرمایا اور فرمایا انہیں تم اپنے ہی پاس رکھو اور جس طرح میں کہوں، اس طرح خرچ کرتے رہو چنانچہ کسی کو سو 100 دلاتے اور کسی کو کم و بیش مگر پانچ سے کم کسی کو نہ دلاتے تھے، تمام رقم خرچ ہوگئی، صرف ایک درہم رہ گیا، علی کہتے مجھے تردد تھا کہ پانچ سے کم تو کسی کو دلاتے نہیں اور میرے پاس ایک ہی درم ہے اگر کسی کو پانچ دینے کو کہا تو میں کیا دوں گا، اتنے میں ایک مانگنے والا آیا، تو آپ نے فرمایا کہ ایک درہم اسے دے دو، علی کہتے کہ میں یہ سن کر حیران رہ گیا۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 90)

    یہ روایت بھی فوائدالفواد کا ماخذ ہے:-

    البتہ اسلوب و جزئیات میں قدرے فرق ہے اس کا ایک سبب تو وہی ہے جسے مطالعہ ملفوظات خواجگان چشت کے مبادیات کے زیر عنوان تفصیل سے لکھ چکا ہوں اور وہ یہ کہ جب ایک ہی شخص کسی واقعہ کو یا کسی حکایت کو ایک سے زیادہ مجالس میں بیان کرتا ہے تو اسلوب و جزئیات میں فرق ہوجاتا ہے اور جب دو مختلف شخص ایک ہی واقعہ کو بیان کریں تو اسلوب و جزئیات میں فرق ہونا فطری شے ہے۔

    اسرارالاؤلیاء کی روایت میں حضرت بابا صاحب بھی شریک ہیں مگر فوائدالفواد (صفحہ 132) کی روایت میں حضرت بابا صاحب کا نام نہیں ہے، اسی طرح فوائدالسالکین (صفحہ 13) کی حکایت طواف کعبہ میں قاضی حمیدالدین ناگوری اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی دونوں بزرگ ہیں مگر فوائدالفواد (صفحہ7) کی اسی روایت میں صرف قاضی حمیدالدین ناگوری کا نام ہے، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کا نام نہیں ہے اور ان بزرگ کا بھی نام نہیں ہے جن کی دونوں بزرگوں نے اتباع کی تھی اور جن کا نام فوائدالسالکین میں شیخ عثمان لکھا ہے (اور ایز شیخ عثمان گفتندے) اس کا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خواجہ امیر حسن علاء سجزی چونکہ یاد داشت قلم بند نہیں کرتے تھے بلکہ صرف قوت حافظہ سے کام لیتے تھے اور یہ بہت لائقِ ستایش امر ہے لیکن یہ بھی ہے کہ قوتِ حافظہ خواہ کتنی قوی کیوں نہ ہو تا ہم تحریری یاد داشت کی نسبت حافظہ میں سہو کا زیادہ امکان ہے اور انہیں اس کا اعتراض بھی ہے، انہوں نے لکھا ہے:-

    خواجہ ذکرہ اللہ بالخیر سہ چہار بیت

    بخواندبندہ را ایں دو بیت یاد آمد

    (فوائدالفواد صفحہ 150)

    حضرت محبوبِ الٰہی نے تین چار شعر پڑھے تھے مجھ یہ دو ہی یاد آئے ہیں، حضرت محبوبِ الٰہی نے بھی قوت حافظہ سے متعلق استعجاب کا اظہار فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا:-

    ایں کہ یاد می ماند عجب است (فوائد صفحہ 164)

    ترجمہ :- یہ بات کہ (سب ہی کچھ یاد رہتا ہے) تعجب خیز ہے۔

    تعجب نہیں کہ آپ پر یہ روشن ہو کہ سہو لاحق ہوتا ہے اور آپ نے تنبیہاً یہ ذکر چھیڑا ہو اور اظہار استعجاب فرما ہو قرینہ اسی پر دلالت کرتا ہے بلا شبہ حضرت محبوبِ الٰہی مکاشف عالم بھی تھے۔

    الغرض فوائدالفوائد کی مذکورہ روایت میں حضرت بابا صاحب کا نام نامی نہ ہونا ہرگز اس کی دلیل نہیں ہے کہ آپ شیخ جلال الدین تبریزی کے ہمراہ شریک سفر نہیں تھے یا آپ کبھی بدایوں تشریف لے ہی نہیں گئے تھے اس لئے کہ مذکورہ وجوہ کے علاوہ یہ بھی ہے کہ کسی کتاب میں کسی واقعہ کا نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ واقعہ کا وجود ہی نہیں ہے، میر شکار کا واقعہ اور روغن فروش کی بیوی کا واقعہ نہ فوائدالفوادمیں ہے اور نہ سیرالاؤلیاء میں صرف خیرالمجالس میں ہے، سلطان ناصرالدین محمود کے سفر ملتان کا اور حضرت بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا واقعہ تاریخ طباقتِ ناصری میں نہیں ہے جو اس عہد کی معتبر تاریخ ہے اور سلطان ناصرالدین محمود ہی سے منسوب ہے مگر اسرارالاؤلیاء فوائدالفواد اور سیرالاؤلیاء میں ہے تو کیا صرف اس لئے اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ طبقات ناصری میں نہیں ہے جو اس عہد کی مستند تاریخ ہے اصول یہ ہے کہ جب روای مستند ہوتے ہیں تو خواہ کوئی واقعہ کسی کتاب میں ہو اور کسی میں نہ ہو اسے مستند ہی مانا جاتا ہے، حضرت بابا صاحب کے سوانح کے متعلق حضرت بابا صاحب سے زیادہ اور کون مستند ہوسکتا ہے، یہ کہنا یا سمجھان کہ اگر ہوتا تو فلاں کتاب میں ضرور ہوتا یہ لزوم مالا یلزم ہے، ممکن تو ہے مگر ہر کسی کتاب میں ہونا لازم نہیں، یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض امور کا ذکر ان مستند کتابوں میں ہوتا ہے جو دستبرد زمانے سے ناپید ہوچکی ہوتی ہیں مگر ان ہی سے مابعد کی کتابوں میں بھی منقول ہوچکا ہوتا ہے تو اگر کتاب معتبر ہے تو اس کی روایت کو بھی معتبر مانا جاتا ہے تاہم تواتر بیان سے یہ ثابت ہے کہ اسرارالاؤلیاء مابعد کی کتبِ ملفوظات کا ماخذ اور بدرجۂ اولیٰ افضل و معتبر ہے اور اس میں حضرت بابا صاحب کے سفر بدایوں کا ذکر بھی معتبر ہے، قرائن سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، امیر خورد کرمانی نے لکھا ہے۔

    شیخ نجیب الدین متوکل را برادرے بود در بداؤں ہر سال بدیدن او آں جارفتے

    (سیرالاؤلیاء صفحہ 167)

    شیخ نجیب الدین متوکل حضرت بابا صاحب کے حقیقی چھوٹے بھائی تھے جو ہر سال اپنے بھائی کی خدمت میں بدایوں تشریف لے جاتے تھے تو کیا حضرت بابا صاحبِ کا بدایوں تشریف لے جانا ناممکنات سے ہے جو انکار کیا جائے، واقعاتِ متعلقہ سے اسرارالاؤلیاء کے بیان کی پوری پوری تائید ہوتی ہے اور گونا گوں اوصاف کی بنا پر اسرارالاؤلیاء میں بیان کردہ مذکورہ سفر بدایوں کو تسلیم کرنا ہوتا ہے اور انکار کی کوئی معقول وجہ متبادر نہیں ہوتی اور یہ ماننا ہوگا کہ اگرچہ اسرارالاؤلیاء عقیدت مندوں کی بے اعتنائی کی بنا پر صحت و مقابلہ سے مزین ہوکر منظر عام پر نہیں آسکی ہے اور اس میں کتابت و طباعت کی بکثرت غلطیاں ہیں تاہم وہ بذاتِ خود معتبر و مستند ہے اور اس کا استناد حضرت بابا صاحب سے صحیح اور درست ہے۔

    حضرت بابا صاحب نے فرمایا امام ابویوسف (قاضی) کی روایت کے مطابق طاقیہ (کلاہ) دو طرح کا ہوتا ہے۔

    (1) لاطیہ

    (2) ناشرہ

    لاطیہ سر سے ملا ہوا ہوتاہے اور ناشرہ کسی قدر سر سے ابھرا ہوا ہوتاہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلاہ لاطیہ اکثر استعمال کیا ہے اور کلاہ ناشرہ کم استعمال کیا ہے،کلاہِ ناشرہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے، بعض مشائخ نے بھی کلاہِ ناشرہ استعمال کیا ہے۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 63)

    حضرت بابا صاحب کے اس مبارک بیان سے کلاہ کی نوعیت واضح ہوگئی کہ کلاہ و طاقیہ جو صوفیہ میں مروج ہے وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ہے اور سنت کا مرتبہ رکھتاہے، اسرائیلیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اسے دیو مالا کی کہانی سے تعبیر کرنا نہایت درجہ گستاخی اور کم علمی کی علامت ہے۔

    حضرت بابا صاحب نے تفصیل سے اس موضع پر گفتگو فرمائی ہے جو اسرارلاؤلیاء کے اوراق کی زینت ہے اور یہ کہ اس کا شمار مشائخ کے لباس میں ہوتا ہے، یہ بھی ثاثیر و کیفیات سے مالا مال رہا ہے، صوفیائے کرام کے یوں ہی فارم کا جز تصور کرنا چاہئے، یہ نادر معلومات جس کی استناد حضرت بابا صاحب کے بیان سے صحیح و درست ہے، یہ ذکر فوائدالفواد صفحہ 138 میں بھی ہے۔

    روایت14 :- حضرت بابا صاحب نے فرمایا ہمارے خواجگان کے نزدیک خرقہ کا تعلق حضرت رب العزت سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شبِ معراج میں خرقہ عطا ہوا جسے خرقۂ معراج کہتے ہیں اور یہ فرمان ہوا ہے کہ اپنے اصحاب میں سے اسے عنایت فرمائیے جو یہ کہے کہ میں پردہ پوشی پر عمل کروں گا چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج سے تشریف لائے تو اصحابِ کرام سے دریافت کیا گیا کہ اگر میں تمہیں یہ خرقہ دوں تو تم کیا کرو گے، صحابہ نے جو مناسب سمجھا جواب دیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا کہ میں پردہ پوشی سے کام لوں گا، مسلمانوں کے بلکہ جملہ بندگانِ خدا کے عیوب چھپاؤں گا چونکہ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا جواب حضرت حق تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق تھا اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےخرقۂ معراج سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عنایت فرما دیا۔

    (اسرارالاؤلیاء صفحہ 39)

    حضرت بابا صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے پاس حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یادگار ایک گلیم ہے، مجھے فرمانِ ربّی یہ ہے کہ میں یہ گلیم علی بن ابی طالب کو دے دوں تاکہ وہ میرے امتیوں کو پہنچا دیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ حاضرِ خدمت تھے، لہٰذا وہ گلیم آپ نے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عنایت فرما دی، اس سے یہ واضح ہے کہ گلیم پوشی کا آغاز حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے ہے۔

    (اسرارالاألیاء صفحہ 46-45)

    خرقہ کہتے ہیں پیوند لگے کرتے کو اور گلیم کہتے ہیں کمبلی کو جو زمانۂ قدیم سے انبیاء علیھم السلام اور صوفیائے کرام کا لباس ہے اور اس لباسِ صوفیہ کو خرقۂ معراجیہ اور گلیم ابراہیمی سے نسبت ہے لیکن خرقۂ معراجیہ کو اور گلیم ابراہیمی کو مادی لباس سے سمجھنا صحیح نہیں بلکہ وہ لطیفۂ غیبی ہے مادی نہیں ہے، خواجہ غلام فرید چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے۔

    خرقۂ معراج ایک باطنی چیز ہے اور راز خفی ہے، کپڑے اور اشیائے محسوسہ میں سے نہیں ہے۔۔۔ خرقۂ معراجیہ ایک قسم کی خصوصیت تھی جو ان بائیس حضرات کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوئی، اس خصوصیت کو حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔

    (مقابیس المجالس صفحہ 356)

    خرقہ اور گلیم کا اسرائیلیات سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہے اور نہ اسرائیلیات سے ان کا رشتہ جوڑا جاسکتا ہے، ایسا گمان کرنا کم علمی اور نافہمی کی علامت ہے، خرقۂ معراجیہ کا اور ملائکہ کی گلیم پوشی کا ذکر ان کتابوں میں بھی ہے جنہیں مخالفین ملفوظات نہایت درجہ مستند اور ادب صوفیہ میں بے مثل تسلیم کرتے ہیں، ان میں یہ روایت حضرت محبوبِ الٰہی سے منقول ہے۔

    بعدِ ازاں از کرامتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حکایت فرمود کہ آں روز او چہل ہزار دینار بیادر دو گلیمے پوشیدہ و میخے براں زدہ، بخدمت رسول اللہ علیہ السلام بیامد، ہماں زماں جبرئیل علیہ السلام بحضرت رسالت آمد، گلیمے پوشیدہ و میخے براں زدہ، رسول علیہ السلام پرسید کہ ایں چہ لباس است، جبرئیل گت یا رسول اللہ امروز جملہ ملائکہ را فرمانِ شدہ است تابہ موافق ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گلیمے پوشیدہ اند دو میخے براں زدہ۔

    (فوائدالفواد، 23، سیرالاؤلیاء صفحہ 343)

    اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقی رضی اللہ عنہ کی بزرگی کے متعلق حکایت بیان فرمائی کہ جس دن وہ چالیس ہزار دینار لائے تھے اس دن وہ کمبلی پہنے ہوئے اور کانٹے لگائے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اسی وقت جبرئیل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے وہ بھی کمبلی پہنے ہوتے تھے اور اس میں کانٹے لگا رکھے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کیا لباس ہے تو انہوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ آج تمام فرشتوں کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موافقت میں کمبلی پہننےکا حکم ہوا ہے سب نے کمبلی پہنی ہے اور اس میں کانٹے لگائے ہیں۔

    حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری (المتوفیٰ 465 ہجری) نے بھی اس روایت کی طرف ایما فرمایا اور لکھا ہے۔

    صدیق اکبر اندر حال تجریدش جامۂ صوف پوشید

    (کشف المحجوب صفحہ 33)

    حضرت محبوب الٰہی نے یہ روایت بھی بیان فرمائی ہے، امیر خورد کرمانی لکھتے ہیں:-

    سلطان المشائخ می فرمود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم در شبِ معراج از حضرت عزت خرقہ یافت و آں را خرقۂ فقر گویند بعدہٗ صحابہ را طلب کرد و گفت من از حضرت عزت خرقہ یافتہ ام و مرا فرمان است کہ آں را بیکے بدہم بعدہٗ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم روئے سوئے ابوبکر کرد رضی اللہ عنہ فرمود، اگر من ایں خرقہ تبوبدہم تو چہ کنی؟ ابو بکر گفت من صدق درزم و طاعت کنم و عطا کنم بعدہٗ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وا فرمود اگر من ایں خرقہ تبو بدہم تو چہ کنی؟ عمر گفت عدل کنم و انصاف نگاہ دارم بعدہٗ از حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرسید اگر من ایں خرقہ تبو بدہم توچہ کنی، عثمان گفت من تفاق کنم و سخاوت درزم بعدہٗ علی علیہ السلام و رضی اللہ عنہ را پرسید اگر من ایں خرقہ را تبو بدہم تو چہ کنی؟ علی گفت من پردہ پوشی کنم و عیب بندگان خدائے عزّو بپوشم آں خرقہ بر علی داد کرم اللہ وجہہ و فرمود فرمان خدائے عزوجل بود ہر کہ ایں جواب گوید ایں خرقہ از را بدہی

    (فوائدالفواد صفحہ 192، سیرالاؤلیاء صفحہ 341-342)

    حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں جو خرقۂ اللہ پاک سے پایا اسے خرقۂ فقر کہتے ہیں پھر صحابۂ کرام کو بلایا اور فرمایا کہ میں نے اللہ پاک سے خرقہ پایا ہے اور مجھے حکم ہے کہ میں یہ کسی ایک کو دوں پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کی طرف رخ کیا اور دریافت فرمایا کہ اگر میں یہ خرقہ تمہیں دوں تو تم کیا کروگے، حضرت ابوبکر صدیق نے جواب دیا کہ میں سچائی اختیار کروں گا، عبادت کروں گا اور بخشش کروں گا پھر حضرت عمر فاروق سے دریافت فرمایا اگر یہ خرقہ میں تمہیں دوں تو تم کیا کروگے انہوں نے جواب دیا کہ میں انصاف کروں گا اور انصاف کی نگرانی کروں گا پھر حضرت عثمانِ غنی سے دریافت فرمایا کہ اگر یہ خرقہ میں تمہیں دوں تو تم کیا کرو گے انہوں نے عرض کیا کہ میں اتفاق اور باہمی میل جول سے کام لوں گا اور سخاوت کروں گا پھر حضرت علی سے دریافت فرمایا کہ اگر یہ خرقہ میں تمہیں دوں تو تم کیا کروگے حضرت علی نے عرض کیا کہ میں عیب پوشی کروں گا اور خدا کے بندوں کے عیبوں کو چھپاؤں گا آپ نے وہ خرقہ حضرت علی کو دے دیا اور فرمایا کہ مجھے اللہ پاک کا یہی حکم تھا کہ جو یہ جواب دے یہ خرقہ اسے دے دینا۔

    حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری نے لکھا ہے:-

    شعار متصوفہ لیس مرقعہ است دلبس مرقعات سنت است ازاں جا کہ رسول گفت علیہ السلام علیکم بلبس الصوف تجدون حلاوت الاایمان فی قلوبکم ونیزیکے گوید از صحابہ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یلبس الصوف ویرکب الحمار۔۔۔ حسن بصری گوید رحمۃ اللہ علیہ ہفتاد بدری را دیدم ہمہ را جامۂ پشیں بود

    (کشف المحجوب صفحہ 33-32)

    گدڑی پہننا صوفیوں کا معمول ہے اور گدڑی پہنا سنت ہے اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اون پہننا اپنے لئے لازم جانو گے تو تم اپنے دلوں میں ایمان کی حلاوت پاؤ گے (صحابہ میں سے) ایک صحابی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اون پہنتے تھے اور خچر پر سوار ہوتے تھے۔۔۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب بدر کو دیکھا ہے، سب ہی صوف پوش تھے۔

    خرقۂ ابراہیمی کی روایت شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (المتوفیٰ 632 ہجری) نے اپنی مؤقر تصنیف عوارف المعارف (صفحہ 120) میں بھی نقل فرمائی ہے، ادب صوفیہ میں عوارف المعارف کا پایۂ اعتبار متفق علیہ اور مسلّم ہے اس کے پانچ باب حضرت محبوبِ الٰہی نے حضرت بابا صاحب سے پڑھے تھے، بہر نوع ان موقر بیانات سے یہ واضح ہے کہ خرقۂ و گلیم کا تعلق عین اسلامیات سے ہے اور ان کا استعمال سنت ہے، خرقۂ ابراہیمی اور خرقۂ معراجیہ لطیفۂ غیبی سے ہیں اور خرقۂ فقر کو ان سے گہرے نسبت ہے اور صوفیۂ کرام کے استعمال کی برکت سے خرقہ غیر معمولی اوصاف کامالک ہے، حضرت محبوبِ الٰہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ از فرزندان حضرت مرتضیٰ علیہ السلام و کرم اللہ وجہہ است ویک شعبۂ خرقۂ حضرت امیرالمؤمنین مرتضی علی علیہ السلام از آں جانب می رود۔

    (سیرالاؤلیاء صفحہ 489)

    احایث کی تدوین:- مسلمانوں کا یہ زندہ جاوید کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قول و عمل کی کامل نگہداشت کی اور محنت و خلوص سے احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدون کیا، اس باب میں دنیا کی کسی قوم کو مسلمانوں سے یہ ہمسری کا حق حاصل نہیں ہے، انہوں نے جمع و تدوین ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ احادیث کو پرکھنے کے لئے اصول و ضوابط بھی بنائے اور پرکھ پرکھ کے احادیث کے مجموعات مرتب کئے، اصولِ حدیث مستقل فن اور علم کا ایک گراں قدر شعبہ ہے، اس کے ساتھ ہی علم اسماءالرجال وجود میں آیا جو علوم و فنون میں منفرد حیثیت کا مالک ہے جس کی بدولت آج تک مسلمانوں کو سر بلندی حاصل ہے۔

    صوفیۂ کرام میں بھی جید عالم گزرے ہیں وہ اصول حدیث کے قائل اور اسے معتبر مانتے تھے بلکہ اصول حدیث کا درس بھی دیتے تھے اور حدیث کی مشہور و معتبر کتابوں کو اسی نگاہ عظمت سے دیکھتے ہیں جس سے علماء و محدثین دیکھتے تھے، حضرت محبوب الٰہی کا مشہور مقولہ ہے۔

    آنچہ در صحین است آں صحیح است (فوائدالفواد صفحہ 103)

    اور اگرچہ احادیثِ مبارکہ کا بے پناہ ذخیرہ مہیا ہو چکا ہے لیکن پھر بھی کوئی اس کا قائل نہیں کہ سب ہی کچھ مہیا ہوگیا ہے اس تصور کو کہ سب ہی کچھ مہیا ہوگیا ہے احصا سے تعبیر کرتے ہیں اور احصاء کے تصور کو نا روا قرار دیتے ہیں، محمد بن اسمٰعیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ہے۔

    مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد تھیں، ان میں سے میں نے چھے ہزار کے انتخاب سے صحیح بخاری کو تدوین کیا ہے۔

    چورانوے ہزار صحیح حدیثتوں کا ذخیرہ جو محفوظ نہیں ان میں سے بھی کچھ ہوسکتی ہیں جو صوفیہ کرام کے ملفوظات کی زینت ہیں۔

    صوفیہ کرام متقیوں سے زیادہ متقی اور بصیرت باطنی سے مالا مال تھے، صاحبِ ذوق سلیم بھی تھے اور کلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لذت آشنا بھی تھے اگر وہ کیفیت اندوز نہ ہوتے تو بے تکلف ان کی زبان پر آجاتا تھا۔

    لیس فیہ ذوق کلامہِ علیہ السلام

    (اصول السماء قلمی صفحہ 24)

    لہٰذا حضرات صوفیہ کرام نے جن احادیث نبوی کو اپنایا ہے ان کے متعلق بھی کلام نہیں کیا جاسکتا ہے اور اب حدیث کے باب میں صوفیہ کرام کا خصوصی نقطۂ نظر ہے جس کےمتعلق حضرت محبوبِ الٰہی کا یہ ارشاد ہے:-

    حدیثے کہ مردم بشنوند نتواں گفت کہ ایں حدیث رسول صلعم نیست اما ایں تواں گفت در کتبے کہ ایں احادیث جمع کردہ اند و اعتبار یافتہ اند اندنیادہ است

    (فوائدالفواد، صفحہ 233)

    اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہے کہ حدیث خرقہ کا بھی معتبر مقام ہے، خرقہ انبیاء علیہم السلام کے شعار کی یادگار ہے، اس کا اسرائیلیات سے رشتہ قرار دینا صحیح نہیں ہے اس کے علاوہ اس روایت خرقہ سے بھی یہ واضح ہے کہ اسرارالاؤلیاء حضرت بابا صاحب کے معتبر ملفوظات کامجموعہ ہے اور بعدہ کی کتبِ ملفوظات کا ماخذ ہے اور کوئی ایسی معقول دلیل نہیں ہے جس کی بنا پر اسرارالاؤلیاء کو نامعتبر مانا جاسکے۔

    فصول کا اختتامیہ:- اسرارالاؤلیاء میں 22 فصلیں ہیں ہر فصل کے آخر میں اختتام کی کیفیت لکھی ہے اور ان کی تفصیل یہ ہے۔

    1. چار فصلوں کے اختتام پر یہ ذکر ہے کہ اذان کی آواز آئی تو مجالس ختم ہوئیں، ان چار میں سے دو اذانیں ظہر کی تھیں (12-8) دو اذانوں کے متعلق یہ صراحت نہیں کہ وہ کس وقت کی تھیں (9-7) گمانِ غالب یہ ہے کہ وہ بھی ظہر ہی کی ہوں گی۔

    2. تین کے اختتام پر آپ عالمِ تحیر میں کھڑے ہوگئے تھے (2-21-22) (3) ایک کے اختتام کے بعد آپ تلاوت قرآن میں مشغول ہو گئے تھے (18) (4) ایک کے اختتام کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے (11) (9) ایک کے اختتام پر آپ اٹھے اور عجلت سے اندر چلے گئے۔ (13)

    بدداں برخاست و بدواں دروں رفت سے مراد یہ ہے کہ بعجلت آپ اٹھ کھڑ ہوئے اور بعجلت اندر تشریف لے گئے، اندر تشریف لے جانے سے مراد غالباً حجرے میں تشریف لے جانا ہے، ایک جگہ یہ تشریح بھی ہے کہ اندر جاکر آپ تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوگئے، تین کے اختتام پر یہ ہے کہ بدواں دروں رفت، بعجلت اندر چلے گئے، غالباً مجالس میں وقت زیادہ صرف ہوا تھا، معمولات کو پورا کرنا ہی تھا، اس لئے آپ بعجلت اندر تشریف لے گئے مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی نے فرمایا ہے:-

    بیشتر احوال و مسجد اجودہن مشغول بودے

    (خیرالمجالس صفحہ 89)

    ترجمہ :- آپ اکثر اجودہن (پاک پٹن) کی مسجد میں مشغول رہتے تھے۔

    گویا کہ مسجد ہی میں اذان ہوتی اور مسجد ہی میں نماز باجماعت پڑھتے، خانقاہ میں اذان و نماز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے یہ کہنا لاحاصل ہے کہ بابا صاحب کی خانقاہ میں کبھی نماز باجماعت نہیں ہوتی تھی، تا ظاہر ہے کہ مسجد کے قریب ہونے اور مسجد میں اکثر مشغول رہنے کی بنا پر اس کی ضروت ہی نہ تھی مجلس کا اختتام عموماً ایسے اوقات میں ہوتا تھا جو اذان و نماز کے اوقات نہ ہوتے تھے، بائیس میں سے صرف چار کا اختتام اذان کی آواز پر ہوا ہے، اغلباً یہ چادر مجلسیں موسم سرما کی تھیں جو اذان ظہر کے وقت تک منعقد رہیں، بدولت خانہ دروں رفت سے مراد غالباً گھر میں تشریف لے جانا ہی اذان کے بعد ہی جو آپ دولت نے خانے میں تشریف لے گئے تو یقینا کسی ضرورت سے گئے ہوں گے اور جماعت میں آکر شریک ہوئے ہوں گے چونکہ صرف اختتام کی کیفیت بتانی مقصود تھی بعد کی تفصیلات میں جانا مقصود نہیں تھا اس لئے اس کا ذکر بھی نہیں کیا اور نہ کرنا چاہئے تھا۔

    کتابت کی غلطیاں:- پیشِ نظر نسخۂ اسرارالاؤلیاء میں بکثرت غلطیاں ہیں، مطبع نول کشور، کان پور کی مطبوعہ کتابیں بکثرت مطالعہ میں آئی ہیں مگر اس قدر اغلاط سے بھری کوئی کتاب دیکھنے میں نہیں آئی، اسماء کا تو ذکر ہی کیا، املا کی معمولی معمولی بکثرت غلطیاں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جو نسخہ کاتب کے پیشِ نظر تھا وہ بھی اغلاط سے پر تھا، کاتب بھی فارسی زبان سے قطعاً نا واقف تھا اس کے علاوہ نہ کسی نے کاپی کی تصحیح کی اور نہ پروف کو دیکھا اور پروف کو دیکھا اور متواتر غلط نسخے شائع ہوتے رہے اور وہ نسخہ بھی جو 1334ہجری مطابق 1915عیسوی میں بار ششم شائع ہوا تھا اکثر اغلاط سے مملو ہے، اغلاط کیا مثلہ یہ ہیں۔

    غلط صفحہ صحیح

    1 دوگانہ بگذارد۔ دو وزنو۔۔۔۔ ص 7 دوگانہ بگرار۔ ودوزانو

    2 بر تور تجلی کنم۔۔۔ ص 7 برتوتجلی کنم

    3 رفت ایماں۔۔۔ ص 11 رختِایماں

    4 کارِ زار گفتگوےگزشت۔۔۔ ص14 کارِ از گفتگوے بگزشت

    5 کادر ذکر رزق رجزان۔۔۔ ص 15 در ذکر رزق وجزآں

    6 دور دراز۔۔۔ ص 17 دو روزہ

    7 اورا انکار بکرم حق۔۔۔ ص 18 اورا نگا برکرم حق

    8 سنگ را بشگفتم۔۔۔ ص 19 سنگ را بشکستم

    9 سشس نوعت۔۔۔ ص 21 شش نوع است

    10 صبح بدہد۔۔۔ ص 23 صبح بدمید

    11 اوقات۔۔۔ ص 61 ملاقات

    12 آزادی۔۔۔ ص 62 آزدے

    13 بلاند۔۔۔ ص 27 بداند

    14 بدوال دروں رفت۔۔۔ ص 71 بدواں دروں رفت

    15 درمیاں رفتہ است۔۔۔ ص 84 دربیابان رفتہ است

    اسماء کی اہم غلطیاں

    1. چوں برادرم مولانا بہاؤالدین زکریا (صفحہ 41) قدس اللہ سرہٗ العزیز کار خود را در عشق و محبت بہ تکمیل رسانیدہ بخدمت شیخ بہاؤالدین سہروردی قدس اللہ سرہٗ العزیز پیوست چوں برادرم مولانا بہاؤالدین زکریا قدس اللہ سرہٗ العزیز کار خود را در عشق و محبت بہ تکمیل رسانید بخدمت شہاب الدین سہروردی قدس اللہ سرہٗ العزیز پیوست۔

    2. ایں سخن بہ سمع شیخ شہاب الدین نوراللہ۔ (ص41) مرقدہٗ رسید فرمود، ایں سخن بہ سمع شیخ شہاب الدین نوراللہ مرقدہٗ رسید۔

    3. اے درویش برابر شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ بعد از نقل پیر خود بخدمت شیخ بہاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ پیوست، اما چنداں خدمت کرد کہ ہیچ خدمت گارے آں چناں خدمت نہ کند۔(27صفحہ)

    پیرِ خود بخمدتِ شیخ شہاب الدین سہروردی پیوست، اما چنداں خدمت کرد کہ ہیچ خدمت گارے آں چناں خدمت نہ کند۔

    (اسرارالاؤلیاء کے جس نسخے سے مولوی عبدالاحد مرحوم نے ترجمہ کیا ہے اس میں برابر نہیں ہے برادر ہے، مناسب یہ ہے کہ کچھ بھی نہ ہو)

    4. اے درویش! دعاگوے را برادرے بود شیخ نجم الدین نام او بود۔

    (صفحہ61)

    اے درویش! دعا گوے را برادرے بود شیخ نجیب الدین نام او بود

    5. اے درویش! وقتے شیخ جلال الدین تبریزی و دعاگوے یک جا بودیم مولانا علاؤالدین صوفی می گزشت، نظر شیخ بر او افتادہ او را بخواند جامہائے خود برو داد پنج بار سورۂ اخلاص بخواند و برود میر حق تعالیٰ؟ بر مولانا علاؤالدین چنداں برکت و نعمت داد و بید او گردانید از برکت شیخ جلال الدین تبریزی بود۔(37صفحہ)

    اے درویش! وقتے شیخ جلال الدین تبریزی و دعاگوے یک جابودیم مولانا علاؤالدین اصولی می گزشت۔ الخ

    (مولانا علاؤالدین اصولی بدایوں میں تھے اور حضرت محبوب الہٰیؒ کے استاد تھے اور یہ ان ہی کا واقعہ ہے، اصولی کی بجائے صوفی لکھ دیا گیا ہے) چنداں برکت و نعمت داد (بیداد تصحیح طلب ہے) گر او پند

    6. مولانا بدرالدین اسحاق و چند نفر درویش دیگر بخدمت حاضر بودند۔ (صفحہ 71)

    مولانا بدرالدین و چند نفر الخ (جس قلمی نسخے سے مولوی عبدالاحد مرحوم نے اسرارالاؤلیاء کا ترجمہ کیا ہے اس میں یہ نام نہیں ہے) البتہ اس نام کے ایک اور بھی بزرگ تھے جو شیخ سیف الدین باخرزی اور شیخ نجم الدین کبریٰ سے فیض یافتہ تھے ہندوستان آئے تھے، حضرت محبوبِ الٰہی سے بھی فیض پایا تھا سن وفات 716 ہجری ہے غالباً بدرالدین اسحاق سے مراد یہی بزگ تھے جو سمرقند کے باشندے تھے، ان کا مزار موضع سنکولہ میں ہے۔

    7. خدمت خواجہ قطب الدین با او ملاقی شند۔ (صفحہ 87)

    خدمت سید قطب الدین با او ملاقی شد

    تحریف جنگ غولان بیابانی:- قلمی کتابوں میں تحریف کی امثلہ تو عموماً ملتی ہی ہیں، اسرارالاؤلیاء بھی اس سقم سے مبرا نہیں ہے لیکن اہم ترین تحریف کا ایک واقعہ وہ ہے جو اسرارالاؤلیاء فصل ہفتم صفحہ 38 میں ہے اور جو سورہ اخلاص (قل ھو اللہُ احد) کے اوصاف و فضائل اور خواص سے متعلق ہے اسے واقعۂ جنگ خیبر سے متعلق کر دیا ہے وہ در اصل جنگ خیبر سے متعلق نہیں ہے بلکہ جنگِ غولان بیانانی سے متعلق ہے، حضرتب محبوبِ الٰہی نے فرمایا ہے۔

    ایک دفعہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنگِ غول بیابانی پر مامور فرمایا تھا، امیرالمؤمنین (حضرت علی) عرصے تک لڑائی میں مشغول رہے مگر فتحیابی نہ ہوئی، ایک دن آپ نے ایک نعرہ بلند کیا کہ زمین و آسمان کے طبق گونج اٹھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گوشِ مبارک تک یہ آواز پہنچی، اتنے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور سورۂ اخلاص لائے اور کہا کہ یہ سورت ان کے پاس بھیج دیجئے کہ وہ اس کی کثرت سے تلاوت کریں چنانچہ آپ نے فوراً بھیج دی، حضرت علی نے ایک شبانہ روز اس کی مزادلت کی تھی کہ وہم مہم سر ہوگئی اور قلعہ فتح ہوگیا۔ (راحت المحبین صفحہ 274 ترجمہ مجبتائی)

    راحت المحبین حضرت امیر خسروؔ کی مؤقر تالیف ہے جو حضرت محبوبِ الٰہی کے ملفوظات پر مشتمل ہے، اسے حضرت امیر خسرو نے کتاب افضل الفوائد کے بعد مرتب فرمایا تھا یہ کتاب شمائل الاتقیا و دلائل الاتقیاء کی فہرستِ ماخذات میں بھی شامل ہے جو حضرت محبوبِ الٰہی کے بزرگ خلیفہ مولانا برہان الدین غریب (المتوفیٰ 732 ہجری) کی نگرانی میں مرتب ہوئی تھی جس کا پائہ اعتبار مسلم ہے، مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے حضرت امیر خسروؔ کے مرتب کردہ کتبِ ملفوظات کے متعلق فرمایا ہے۔

    امیر خسروؔ ہم ملفوظ جمع کردہ لیکن آن قدر مقبول نیست (ملفوظات شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صفحہ 27)

    ضرورت ہے کہ اسرارالاؤلیاء کے قدیم قلمی نسخوں سے مقابلہ کرکے مذکورہ روایت کی تصحیح کی جائے، مجموعی اوصاف سے اسرارالاؤلیاء حضرت بابا صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے اور قدیم سے اہلِ کمال اس کی اہمت کے متعرف ہیں اور اس میں وہی کچھ ہے جو دیگر کتبِ ملفوظات میں ہے اور سب ہی کچھ شریعت و طریقت کے مطابق ہے۔

    وقت کا تقاضہ:- وقت کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ مخلص عقیدت مند مجتمع ہوں اور اس پر غور کریں کہ یہ طرفہ تماشہ کیا ہے کیونکہ اسرارالاؤلیاء کو غیر مستند اور جعلی قرار دیا جاتا ہے، مدافعت کی تدبیر یہ ہے کہ اسرارالاؤلیاء کو صحت و مقابلہ سے مزین کر کے منظرِ عام پر لایا جائے یہی نہیں بلکہ اس کا صحیح ترجمہ بھی شائع کیا جائے اور ہر زبان میں کیا جائے، اسے رواج دیا جائے، روحیں اس کی متلاشی ہیں اس سے معاشرے میں سدھار آئے گا اور اخلاقی قدریں جلوہ گر ہوں گی، یہ کام مخلص عقیدت مند ہی انجام دے سکتے ہیں وہ نہیں جو حصول مقاصد کی طمع میں عقیدت مندی کا بہروپ بھرے بیٹے ہیں، ان پر تو یہ مصرع صادق آتا ہے۔

    دوست وہ کرتے ہیں دشمن سے جو ہوسکتا نہیں بلاشبہ اگر مخلص عقیدت مند کمر ہمت باندھیں تو اس مشکل کو آسان کرسکتے ہیں اور ہدایت کی روشنی سے دنیا میں اجالا کرسکتے ہیں یہ بہت بڑی نیکی ہے، اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے لئے مقدر ہے، راقم حروف سے جو کچھ بن پڑا کیا ہے کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، انشاء اللہ اس کے لئے یہی توشۂ آخرت ہے، اللہ پاک قبول فرمائیں۔

    اسرارالاولیاکے قدیم نسخے:- اسرارالاؤلیا کو مرتب کرنے کے لئے اسرارلاؤلیا کے قدیم قلمی نسخوں سے آگاہی اور ان سے مقابلہ اسرارالاؤلیاء کی صحت کے لئے اشد ضروری ہے، اس ضرورت کے اقتضات سے میں نے ہندوستان کی مشہور مشہور لائبریریوں سے جو معلومات فراہم کی ہیں وہ پیش کرتا ہوں، مدعا اس سے یہ ہے کہ صحت و مقابلہ سے اسرارالاؤلیاء کا کوئی نسخہ مرتب ہوکر شائع ہوجائے اور منظر عام پر آجائے جو معاشرے کے سدھار میں بے حد ممد و معاون ہوگا۔

    اگر توفیقِ الٰہی سازگار ہوئی اور حیات مستعار نے ساتھ دیا تو میں خود اس خدمت کو انجام دوں گا مگر میں چراغ سحری ہوں، چاہتاہوں کہ کوئی جواں سال و جواں ہمت اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے اخلاص اور اپنی کوشش سے دنیا میں اجالا کردے اگر خدائے پاک نے کسی اولوالعزم کو توفیق دی اور اس نے اس کام کو سنبھالا تو یہ میرے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہوگا اور جو تعاون میں دے سکتا ہوں اس میں مجھے ذرا بھی تامل نہ ہوگا انشاء اللہ اسرارالاؤلیاء کے جو قدیم قلمی نسخے میرے علم میں آئے ہیں وہ یہ ہیں۔

    1. مولانا آزاد لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تین نسخے ہیں، ایک نسخہ سن 1008 ہجری کا مکتوبہ ہے، دوسرا سن 1082 ہجری کا مکتوبہ ہے اور تیسرے پر سنہ کتابت مرقوم نہیں ہے۔

    2. اندھرا پردیش گورنمنٹ اورینٹل میونسکرٹپس لائبریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدر آباد میں دو نسخے ہیں مگر ان میں سے کسی میں سنہ کتابت مندرج نہیں ہے۔

    3. سالار جنگ میوزیم حیدرآباد میں ابتدائی بارہویں صدی ہجری کا ایک نسخہ ہے۔

    4. رضا لائبریری رامپور میں ایک نسخہ ہے، سنہ کتابت تحریر نہیں ہے۔

    5. عربی فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹونک (راجستھان) میں ایک نسخہ ہے، سن کتابت درج نہیں ہے۔

    نوٹ:- میرے پاس ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کلکتہ کی کیٹلاگ شکستہ اور کرم خوردہ ہے اس لئے وہاں کے نسخے کا پتہ نہیں چل سکا خط لکھنے پر جواب بھی نہیں آیا اگر کوئی صاحب وہاں کے یا اور کہیں کے قلمی نسخہ کی نشاندھی کرسکیں تو ممنون ہوں گا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے