اکمل حیدرآبادی کے صوفیانہ مضامین
قوالی اور صحافت
صحافت میں مذہبیات کے لیے بہت کم گنجائش ہے اور بدنصیبی سے قوالی عموماً مذہبی کالم میں شمارکی گئی، اس لیے صحافت نے اسے اتنا ہی موقع دیا جتنا کہ ایک مذہبی موضوع کو دیا جا سکتا تھا، قوالی کی فنی، تفریحی و قومی افادیت صدیوں چشم صحافت سے پوشیدہ رہی لیکن شکر
تذکرہ پدم شری عزیز احمد خاں وارثی قوال
فنکار اپنے ملک کی تہذیب و تمدن کا نمائندہ ہوتا ہے اور تہذیب و تمدن نام ہے کسی ملک کی صدیوں پرانی روایات کا، اگر چہ کہ ترقی پسند افراد روایات سے چمٹے رہنے کے بجائے نئی سمتیں متعین کر کے اپنے آپ کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے میں اپنی بقا محسوس کرتے ہیں
ریڈیو اور قوالی
ہندوستان میں ریڈیو بیسویں صدی کے ابتدائی دہوں میں پہنچا، یہی وہ زمانہ تھا جب کہ قوالی مذہبی چولا اتار کر تفریحی روپ دھار رہی تھی لیکن ریڈیو نے اس کے بدلتے ہوئے روپ کو ابتداً پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا، ریڈیو چوں کہ حکومت کے زیرِ اقتدار تھا اور حکومت فنونِ
قوالی اور موسیقی
قوالی کی بنیاد موسیقی پر نہیں بلکہ شاعری پر ہے یعنی الفاظ و معانی پر لیکن قوالی چوں کہ موسیقی کے نہ بن جانے کے صدیوں بعد کی ایجاد ہے، اس لیے اس میں امیر خسرو نے موسیقی کے بنیادی اصولوں کا بھی خاص لحاظ رکھا، جس کی بنا پر عام عاشقانِ موسیقی اس سے بغل گیر
قوالی کی قسمیں
قوالی کو اگر عام طور پر تقسیم کیا جائے تو دو بڑی قسموں میں تقسیم ہو سکتی ہے، پہلی قسم قدیم اور دوسری جدید جسے ہم مجلسی قوالی اور عوامی قوالی بھی کہہ سکتے ہیں۔ قدیم قوالی : مجلسی قوالی یعنی قدیم قوالی حمد و شنار، تصوف، نعت، اقوالِ رسول، مدحِ انبیا، اقوالِ
فلموں میں قوالی کے فنکار
فلموں میں جب قوالی کے آئیٹم پسند کیے جانے لگے تو ان میں دنیائے قوالی سے مشہور فنکاروں کو پیش کیا جانے لگا جن میں اسمٰعیل آزاد، عبدالرب چاؤش، شنکر شمبھو، یوسف آزاد، جانی بابو اور عزیز نازاں کو زیادہ مقبولیت ملی لیکن اداکارانہ صلاحیت صرف یوسف آزاد اور
قوالی کے اہم مراکز
دنیا بھر میں قوالی کے اہم مراکز : قوالی کی طرز آج دنیا بھر میں مقبول ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان اس کے خاص مراکز ہیں، ان دو ممالک کے علاوہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی کثیر آبادی کے باعث اب انگلینڈ، کویت، دوبئی اور ساؤتھ افریقہ جیسے
قوالی کے اسٹیج پروگرام اور ٹکٹ شوز
فلموں کی جگمگاہٹ کے آگے تھیٹر کا چراغ جل نہ سکا اور اسٹیج کے جتنے مقبول و با صلاحیت فنکار تھے سب کے سب فلم انڈسٹری میں آ گیے، اسٹیج کی جیتی جاگتی دنیا ایک طویل عرصے کے لیے بے روح ہو گئی لیکن جب فلم کے فنکاروں کی مقبولیت معراج کو پہنچ گئی تو عوام انہیں
قوالی کے ابتدائی ساز، راگ تال اور ٹھیکے
قوالی کے ابتدائی سازوں کی تفصیل کسی ایک مضمون یا کتاب سے دستیاب نہیں ہوتی، البتہ مختلف مضامین میں مختلف سازوں کے حوالے ملتے ہیں جنہیں یکجا کر کے لکھیں تو دف، یک تارا، ڈھول، طبلہ، بانسری ستار اور تالی کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ حضرت امیر خسرو نے قوالی
قوالی اور گنپتی
گنپتی مہاراشٹرا کا ایک ایسا تہوار ہے جسے یہاں کے ہندو باشندے ہر سال چوتھی چترتھی میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ مناتے تھے لیکن اب اس کی تقاریب میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شریک ہونے لگے ہیں، خصوصیت کے ساتھ اب مسلم نوجوان زیادہ حصہ لینے لگے ہیں، مہاراشٹرا
قوالی میں خواتین سے مقابلے
بیسویں صدی کے چھٹے دہائی میں جب پہلی خاتون قوال شکیلہ بانو بھوپالی نے قوالی کے میدان میں قدم رکھا تو مقابلوں کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی، مردوں اور عورتوں کا پہلا مقابلہ شکیلہ بانو بھوپالی اور اسمٰعیل آزاد کے درمیان ۱۹۵۷ء میں ہوا، حسن و عشق کی یہ
قوالی میں تشریح کا اضافہ
قوالی کے بیشتر سامعین اردو کے مشکل الفاظ کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، جس سے شعر کے مفہوم تک پہنچنے کی گنجائش نہیں نکلتی اور اس تنگی سے لطف شعر ضائع ہو جاتا ہے، سامعین کی اس کمی کو دور کرنے کے لیے شکیلہ بانو بھوپالی نے ۱۹۵۶ء میں تشریح کی بنا ڈالی،
تذکرہ جانی بابو قوال
جانی با بو ایک سریلی، میٹھی اور پرکشش آواز کے مالک ہیں، ان کی طبیعت میں موسیقی ایسے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جیسے پیمانوں میں لبالب شراب کہ جسے ذرا سی جنبش ہوئی اور چھلک پڑی، یہ وہ نعمت ہے جو دوسرے قوالوں کو کم ہی میسر ہوئی، جانی اس نعمت کی قدر بھی کرتے
جدید قوالی پر جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری اور کیفیؔ اعظمی کا اثر
مشاعروں میں شاعر کی کامیابی کا دار و مدار اچھے کلام کے ساتھ اچھے ترنم یا تحت اللفظ کے اچھے اندازِ ادا پر ہوتا ہے، تحت اللفظ پڑھنے والوں میں جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری اور کیفیؔ اعظمی کا انداز عوام میں بے پناہ مقبول ہوا۔ جوشؔ ملیح آبادی نے ’’تحت‘‘
ٹیلی ویژن پر قوالی کی ابتدا
ہندوستان میں ٹی وی بیسویں صدی کے چھٹے دہائی میں آیا، یہاں سب سے پہلے اس کی ابتدا دہلی سے ہوئی، دہلی کے بعد ساتویں دہائی میں بمبئی میں بھی اس کا اسٹیشن قائم ہو گیا، دہلی اسٹیشن سیاسی و سرکاری سرگرمیوں کی تشہیر کا ذریعہ بنا رہا، یہاں فنون لطیفہ کو خاطر
قوالی کے بیرونی پروگرام
ہندوستان کی ایجاد کردہ قوالی آج ساری دنیا کو گرویدہ کیے ہوئے ہے، یہاں کے فنکاروں کی بیرونی مقبولیت میں ریڈیو، فلم اور گراموفون ریکارڈس کا بہت بڑا حصہ ہے، ان ذرائع سے جب ہمارے فنکار عالمی شہرت کے مالک ہوئے تو سارے عالم میں ان کے اسٹیج شوز کی مانگ بڑھنے
قوالی کے موجودہ ساز
قوالی کے عہدِ ایجاد تیرہویں صدی عیسوی سے آج بیسویں صدی تک جوں جوں قوالی عوامی تفریح کی حیثیت اختیار کرتی گئی اس میں نِت نئے ہندوستانی و بیرونی سازوں کا اضافہ ہوتا گیا، چنانچہ آج قوالی کے آرکسٹرا میں دستی تالی کے علاوہ ہارمونیم، طبلہ، ڈھول ڈھولکی، یک
قوالی کے المیے
حادثہ وقوع پزیر ہونے کے بعد ’’المیہ‘‘ یا ’’طربیہ‘‘ بن جاتا ہے، خوش گوار حادثے کی پیداوار ’’طربیہ‘‘ اور ناخوش گوار کی ’’المیہ‘‘ ہوتی ہے، ہندی اصنافِ موسیقی میں کئی اصناف مختلف حادثوں کی بنار پر عروج پائے اور زوال بھی قوالی فی الحال مختلف نا خوش گوار حادثوں
قوالی اور فلم
دنیا بھر میں خاموش فلموں کی تیاری اور ان کی نمائش کا سلسلہ ۱۸۵۰ء کے آس پاس شروع ہوا، ہندوستان میں پہلی خاموش فلم کی نمائش ۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو بمبئی کے ”وائس ہوٹل‘‘ میں کی گئی، یہ فلم لوی برادران نے فرانس میں تیار کی تھی، ہندوستان میں دو سو افراد نے اس
تذکرہ یوسف آزاد قوال
اسمٰعیل آزاد کے ہم عصروں میں سب سے زیادہ شہرت یوسف آزاد کو نصیب ہوئی، یوسف ایک انتہائی حوصلہ مند بے باک اور نڈر قوال ہیں، انہیں اپنی صلاحیتوں پر کامل اعتماد ہے، جس کے باعث وہ اپنی محفلوں میں خواہ مقابلے پر گا رہے ہوں یا تنہا شروع سے آخر تک مستعدی اور
بارہویں صدی سے انیسویں صدی تک
بارہویں صدی یعنی عہدِ خسروؔ سے انیسویں صدی کے اختتام تک قوالی زور و شور سے جاری رہی اور اس کے تذکرے بھی بڑی وضاحتوں کے ساتھ کئی کتابوں میں موجود ہیں لیکن ان میں قوال صاحبان پر خصوصیت کے ساتھ کچھ لکھا نہیں گیا یا ایسی تحریریں کم از کم میری نظر سے نہیں
بیسویں صدی کے چند مشہور قوال
بیسویں صدی کے چند قوال چوں کہ کل ہند شہرت کے مالک رہے، اس لیے میں ان میں سے بہت سوں کے ناموں سے واقف ہوں اور چند ایک ایسے بھی ہیں جن کے نہ صرف ناموں سے واقف ہوں بلکہ انہیں سن بھی چکا ہوں اور ان سے ذاتی طور پر بھی واقف ہوں، لہٰذا اس کتاب میں ان تمام ناموں
قوالی میں ادا آموزی کی ابتدا
قوالی میں تشریح کے اضافے کے بعد شکیلہ بانو نے اس فن کو مزید دلکش بنانے کی غرض سے ۱۹۵۶ء ہی میں ادا آموزی کا بھی اضافہ کیا، در اصل ادا آموزی بھی جز وِ تشریح ہے لیکن اس اضافے سے قوالی اتنی دلکش اور وسیع ہو گئی کہ اب یہ سماعت کی منزلیں طے کر کے بصارت کی
صمد قوال اور نیاز قوال
صمد قوال اور نیاز قوال جیسے دو نام ہی قوالی کی تاریخ میں امیر خسروؔ کے بعد سب سے قدیم ہیں، یہ دونوں امیر خسروؔ کے خاص شاگرد رہے ہیں اور انہوں نے خود خسروؔ کی موجودگی میں حضرت نظام الدین اؤلیا کی درگاہ میں قوالی پیش کی ہے، اسی زمانے میں کچھ اور قوالوں
قوالی کے مشہور فنکار
قوالی کے تمام مشہور فنکاروں کے بارے میں کچھ لکھنا تو کجا، ان تمام کے صرف نام گنوانا بھی ایک امرِ محال ہے، کیوں کہ ان فنکاروں کی نہ تو کوئی سلسلہ دار تاریخ موجود ہے اور نہ کہیں ان کی تفصیلات میسر ہیں، اس تہی دستی کا ایک اہم سبب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان
جدید قوالی اور موسیقی
پہلے تو قوالی کی دھنیں بہت مخصوص اور محدود تھیں، ان ہی دھنوں میں کلام کی رد و بدل سے قوال حضرات کام چلایا کرتے تھے لیکن بیسویں صدی کی تیسری چوتھائی میں قوالی کے میدان میں چند ایسے فنکار بھی آ گیے جو قوالی کو نت نئی دھنوں سے آراستہ کرنے میں مشغول ہو گیے
تذکرہ شنکر و شمبھو قوال
قوالی کافن کسی مذہب کی میراث نہیں، ہر مذہب کے لوگ نہ صرف اس فن کی محفلوں میں شریک ہوتے رہے ہیں بلکہ اس فن کو خود اپناتے بھی رہے، کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سب ہی قوالی کے فنکاروں میں شامل رہے، اس کی تازہ مثال ہیں شنکر و شمبھو برادران ہیں۔ در اصل شنکر
تذکرہ عبدالرب چاؤش قوال
عبدالرب چاؤش مقابلوں کے فنکار ہیں، مقابلوں کی حد تک دنیائے قوالی میں ان کا نام ناقابلِ شکست تسلیم کر لیا گیا ہے، چاؤش ہندوستان کے واحد قوال ہیں جو صرف مقابلوں کی کمائی کھاتے ہیں، ملک کا بڑے سے بڑا قوال مقابلوں کے معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے لیکن
قوالی میں خواتین کی ابتدا
قوالی میں خواتین کی ابتدا بیسویں صدی کے چھٹے دہائی میں ہوئی، جب کہ ۱۹۵۶ء میں دنیا کی پہلی خاتون قوال شکیلہ بانو بھوپالی نے اس میدان میں قدم رکھا، شکیلہ بانو سے پہلے قوالی کی تاریخ میں خاتون کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ شکیلہ بانو کی شمولیت خواتین کے
ردیف کاٹنا اور چوٹ کرنا
ردیف کاٹنا : قوالی کے جدید مقابلوں میں ’’ردیف کی تکرار‘‘ کی بہ نسبت ’’ردیف کاٹنے‘‘ کے مقابلے زیادہ مقبول ہوئے، ان میں دونوں قوال رات بھر کسی ایک ہی ردیف کو دہرانے کے بجائے اس کلام کی ردیف دہراتے ہیں جس ردیف پر سامنے والے نے گانا ختم کیا، اس طریقے کو
تذکرہ اسمٰعیل آزاد قوال
گیارہویں صدی عیسوی سے موجودہ بیسویں صدی تک قوالی نے کئی منزلیں طے کیں لیکن یہ فن مذہبی اجارہ داروں کے تسلط سے اس وقت مکمل طور پر آزاد ہوا جب 1940ء سے 1950ء کے درمیان اسمٰعیل آزاد نے اس فن میں عوامی دلچسپیوں کے روایات شکن اضافے کیے، اسمٰعیل آزاد سے
قوالی کے آرگنائزرس
فنون لطیفہ کے ہر ’’شو‘‘ کے لیے کسی نہ کسی تجارتی یا سماجی تنظیم کی سخت ضرورت ہوتی ہے لیکن موجودہ عہد میں’’ آرگنائزہ رس‘‘ کی ایک ایسی جماعت وجود میں آئی ہے جو بغیر کسی ادارے یا تنظیم کے فرداً فرداً کمرشل شوز کا اہتمام کرتی ہے اور سالہا سال سے ان ہی سلسلوں
قول، قلبانہ، نقش، گل، ترانہ، چھند اور رنگ
قول، قلبانہ، نقش گل، ترانہ، چھند اور رنگ قوالی کے مختلف روپ ہیں جن میں قول و قلبانہ ان کی طرزیں عربی کلام پر، نقش و گل کی فارسی کلام پر اور چھند درنگ کی طرزیں اردو ہندی کلام پر مشتمل ہیں، ترانہ اپنی جگہ ایک رنگ اور مکمل طرز ہے جو شاعری یا نثری کلام پر
قوالی کے قدیم و جدید مقابلے
قوالی کے مقابلے : قوالی کے فنکاروں میں مقابلوں کا رواج بہت پرانا ہے لیکن زمانہ قدیم میں قوالی کے فنکار اسی قسم کی مقابلہ بازی کا مظاہرہ کرتے تھے جیسے موسیقی کے اور فنکار موسیقی کی محفل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی صلاحیتوں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere