تذکرہ حضرت مولانا سید صفدر حسین اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت مولانا الحاج سید شاہ صفدر حسین بن محمد بخش بن ارتضیٰ حسین اودھی اجودھیا کے علمائے متاخرین میں اپنے علم و فضل، زہد و تقویٰ اور شرافت و مروت کے لحاظ سے ممتاز حیثیت کے مالک تھے، آپ کا قیام اکثر پایۂ تخت دہلی میں رہا، جہاں شاہی کتب خانہ سے خوب خوب استفادہ کیا، علم تفسیر سے آپ کو خاص شغف تھا، چنانچہ آپ نے قرآن سے متعلق ایک کتاب بھی مرتب کی تھی، جس میں آیاتِ احکام، شان نزول، نیز قرآنی سورتوں اور آیات و حروف کی تعداد اور زبر زیر پیش وغیرہ کا شمار بڑی عرق ریزی اور تحقیق سے جمع کر دیا تھا، مرزا اسد اللہ غالبؔ کے ممدوحین کی فہرست میں آپ کا نام نامی بھی شامل ہے، دیوانِ غالب میں ایک قصیدہ آپ کی شان میں موجود ہے، آپ کو دو مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا، اپنے والد شاہ محمد بخش کی وفات کے بعد دہلی سے اجودھیا واپس تشریف لائے اور اپنی آبائی خانقاہ کے گدی نشیں ہوئے، اجودھیا کے زمانۂ قیام میں ایک مرتبہ کسی عقیدت مند نے آپ کی دعوت کی جس میں آپ کے خدام کے علاوہ خانوادہ شیخ عبدالحق نوشہ رودولوی کے دو بزرگ ساہ حمید احمد اور شاہ محمد احمد رودولوی بھی شریک تھے، چوں کہ آپ کو بواسیر کا عارضہ تھا، اس لیے آپ کے لیے الگ سے پرہیزی کھانا تیار کیا گیا تھا لیکن باورچی نمک ڈالنا بھول گیا اور کسی نے بتقاضائے ادب کھانے کو چکھا بھی نہیں، کھانے کے وقت یہ پرہیزی کھانا آپ کے سامنے رکھا گیا، آپ نے پوری بشاشت کے ساتھ کھانا تناول کیا اور کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ کھانا پھیکا ہے، کھانے کے بعد پتہ چلا کہ کھانے میں تو نمک تھا ہی نہیں، میزبان اس پر بہت شرمندہ ہو اور آپ کی خدمت میں آکر معذرت خواہ ہوا آپ نے اسے تسلی دی اور فرمایا کہ تمہارا مقصد کھانا کھلانا تھا اور میں نے کھا لیا اس لیے تمہیں رنج و غم نہیں کرنا چاہیے۔
مولوی عبدالکریم اودھی نے لکھا ہے کہ
’’اس موقع پر میں بھی وہاں موجود تھا، آپ کی اس عالی ظرفی پر تمام شرکائے دعوت کو حیرت ہوئی، ۲۹۱ء میں حضرت مجدد الف ثانی اور دیگر بزرگوں کے مزارات پر فاتحہ کے لیے سرہند تشریف لے گیے، وہیں بحالت سفر پیغام اجل آ گیا اور آپ دار فانی کو چھوڑ کر راہی ملک باقی ہوگیے۔
اس وقت نہ خانقاہ کے آثار باقی ہیں نہ مزارات کے، جس قطعہ ارض پر لوگ مزارات اور خانقاہ کی تعین کرتے ہیں وہ کاشت کی زمین میں تبدیل ہوچکا ہے، جس پر کاشت کی جا رہی ہے۔ (گم گشتہ حالات اجودھیا، ص؍۲۱)
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 93)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.