سماع کے آداب
سماع کے جائز ہونے یا نہ ہونے کی بحث کے برطرف اس کے آداب کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے، اس دور میں جب صوفیانہ موسیقی یا صوفیانہ کلام کے نام سے جو تماشا بنایا جارہا ہے اس میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صوفیائے کرام نے سماع سننے کی جو اجازت دی ہے اس میں آدابِ سماع کس قدر ضروری ہیں، سماع صرف تفریحِ طبع کے لیے نہیں سنا جاتا بلکہ ایک عبادت کے طور پر روحانی غذا حاصل کرنے کے لیے سنا جاتا ہے اور غذا کو اس کے مخصوص تکلفات کے ساتھ لینے سے نہ صرف اس کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے بلکہ اس کی تقویت بھی بڑھ جاتی ہے، دوسری طرف ان تکلفات کو نظرانداز کرنے سے مضر اثرات رونما ہوتے ہیں اور بدہضمی ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے لہٰذا سماع کے ظاہری اور باطنی آداب یہاں بیان کیے جارہے ہیں جس کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔
پہلا ادب: وقت، جگہ اور حاضرین کی رعایت ہے۔
اؤلیائے کرام نے سماع میں تین باتوں کو خاص طور سے ضروری بتایا ہے، جس میں سماع سننے کا وقت یعنی سماع کو ان اوقات میں سننا چاہیے جن میں دوسری طبعی یا شرعی مشاغل نہ ہوں مثلا کھانا پینا فنکشن میں مشغول ہونا، نماز پڑھنا یا تلاوت کرنا وغیرہ وغیر، ان حالات میں ذہن پوری طرح سے خالی نہیں ہوتا، دوسرے احتیاط، جگہ کی ضروری بتائی گئی ہے، مراد یہ ہے کہ سماع کو شارع عام پر یا ایسی جگہ جس کی ظاہری حالت اچھی نہ ہو نہ سننا چاہیے، شور شرابے، نجاست کی جگہ سماع سننے سے دل کے متغیر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور روح کو یکسوئی حاصل نہیں ہوتی، آج کل اکثر سڑکوں کے کنارے مزاروں پر یا بازاروں میں ٹنٹ لگا کر قوالی کا بہت قاعدہ ہوگیا ہے جو سماع کے آداب کے بالکل خلاف ہے۔
دوسری رعایت مجمع یا حاضرینِ مجلس سے ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ سماع ایسے لوگوں کے درمیان سنا جائے جن کو سماع کی اہمیت اور اس کے آداب سے واقفیت نہ ہو، سماع کا اہتمام اہلِ دل حضرات کے لیے کیا جانا چاہیے اکثر مصنوعی صوفی حضرات عوام کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لیے مصنوعی، مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں، کھڑے ہوکر کیفیت کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں، کپڑوں کو پھاڑنے کا دکھاوا کرتے ہیں اور نوٹوں کو قوالوں کی طرف اچھال کر ایک تماشا برپا کرتے ہیں، یہ ساری حرکات آدابِ سماع کے منفی ہیں، کلام سن کر وجد میں آنا، رونا یا رقص کرنا غلط نہیں ہوتا مگر اس میں کسی طرح کا تصنع کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔
دوسرا ادب : شیخ کی موجودگی۔
سماع کا حقیقی لطف شیخ کی موجودگی میں ہی آتا ہے، مریدوں یا سامعین کی حالت پر نظر رکھنے کے لیے محفل میں شیخ کی موجودگی بے حد ضروری ہے، اگر شیخ حیات نہ ہو تو کسی اہلِ دل بزرگ شخصیت کا ہونا ضروری ہے، اس کی موجودگی سے محفل میں روحانیت کا احساس رہتا ہے اور اس کے قلب کی کیفیت کا اثر باقی تمام حاضرین پر پڑتا ہے اگر شیخ کو کیفیت ہوتی ہے تو تمام مجمع پر اس کا اثر نمایا دیکھا جاسکتا ہے، دوسری طرف اگر محفل میں کسی مرید پر کیفیت طاری ہوتی ہے تو شیخ کی نظر اس کو تقویت بخشتی ہے، شیخ اپنے مرید کی روحانی حالت سے واقف ہوتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کس کو کتنی اور کس طرح کی روحانی غذا کی ضرورت ہے، دوسری طرف شیخ کی موجودگی میں محفل میں کوئی بھی مصنوعی اور نازیبہ حرکت کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
تیسرا ادب : حضورِ قلب اور عشقِ مجازی۔
سماع کے آداب میں عشقِ الٰہی کے ساتھ حضورِ قلب کی بھی شرط ہے، سماع میں کلام کو پوری توجہ کے ساتھ سننا اور اس کو عشقِ حقیقی کی طرف منسوب کرنا بہت ضروری ہے، اپنی نظر کو سامعین کے چہروں پر نہ کرکے شیخ کے چہرے پر مرکوز کرنا چاہیے اور اگر شیخ موجود نہ ہو تو شیخ کا تصور رکھنا چاہیے اور اپنے قلب کی طرف متوجہ رہنا چاہیے جو کچھ اللہ کی رحمت سے اس کے باطن پر ظاہر ہو اس پر نگاہ رکھنی چاہیے، کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے اہلِ محفل پریشان ہوں اور ان کی توجہ بٹ جائے، سماع کی محفل میں با وضو اور با ادب ہوکر بیٹھنا چاہیے، جب جسمانی تھکان کی وجہ سے حضورِ قلب کم ہونے لگے اور نیند یا جمائی آنے لگے تو محفل سے اٹھ کر چلے جانا چاہیے، جتنی دیر بھی بیٹھے سر جھکا کر اس طرح بیٹھے کہ جیسے کسی سوچ میں مستغرق ہو، نہ تالی بجائے نہ ناچے کودے، نہ کوئی ایسی حرکت کرے جس سے بناوٹ یا ریاکاری کی بو آرہی ہو، ہاں اگر بلا اختیار وجد آجائے اور اس کا اظہار ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ قلب کی کیفیت کو زیادہ روکنے سے بھی نقصان کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت جنید بغدادی کا ایک جوان العمر مرید جب کوئی ذکر سنتا تو بے اختیار وجد میں آ جاتا، حضرت جنید بغدادی نے اس کو اپنے آپ پر قابو رکھنے کی تلقین فرمائی، اس نوجوان نے اپنے شیخ کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن کیونکہ اس کی وجدانی کیفیت میں تصنع کوئی دخل نہیں تھا، اس لیے ضبط کرنا مشکل ہوگیا، اپنی اسی کیفیت کو ضبط کرنے کی کوشش میں اکثر اس کے ہر بال سے پانی کے قطرات ٹپکنے لگتے، ایک روز وہ اپنی بے ساختہ کیفیت پر قابو نہیں پاسکا اور ایک زبردست چیخ کے ساتھ اس کی روح پرواز کر گئی۔
وجد کی یہ کیفیت روحانی پرواز کی انتہا پر ہوتی ہے جہاں سے لوٹنا اکثر مشکل ہوجاتا ہے، قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا وصال بھی سماع میں وجدانی کیفیت میں ہوا جس کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک روز آپ حضرت علی سجزی کی خانقاہ میں محفلِ سماع میں تشریف رکھتے تھے کہ قوالوں نے احمد جام کا یہ کلام پڑھنا شروع کیا۔
منزلِ عشقت مکانِ دیگر است
مرد ایں رہ را نشانِ دیگر است
جب قوال اس شعر پر پہنچے۔
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
آپ پر رقت طاری ہوئی اور تین روز تک آپ پر یہی وجدانی کیفیت رہی اور اسی حالت میں آپ نے وصال فرمایا۔
حضرت قبلہ نیاز بے نیاز کے جانشینِ دویم حضرت سراج السالکین، شاہ محی الدین احمد عرف ننھے میاں صاحب ایک بار محفلِ سماع میں تشریف رکھتے تھے کہ قوال نے یہ شعر پڑھنا شروع کیا۔
باشد ایمانِ مسلماں مصحف روئے علی
سجدگاہِ ماست محراب دو ابروئے علی
اس شعر کی تکرار پر آپ کے قلب کی کیفیت بدلتی چلی گئی اور اسی کیفیت میں آپ نے اپنا سر سجدہ میں رکھا اور پھر وہ سجدہ سجدۂ آخر ثابت ہوا اور وہیں اپ کا وصال ہوگیا،
چشتیہ سلسلے کی تمام خانقاہوں میں کم و بیش ان آداب کا لحاظ رکھا جاتا ہے، قطب عالم، مدار اعظم، حضرت شاہ نیاز احمد نے اپنی خانقاہ میں جو آدابِ سماع رائج کیے وہ آج بھی قائم ہیں، خانقاہِ نیازیہ میں جو محافلِ سماع ہوتی ہیں ان میں کسی طرح کی تصنع، بناوٹ یا نازیبا حرکات کی اجازت بالکل نہیں ہوتی، سبھی مرید و سامعین حضرات با وضو ادب کے ساتھ صاحبِ سجادہ کی سرپرستی میں سماع میں بیٹھتے ہیں اور عبادت کی طرح سے پوری توجہ اور حضورِ قلب کے ساتھ سماع کی روحانی کیفیت سے محفوظ ہوتے ہیں اور اپنے قلب کو عشقِ الٰہی سے لبریز کرکے اٹھتے ہیں، سماع کو زیادہ طولانی کرنا بھی آدابِ سماع کو قائم رکھنے میں منفی ثابت ہوتا ہے، سماع اتنی ہی دیر سننا چاہیے جب تک ان آداب کو ملحوظ رکھ سکے، رات بھر قوالی کرنا میلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور وہ اہمیت حضورِ قلب ختم ہوجاتی ہے۔
ان تمام آداب کے ساتھ سماع سننا ہی مباح اور مستحب ہونے کی حد میں آتا ہے، تمام اہلِ تصوف حضرات کو اپنے مریدین و متوسلین کو ان آداب کی تلقین کرنا چاہیے اور اس پر عمل پیرا ہوکر مثال پیش کرنا چاہیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.