ڈاکٹر رضی احمد کمال کے صوفیانہ مضامین
تذکرہ حضرت علامہ کمال الدین اودھی
حضرت علامہ کمال الدین حامد بن عبدالرحمٰن بن محمد حنفی اودھی شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کے بھانجے اور اہم خلفا میں تھے، آپ کی ولادت و نشو و نما اجودھیا میں ہوئی، یہیں کے علما سے اکتساب علم کیا، بعد ازاں دہلی جا کر اپنے ماموں چراغ دہلی سے بیعت ہوئے اور
تذکرہ حضرت شیخ جمال گوجری
حضرت شیخ جمال الدین گوجری اودھی، عظیم المرتبت، صاحبِ نسبت اور بڑے مقام و مرتبہ کے بزرگ تھے، پانچ واسطوں سے آپ کا سلسلۂ نسب شیخ نجم الدین کبریٰ سے مربوط ہو جاتا ہے، اپنے زہد و ورع، مجاہدہ وریاضت اور کریم النفسی و شفقت علی الخلق کی بنا پر شیخ الاؤلیا
تذکرہ حضرت شیخ علاؤالدین حسینی اودھی
حضرت مولانا سید علاؤالدین اودھی سید شریف احمد ماہر بغدادی کی اولاد میں سے تھے اور حسینی سید تھے، علم و صلاح سے متصف صاحب ذوق و حال بزرگ تھے، ہندوستانی سنگیت اور موسیقی کے ماہر تھے، شیخ عبدالسلام بن سعد الدین بجنوری کے مرید و خلیفہ تھے، فارسی زبان کے
تذکرہ حضرت قاضی قدوۃ الدین
قاضی قدوۃ الدین بن میرک شاہ بن ابوالعلیٰ اسرائیلی اودھی متقدمین علمائے ہند میں صاحبِ کمال بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں، علوم و فنون میں مکمل دستگاہ رکھنے کے ساتھ شیخ عثمان ہرونی سے سلوک و طریقت کی تحصیل کا شرف بھی انہیں حاصل تھا، ہندوستان میں مسلمانوں کی
تذکرہ حضرت مولانا جمال گالدین اودھی
حضرت شیخ جمال الدین اودھی سلطان المشاخ کے مرید اور متبحر عالم تھے، میر خرد اپنے والد اور چچا کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مولانا جمال الدین اودھی جس زمانہ میں مرید ہو کر خانقاہ میں مقیم ہوئے اسی زمانہ میں ایک خراسانی عالم (و کثرت مباحثہ کی وجہ سے مولانا
تذکرہ حضرت شیخ محمد درویش اودھی
آپ کا نام نامی محمد اور لقب درویش ہے، والد ماجد کا اسم گرامی قاسم بن برہان الدین اودھی ہے، صاحبِ نزہۃ نے آپ کے تذکرہ کی ابتدا ان الفاظ سے کی ہے۔ ’’الشیخ الصالح الفقیہ محمد بن قاسم بن برہان الدین اودھی احدالمشائخ المشہورین‘‘ شیخ صالح، فقیہ محمد بن
تذکرہ حضرت شیخ جلال الدین اودھی
حضرت شیخ جلال الدین اودھی نحو، فقہ اور اصولِ فقہ کے زبردست عالم اور زہد و تقویٰ سے متصف بزرگ تھے، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا سے بیعت و ارادت کا تعلق رکھتے تھے، حسب تصریح میر خرد، علمائے اودھ میں سب سے پہلے آپ ہی حضرت سلطان المشائح کے حلقۂ
تذکرہ حضرت شیخ شمس الدین اودھی
حضرت شیخ شمس الدین فریادرس بن نظام الدین اودھی مشہور مشائخ ہند میں ہیں، علوم دینیہ کی تحصیل مولانا رفیع الدین اودھی سے کی اور طویل عرصہ تک ان کی خدمت میں رہے، تعلیم سے فراغت کے بعد انہیں سے بیعت بھی ہوگیے تھے، بعد میں حضرت شیخ اشرف سمنانی کچھوچھوی کی
تذکرہ حضرت قاضی محی الدین کاشانی
حضرت قاضی محی الدین اجودھیا کے ایک ذی اثر خاندان کے فرد تھے، سلسلۂ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے۔ قاضی محی الدین کاشانی بن قاضی جلال الدین بن قاضی قطب الدین از اولاد زید بن اسود بن سید ابراہیم بن سید محمد بن سید قاسم بن ابراہیم طباطبا بن اسمٰعیل بن ابراہیم
تذکرہ حضرت مولانا سید صفدر حسین اودھی
حضرت مولانا الحاج سید شاہ صفدر حسین بن محمد بخش بن ارتضیٰ حسین اودھی اجودھیا کے علمائے متاخرین میں اپنے علم و فضل، زہد و تقویٰ اور شرافت و مروت کے لحاظ سے ممتاز حیثیت کے مالک تھے، آپ کا قیام اکثر پایۂ تخت دہلی میں رہا، جہاں شاہی کتب خانہ سے خوب خوب
تذکرہ حضرت عاشق شاہ اودھی
حضرت شیخ غلام علی المعروف بہ ’’عاشق شاہ‘‘ اجودھیا کے علمائے عظام و مشائخ کبار میں تھے، ابتدا میں علما کی روش پر درس و تدریس میں مشغول رہے، بعد میں جاذب حقیقی نے اپنی طرف کھینچا تو علمی مشغلہ سے دل اچاٹ ہوگیا اور مرشد کامل کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے،
تذکرہ حضرت سید صدرالدین اودھی
حضرت سید صدرالدین اودھی زبردست عالم دین، بلند پایہ شیخ اور صاحبِ کشف و کرامات ولی تھے، عشق و محبت زہد و تقویٰ آپ کی زندگی کا شعار تھا، حضرت مخدوم سید محمد گیسو دراز (متوفیٰ ۸۲۵ ھ) کے اجل خلفا میں آپ کا شمار ہوتا ہے، نویں صدی ہجری کے نصف اول میں جن
تذکرہ حضرت شیخ داؤد بن محمود اودھی
حضرت شیخ داؤد بن محمود ایک بڑے قوی الحال اور بلند ہمت بزرگ تھے، مولانا علومِ ظاہری و باطنی سے پورے طور پر آراستہ تھے، ساری زندگی مولانا نے عزلت و خلوت ہی میں گزاری تھی، مولانا کا وطن قصبہ ردولی کے قریب مشہور قصہ بالامؤ تھا، مولانا کے حالات کے مطالعہ
تذکرہ حضرت شیخ احمد عارف
حضرت شیخ احمد عبدالحق کے یہاں کئی بیٹے پیدا ہوئے مگر کوئی زندہ نہ رہتا تھا، جس کی وجہ سے ان کی اہلیہ غمگین رہتی تھیں، اپنے اس غم کا اظہار انہوں نے شیخ احمد عبدالحق سے بھی کیا تھا۔ شیخ احمد عبدالحق نے فرمایا، تمہارے ایک لڑکا مقدر ہے لیکن وہ ابھی پختہ
تذکرہ حضرت فریدالدین اودھی
حضرت شیخ الاسلام فریدالدین اودھی نحو، لغت، ادب تفسیر وغیرہ علوم میں امتیازی شان کے مالک تھے، مولانا عبدالحی حسنی ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’لم یکن مثلہ فی زمانہ‘‘ احکام میں امام شافعی کے پیرو تھے، اجودھیا میں شیخ الاسلامی کے باوقار منصب پر فائز تھے اور
تذکرہ حضرت شیخ نصیرالدین اودھی
حضرت شیخ نصیرالدین محمود بن یحییٰ بن عبداللطیف معروف بہ ’’چراغ دہلی‘‘ کا مولد اور آبائی وطن اجودھیا ہی ہے، آپ زبردست عالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے سرتاج اؤلیا تھے، آپ کا سلسلۂ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے۔ شیخ نصیرالدین محمود بن یحییٰ بن عبداللطیف
تذکرہ حضرت شیخ زین الدین علی اودھی
حضرت شیخ زین الدین علی بن عبدالرحمٰن بن محمد حنفی اودھی، علامہ کمال الدین حامد کے برادر حقیقی اور حضرت چراغ دہلی کے بھانجہ، خادم خاص اور خلیفہ تھے، مولانا عبدالحیٔ حسنی ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ولد بارض اودہ و اشتغل العلم علی اساتذہ عصرہ‘‘ اجودھیا
تذکرہ حضرت سید سلطان موسیٰ عاشقان
حضرت سید سلطان موسیٰ عاشقان، شیخ حاجی صدرالدین چراغ ہند ظفرآبادی (متوفیٰ ۷۹۵ھ) کے مرید و خلیفہ تھے، انہیں کے ہمراہ ملتان سے ظفرآباد (جون پور) آئے اور پھر یہاں سے شیخ کے حکم سے اجودھیا میں سکونت پذیر ہوگیے تھے، اجودھیا میں جس جگہ آپ کی رہائش تھی وہ
حضرت مولانا حکیم محمد اسلم اودھی
آپ علم منقولات و معقولات دونوں میں کامل دستگاہ رکھتے تھے، بالخصوص فن حکمت و طبابت میں تو بے مثل تھے، اس فن میں آپ کے کئی منظوم رسالے ہیں، نواب آصف الدولہ متوفیٰ ۱۲۱۲ھ بمطابق۱۷۹۷ء کے عہد میں اجودھیا وارد ہوئے اور پھر یہیں کے ہو رہے، سیکڑوں طلبہ نے
تذکرہ حضرت شیخ بدالدین واعظ
حضرت شیخ بدرالدین حنفی اودھی صلاح وتقویٰ سے متصف عہد علائی کے زبردست واعظ و مذکر تھے، مستقل قیام اجودھیا ہی میں تھا مگر وعظ و تذکیر کی غرض سے گاہے بہ گاہے دارالحکومت دہلی تشریف لے جاتے اور وہاں مہینوں قیام کر کے خلق خدا کو اپنے مواعظ و نصائح سے متفید
تذکرہ حضرت مولانا قوام الدین اودھی
حضرت مولانا قوام الدین معروف بہ یک دانہ شیخ شمس الدین بن یحییٰ کے تلمیذ اور سلطان المشائخ کے مرید تھے، سلطان المشائخ انہیں ’’مرد صالح‘‘ کہا کرتے تھے، خادم و نوکر کے قطعاً محتاج نہیں تھے، اپنا سارا کام خود اپنے ہاتھوں کر لیا کرتے تھے، اکثر اوقات ذکر و
تذکرہ حضرت شیخ فتح اللہ اودھی
حضرت شیخ فتح اللہ بن نظام الدین اپنے عہد کے زبردست عالم اور بلند پایہ شیخ تھے، نحو، فقہ، اصول فقہ میں خصوصی مہارت رکھتے تھے، ان کا آبائی وطن بدایوں تھا، تحصیل علم کی غرض سے دہلی گیے اور حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کی سرپرستی میں اساتذہ دہلی سے علوم
تذکرہ حضرت شیخ شمس الدین اودھی
شیخ شمس الدین محمد بن یحیٰ اودھی آٹھویں صدی ہجری کے علما میں علمی تبحر، زہد و تقویٰ اور درس افادہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، سید محمد علوی (میر خرد) لکھتے ہیں کہ ’’کار علم و تبحر خدمت مولانا رحمۃ اللہ علیہ بجائے کشید کہ اوستادانِ شہر بخدمت ایں بزرگ
تذکرہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی
حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی کا اصلی نام احمد اور لقب عبدالحق تھا، ان کے دادا شیخ داؤد علاؤالدین خلجی کے زمانے میں ہندوستان تشریف لائے اور ردولی میں سکونت اختیار کی، یہیں ۷۷۶ھ مطابق ۱۳۷۵ء میں شیخ احمد عبدالحق کی پیدائش ہوئی، سلسلۂ نسب چند واسطوں سے
تذکرہ حضرت قاضی شہاب الدین اودھی
حضرت قاضی شہاب الدین مداری اودھی الملقب بہ ’’پرکالۂ آتش‘‘ قاضی قدوۃ الدین اسرائیلی کی اولاد میں تھے، علوم دینیہ بالخصوص فقہ میں پوری دستگاہ رکھتے تھے اور اودھ کے قاضی تھے، ہندوستان کے مشہور صوفی شیخ بدیع الدین مدار (متوفیٰ ۸۴۰ھ) جس وقت کالپی سے جون
تذکرہ حضرت شیخ علاؤالدین نیلی
حضرت شیخ علاؤالدین نیلی اودھی اپنے وقت کے زبردست عالم دین اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے، شیخ الاسلام فریدالدین اودھی شافعی کے تلمیذ اور شیخ شمس الدین یحییٰ اودھی کے رفیق درس تھے، تفسیر کشاف کی تعلیم کے وقت قرأت یہی کرتے تھے، شیخ شمس الدین اور دیگر رفقائے درس
تذکرہ حضرت شیخ محمد بن عارف
حضرت شیخ احمد عارف کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے شیخ محمد اپنے والد و مرشد کے جانشین و خلیفہ ہوئے، جن کے ذریعے سلسلۂ صابریہ کو شیخ عبدالقدوس گنگوہی جیسا مؤسس ثانی نصیب ہوا یعنی شیخ عبدالقدوس گنگوہی، شیخ محمد عارف کے مشہور و معروف خلیفہ و جانشیں ہوئے،
تذکرہ حضرت شیخ عبدالحق اودھی
اجودھیا کے علمائے متاخرین میں حضرت شیخ عبدالحق اودھی علوم ظاہری و باطنی ہر ایک میں بلند مقام و مرتبہ پر فائز تھے، حسب تصریح مولوی عبدالکریم اودھی آپ شاہ مظفرالدین بلخی خلیفۂ خاص شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی دختری اولاد میں تھے، علوم و فنون کی تکمیل
تذکرہ حضرت شیخ سعداللہ اودھی
حضرت شیخ سعداللہ اودھی کے حالات معلوم نہ ہو سکے، ممکن ہے مرأۃ الاسرار یا بحر ذخار میں ان کا تذکرہ اور تفصیلی حالات ہوں مگر اس وقت یہ کتابیں پیش نظر نہیں ہیں۔ مولانا عبدالحیٔ حسنی نے شیخ محمد بن قاسم اودھی (المعروف بہ شیخ درویش) کے تذکرہ میں ضمناً گلزارِ