تذکرہ حضرت عاشق شاہ اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ غلام علی المعروف بہ ’’عاشق شاہ‘‘ اجودھیا کے علمائے عظام و مشائخ کبار میں تھے، ابتدا میں علما کی روش پر درس و تدریس میں مشغول رہے، بعد میں جاذب حقیقی نے اپنی طرف کھینچا تو علمی مشغلہ سے دل اچاٹ ہوگیا اور مرشد کامل کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے، گھومتے پھرتے شیخ عبدالباسط الہ آبادی (متوفیٰ ۱۱۹۶ھ) کی خدمت میں پہنچ گیے، شیخ عبدالباسط پر ان کی نظر جیسے ہی پڑی ہوش و حواس کھو بیٹھے اور وارفتگی کے عالم میں بدن کے کپڑے پھاڑ ڈالے، بعد میں افاقہ ہوا تو شیخ الہ آبادی نے انہیں اجودھیا واپس لوٹ جانے کا حکم دیا، چنانچہ حکم کے مطابق واپس تو آ گیے مگر شیخ کی نگاہ کیمیا اثر نے دل کی دنیا ہی بدل دی تھی، وطن مالوف میں سکون نہ ملا اور جملہ اسباب و مال و متاع نذر فقرا و مساکین کرکے دیوانہ وار شیخ الہ آبادی کی خدمت میں حاضر ہوگیے اور مسلسل کئی سال تک صحبت میں رہ کر ریاضت شاقہ میں مشغول رہے تا آنکہ شیخ نے خلافت اور عاشق شاہ کے خطاب سے نواز کر اجودھیا رخصت کیا، کثرت ذکر کی وجہ سے جذب و سکر کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس لیے مدتوں سرگشتہ اور ادھر ادھر گھومتے رہے، بالآخر اس کیفیف میں کچھ کمی آئی تو وطن عزیز واپس آئے اور محلہ کاغذی ٹولہ کی مسجد میں فروکش ہوگیے، کسی معتقد نے مسجد کے غسل خانہ کے اوپر ایک حجرہ تعمیر کرا دیا تھا، اسی حجرہ میں زندگی کے بقیہ دن گزار دیے، مرید و طالبین کی اصلاح و تربیت کے ساتھ مثنوی مولانا روم اور دیوان حافظ شیرازی کا درس بھی دیتے تھے، نواب آصف الدولہ کے عہد نوابی۱۲۱۲ھ میں وفات پائی، محلہ کاغذی ٹولہ میں معماروں کے امام باڑہ کے متصل آپ کی قبر ہے، اسی مناسبت سے مولوی سید محمد علی اودھی نے مصرعہ تاریخ وفات یوں کہا ہے۔
’’آستانِ امام شد جائش‘‘
۱۲۱۲ھ
مزار کی عالی شان عمارت اب بھی اچھی حالت میں موجود ہے۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 91)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.