حضرت مولانا حکیم محمد اسلم اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
آپ علم منقولات و معقولات دونوں میں کامل دستگاہ رکھتے تھے، بالخصوص فن حکمت و طبابت میں تو بے مثل تھے، اس فن میں آپ کے کئی منظوم رسالے ہیں، نواب آصف الدولہ متوفیٰ ۱۲۱۲ھ بمطابق۱۷۹۷ء کے عہد میں اجودھیا وارد ہوئے اور پھر یہیں کے ہو رہے، سیکڑوں طلبہ نے آپ سے علم طبابت حاصل کیا، جن میں سید میاں مرتضیٰ مودودی اور حکیم مرزا محمد علی لکھنوی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
علوم ظاہری میں کمال کے ساتھ آپ ایک مرشد کامل بھی تھے، سلسلۂ قادریہ میں آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی، وفات کے وقت آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے شیخ محمد درویش اودھی کے مرقد کے قریب دفن کیا جائے، آپ کے تلامذہ و متوسلین نے حسب وصیت شاہ فتح اللہ اودھی کی قبر کے پائنتی اور شاہ درویش کی قبر کے قریب قبرستان کے احاطہ کے دیوار سے متصل دفن کیا۔
مولوی عبدالکریم اودھی مؤلف ’’تاریخِ پارینہ‘‘ (متوفیٰ ۱۳۰۸ھ) نے لکھا ہے کہ
’’تاریخِ پارینہ کی تالیف سے چالیس سال قبل قاضی محمد علی اودھی کے لڑکوں نے تکیہ شاہ فتح کے بالکل متصل اینٹوں کے پکانے کا بھٹہ کھودا، ہر چند لوگوں نے انہیں اس سے منع کیا لیکن انہوں نے کسی کی نہیں سنی، اس بھٹہ کی کھدائی میں تکیہ کی بہت سی قبریں تلف ہوگئیں جن میں مولوی محمد اسلم مرحوم کی قبر بھی شامل تھی، اس کے نتیجے میں بھٹہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور قاضی صاحب کے لڑکے اس طرح مصائب میں مبتلا ہوئے کہ مجبوراً اجودھیا سے کہیں اور منتقل ہوگیے، تفصیلی حالات اور تاریخ وفات کا علم نہیں ہوسکا‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.