Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

تذکرہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

MORE BYڈاکٹر رضی احمد کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی کا اصلی نام احمد اور لقب عبدالحق تھا، ان کے دادا شیخ داؤد علاؤالدین خلجی کے زمانے میں ہندوستان تشریف لائے اور ردولی میں سکونت اختیار کی، یہیں ۷۷۶ھ مطابق ۱۳۷۵ء میں شیخ احمد عبدالحق کی پیدائش ہوئی، سلسلۂ نسب چند واسطوں سے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق تک پہنچتا ہے۔

    شیخ احمد عبدالحق بچپن ہی سے ریاضت و مجاہدے کے عادی تھے، سات سال کی عمر میں نماز تہجد شروع کر دی تھی، شیخ عبدالقدوس گنگوہی ’’انوارالعیون‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

    ’’حضرت شیخ العالم قدس اللہ روحہ اندر آنجہ ہفت سالہ بودہ اند چوں مادرِ حضرت شیخ العالم شیخ عبدالحق قدس اللہ روحہ در نیم شب از جہت تہجد می خاستندی، شیخ عالم قدس اللہ بسانی کہ مادر را خبر نبودی می خاستند و بزاویہ خانہ بادائی نماز تہجد مشغول می شدند۔‘‘

    ترجمہ : حضرت شیخ العالم جس وقت کہ ان کی عمر سات سال کی تھی، جب حضرت شیخ العالم شیخ عبدالقدوس اللہ روحہ کی والدہ صاحبہ آدھی رات میں تہجد کی نماز ادا کرنے کے لیے اٹھتیں تو شیخ العالم قدس اللہ اس طرح کہ ان کی والدہ کو خبر نہ ہوتی اٹھ جاتے تھے اور زاویہ خانہ میں تہجد کی نماز ادا کرنے مشغول ہو جاتے تھے۔

    یہ سلسلہ کافی دنوں تک یوں ہی چلتا رہا، جب والدہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے محبت مادری کے سبب منع فرمایا، شیخ عبدالحق پر اللہ کی محبت غالب تھی اس لیے بقول عبدالقدوس شیخ احمد نے فرمایا کہ

    ’’یہ ماں نہیں راہ زن ہیں جو مجھے اللہ کی عبادت سے روکتی ہیں، بارہ سال کی عمر میں اپنے بھائی شیخ تقی الدین کے پاس تحصیل علم کے ارادے سے دہلی پہنچے، شیخ تقی الدین خود بھی دانشور اور عالم تھے، انہوں نے شیخ عبدالقدوس کو علوم ظاہری کی تعلی دینی چاہی، فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، مجھے علم معرفت درکار ہے، مجبور ہو کر شیخ تقی الدین ان کو دہلی کے مشہور علما کے پاس لے گیے، ان سے کہا کہ مجھے اس نے پریشان کر رکھا ہے، کہتا ہے کہ مجھے علم سکھائیے، جب اس کو پڑھاتا ہوں تو پڑھتا نہیں، آپ اس کو نصیحت فرمائیں، شاید آپ کی نصیحت مؤثر اور کارگر ہو، شیخ عبدالحق کے سامنے ان حضرات نے میزان الصرف رکھی، جب ضرب یضربُ کی گردان پر پہنچے تو فرمایا راہِ خدا میں مرنا اور مارنا عوام و خواص کے لیے بڑی فضیلت ہے بشرطیکہ وہ اللہ کے لیے ہو، انتقام کے لیے نہ ہو اور فرمایا کہ

    ’’مرا علم خدا بیا موزید کہ من جز او را دوست نہ دارم‘‘

    ترجمہ : مجھے علم الٰہی سکھائیے کہ میں سوائے اس کی ذات کے سوا کسی کو عزیز نہیں رکھتا ہوں۔

    شیخ احمد عبدالحق ہمہ وقت خدا کی یاد میں مشتغرق رہا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کوئی بات کچھ دیر پہلے کہی جاتی تھی وہ بھی ان کو یاد نہ رہتی، ایک مرتبہ شیخ تقی الدین کی اہلیہ نے ان کی تعلیم کے سلسلے میں شیخ تقی الدین سے اصرار کیا، انہوں نے جواب دیا میں کس کو پڑھاؤں؟ وہ تو اللہ کی طلب میں اپنے آپ سے بھی بے خبر ہے، شیخ عبدالحق کو بلایا اور اپنی انگوٹھی دے کر اسے حفاظت سے رکھنے کی تاکید فرمائی، شیخ عبدالحق نے اسے صحن کے ایک کونے میں دفن کر دیا، تھوڑی دیر بعد شیخ تقی الدین نے ان سے انگوٹھی کے بارے میں پوچھا تو معصومیت سے جواب دیا، کیسی انگوٹھی؟ بار بار یاد دلانے پر بھی انہیں انگوٹھی یادنہ آئی، شیخ تقی الدین نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ یہ ایسے عالم میں غرق ہے کہ ہمارے علم کی پروا نہیں کرتا۔

    شیخ احمد عبدالحق اسی عالم میں پیر طریقت کی تلاش و جستجو میں مختلف مقامات کا سفر کرتے ہوئے پانی پت پہنچے، یہاں شیخ جلال الدین کبیرالاؤلیا کے دستِ حق پرست پر بیعت کی، شیخ جلال الدین نے اپنی کلاہ ان کے سر پر رکھی اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا، شیخ عبدالقدوس گنگوہی لکھتے ہیں کہ

    ’’شیخ المشائخ قطب الاؤلیا شیخ جلال الحق والدین قدس اللہ، حضرت شیخ العالم را باذن حضرت صمدیت و با جازت حضرت احدیت قبول فرمودند و طاقبہ از سرے خود کشیدہ بر سرِ حضرت شیخ العالم قدس اللہ سرہٗ نہادند‘‘

    ترجمہ : شیخ المشائخ قطب الاؤلیا شیخ جلال الحق والدین قدس اللہ نے حضرت شیخ العالم کو خداوند بزرگ و واحد کی اجازت سے قبول فرمایا اور اپنے سرِ مبارک سے کلاہ اتار کر شیخ العالم قدس اللہ سرہٗ کے سر پر رکھ دی۔

    ایک مدت تک ریاضتوں اور مجاہدوں کے بعد مرشد سے رخصت ہو کر مختلف مقامات کی سیر و سیاحت کرتے ہوئے پنڈوہ پہنچے جہاں نظامی بزرگ شیخ نورالدین سے ملاقات کی، بعد ازاں بہار سے ہوتے ہوئے اودھ پہنچے، یہاں شیخ فتح اللہ اودھی سے ملاقات کے بعد اپنے وطن ردولی لوٹ آئے اور یہاں سلسلۂ چشتیہ صابری کی ایک خانقاہ قائم کی، یہ خانقاہ اس سلسلے کا سب سے پہلے اور اہم مرکز بنی، شیخ احمد عبدالحق نے یہ خانقاہ ایسے وقت میں قائم کی تھی کہ جب دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقے چشتیہ سلسلے کے بزرگوں سے خالی تھے، نیز چشیتہ سلسلے کا مرکزی نظام بھی ختم ہو چکا تھا، گجرات، مالوہ، دکن اور بنگال میں سلسلے کی خانقاہیں قائم ہو رہی تھیں یعنی جس طرح سیاسی نظام کی مرکزیت ختم ہو کر صوبئی حکومتیں قائم ہوئیں، اسی طرح روحانی نظام کا مرکزی نظام بھی ختم ہوکر صوبائی مراکز کی شکل میں قائم ہوا، ردولی میں شیخ احمد عبدالحق کی اس خانقاہ نے رشد و ہدایت کا وہ اہم کام کیا کہ جس سے لوگوں کی بڑی تعداد نے اس دور میں فیض حاصل کیا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیخ احمد عبدالحق کے ذریعے اس دور میں سلسلۂ چشتیہ صابریہ کو حیات نو حاصل ہوئی اور ان کے زمانے میں سلسلے کو وہ غیر معمولی وسعت و ترقی اور مقبولیت حاصل ہوئی جو اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی، شیخ احمد عبدالحق ردولوی کے خلفا میں ان کے صاحبزادے شیخ احمد عارف کو خاص مقام حاصل ہے، والد کی وفات کے بعد سلسلۂ صابریہ اور پیر و مرشد کی جانشینی کا شرف شیخ احمد عارف ہی کو حاصل ہوا، چنانچہ سلسلہ انہی کے ذریعے آگے بڑھا۔

    اگر چہ ان کے دیگر خلفا میں شیخ بختیار، شیخ بہرا، شیخ برہان اور میاں فرید کے نام بھی مشہور ہیں، شیخ احمد عبدالحق نے ۷۳۷ھ مطابق ۱۳۳۶ء سلطان ابراہیم شرقی (سطان جون پور) کے عہد حکومت میں انتقال فرمایا اور ردولی میں ہی دفن ہوئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے