Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

امیر خسروؔ کو حضرت نظام الدین اؤلیا کی چھوٹ

اکمل حیدرآبادی

امیر خسروؔ کو حضرت نظام الدین اؤلیا کی چھوٹ

اکمل حیدرآبادی

MORE BYاکمل حیدرآبادی

    دلچسپ معلومات

    کتاب ’’قوالی امیر خسرو سے شکیلا بانو تک‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت نظام الدین اؤلیا کی نظر میں امیر خسروؔ کا معیار دینداری اتنا بلند نہ تھا کہ وہ انہیں اپنا جانشین مقرر فرماتے، خسروؔ کا بادشاہوں کی مصاحبی میں رہنا صوفیا کی تعلیمات میں نہ تھا، خسروؔ کا باضابطہ موسیقار ہونا شریعتِ اسلام میں جائز نہ تھا، خسروؔ کا حکمرانوں سے انعامات و وظائف لینا درویشوں کا اصول نہ تھا، ان تمام باتوں کے باوجود حضرت نظام الدین اؤلیا خسروؔ کو والہانہ طور پر چاہتے تھے، اس حد تک چاہتے کہ آپ نے فرمایا کہ ’’اگر شریعت اجازت دیتی تو میں کہتا کہ مجھے اور خسروؔ کو ایک قبرمیں دفن کیا جائے‘‘ اس کے علاوہ آپ کا ارشاد ہے کہ ’’قیامت کے دن ہر شخص سے سوال ہوگا کہ تم کیا لائے، مجھ سے پوچھا جائے گا تو عرض کروں گا کہ میں خسروؔ کا سوزِ دل لایا ہوں’’ خسروؔ کے متذکرہ وہ حقائق جو ان کے دینی تصور سے میل نہیں کھاتے اور محبوبِ الٰہی کے وہ الفاظ جو متذکرہ حقائق کے باوجود خسروؔ کی دینی عظمت کا کھلا اعلان کرتے ہیں، دونوں کتنے متضاد ہیں لیکن اس تضاد کے باوجود نظام الدین اؤلیا اگر خسروؔ کے سوز دل کو اتنا مقدس قرار دیتے ہیں تو خسروؔ کی ذات ایک معمہ بن جاتی ہے، ایک اسرار بن جاتی ہے، ایک راز بن جاتی ہے، غالباً اؤلیا کا یہی وہ راز ہے جو عام انسانوں پر منکشف نہیں ہوتا، جسے صرف اؤلیا یا پھر اللہ کے ذات ہی سمجھ سکتی ہے، غالباً یہی وہ راز جس کی بنا پر حضرت نظام الدین اؤلیا نے خسروؔ کی تحریک پر بسنت کا تہوار منایا اور آج تک یہ تہوار سلسلۂ چشتیہ کی خانقاہوں میں خصوصاً اجمیر شریف اور دہلی میں منایا جاتا ہے، حضرت نظام الدین اؤلیا اور بسنت کا تہوار کتنی متضاد چیز ہے لیکن چوں کہ خسروؔ نے یہ تحریک پیش کی تھی اس لیے کسی غیر معمولی راز کے تحت حضرت نے اسے قبول فرما لیا، اسی طرح قوالی کے فن میں جو چیزیں آدابِ سماع کے خلاف تھیں، انہیں بھی حضرت نے اسی خصوصی راز کے تحت گوارا کیا ہوگا جسے ہم خسروؔ کے لیے آپ کی چھوٹ کا باعث سمجھ سکتے ہیں۔

    کچھ کیفیتِ وجد کے بارے میں :- جو لوگ سماع اور قوالی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں وہ یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ

    سماع اور قوالی میں کیفیت وجد کی یکسانیت ہے، اس سوال کا جواب پہلے مشکل تھا مگر اب دن بہ دن آسان ہوتا جا رہا ہے، فطری حوالوں کے علاوہ موسیقی کے نئے نئے تجربوں کی بنا پر اب بلا تکلف کہا جاسکتا ہے کہ کیفیتِ وحد موسیقی کا ایک عام رد عمل ہے مگر اس جواب پر معترضین پھر ایک سوال کرتے ہیں کہ یہ رد عمل موسیقی کی عام محفلوں میں کیوں رونما نہیں ہوتا؟ یہ سوال موسیقی کی حد تک ان کی محدود معلومات کی پیداوار ہے، میں انہیں دعوت دوں گا کہ وہ ذرا قوالی کی محفل سے باہر نکلیں اور دیکھیں کہ ہندوؤں کے جادو ٹونے کی چوکیوں پر موسیقی کیسے بال کھلوائے انسان کو زمین سے چھت تک جھلا رہی ہے، محرم میں علم اٹھانے والوں کو دیکھیں کہ موسیقی کیسے ان کی دہکتی ہوئی آگ پر دوڑا رہی ہے، اسٹیج پر دیکھیں کہ موسیقی کیسے رقاص کو گھنٹوں اچھال رہی ہے، بارات کے آگے تلوار بازوں کو دیکھیں کہ کیسے موسیقی ان کو کلاٹیں لگوا رہی ہے، سرکس میں دیکھیں کہ موسیقی کیسے انسان کو خلا میں اچھال رہی ہے، جنگوں میں دیکھیں کہ جو شیلے نغمے کیسے سپاہیوں کو توپوں سے ٹکرا رہے ہیں، یہ تو ہوئی انسانوں کی مثال، ریگستان میں اونٹوں کی دوڑ کے مناظر دیکھیں کہ کیسے اونٹ ڈھول اور دف کی تھاپوں پر چھلانگیں لگا رہے ہیں، سانپوں کو دیکھیں کہ کیسے بین کی آواز ہے پر مست و مدہوش ہوئے جا رہے ہیں، کیا یہ ساری مثالیں اس بات کا ثبوت نہیں کہ موسیقی میں وہ قوت ہے کہ انسان تو انسان ہر جاندار کو پاگل پاگل کر دے، آج جدید سائنسی تجربات نے یہ بات ثابت کر دی کہ موسیقی نہ صرف انسان اور جانور بلکہ ساری کائنات پر اثر انداز ہوتی ہے، آج موسیقی سے بیماریوں کے علاج کے علاوہ پودوں کی نشو و نما اور انڈوں سے چوزوں کا پیدا کرنا ترقی یافتہ ممالک میں عام ہوگیا ہے۔

    ماہرینِ موسیقی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سے راگ کی کیا تاثیر ہے اور انسان کے کس جذبہ کو کس راگ اور تال سے بے اختیار کیا جاسکتا ہے، قوالی کو پسند کرنے والوں میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو عام طور پر غمِ ہجر یا شوقِ وصال کے مارے ہوتے ہیں، کیا امیر خسروؔ جیسا عظیم موسیقار اس حقیقت سے نا واقف رہ سکتا ہے اور کیا وہ نہیں جان سکتا کہ ان جذ بات کو کن راگوں اور کن تالوں سے گرمایا جا سکتا ہے اور کس منزل پر لاکر انسان کو دیواروں سے سر کرانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہندوستانی موسیقی میں وہ تاثیر ہے کہ اس سے مردے بھی زندہ ہو سکتے ہیں، ہشت بہشت میں لڑکی، دلارام کے بارے میں خسروؔ لکھتے ہیں کہ وہ موسیقی کے ذریعہ ہرنوں کو سلا اور جگا لیتی ہے، موسیقی پر اس قدر اعتماد رکھنے والے موسیقار کو کیا یہ نہیں معلوم ہوگا کہ کس رگ سے انسان پر وجد کی کیفیت طاری کی جا سکتی ہے، یقیناً یہ آگہی ان میں تھی اور انہوں نے قوالی کے فن میں اس آگہی کو برتا اور لوگوں نے سر پھوڑ پھوڑ لیے، ظاہر ہے کہ یہ برتاؤ موسیقی کا برتاؤ موسیقی کا برتاؤ تھا یہ ردِ عمل موسیقی کا ردِ عمل تھا نہ کہ مضامین کا، نبیوں اور پیغمبروں کی الہامی کیفیت کو خسروؔ کی قوالی کے وجد سے جوڑنے والے اس قوالی کے مضامین اور اس کے اشعار کو موسیقی نغمگی اور خوش الحانی کی آمیزش کے بغیر ہزار ہزار بار پڑھ کر دیکھیں تو انہیں خود اندازہ ہو جائے گا کہ کیفیت وجد کا میلوں پتہ نہیں ہے، اس کے علاوہ قوالی کے دوران اچانک اشعار روک دیجیے اور موسیقی جاری رکھ کر دیکھیے کیفیتِ وجد کا میلوں پتہ نہیں ہے، اس کے علاوہ قوالی کے دوران اچانک اشعار روک دیجیے اور موسیقی جاری رکھ کر دیکھیے کیفیتِ وجد بھی برقرار رہے گی لیکن اچانک موسیقی کو روک دیجیے پھر دیکھیے کیفیتِ وجد کیسے ناپید ہوکر رہ جاتی ہے، اب چاہے تحت اللفظ میں لاکھوں اشعار پڑھ پڑھ کر صاحبِ وجد کے کان میں پھونکیے کیفیتِ وجد واپس نہیں آنے والی، تاوقتیکہ موسیقی نہ شروع کی جائے، ان تمام باتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قوالی کی محفل خواہ کسی مقصد سے منعقد کی جائے اس کے راگ اور تال ایسے ہیں کہ جس انسان کے دل میں جو جذبات ہوں ان کو اس حد تک شدید کر دیتے ہیں کہ انسان بیخود ہوجاتا ہے، چاہے وہ جذبات عشقِ حقیقی کے ہوں یا عشق مجازی کے دونوں پر قوالی اثر انداز ہوتی ہے، اس سلسلہ میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے ارشادات ان کی تصنیف ’’عوارف المعارف‘‘ سے نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں آپ کا ارشاد ہے کہ

    ’’وجد ایک حق پرست پر بھی ویسا ہی اثر کرتا ہے، جیسا باطل پرست پر دونوں قسم کے اشخاص باطنی طور پر وجد سے متاثر ہوتے ہیں، البتہ حق پرست اہلِ باطل کی کیفیت میں فرق یہ ہے کہ اہلِ باطل نفسانی خواہش کی بنا پر وجد میں آتا ہے اور حق پرست قلبی ارادہ کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے، اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ سماع قلب پر کوئی اثر نہیں کرتا ہے، وہ تو فقط اس چیز کو جنبش دیتا ہے جو دل میں ہو‘‘

    قوالی کی محفلوں میں اگر حق پرستوں پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قوالی اور سماع ایک چیز ہے بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں بسے ہوئے جذباتِ عشق حقیقی یا عشقِ مجازی کو نغمہ نے بے اختیار کر دیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے