Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت شیخ علاؤالدین حسینی اودھی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

تذکرہ حضرت شیخ علاؤالدین حسینی اودھی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

MORE BYڈاکٹر رضی احمد کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت مولانا سید علاؤالدین اودھی سید شریف احمد ماہر بغدادی کی اولاد میں سے تھے اور حسینی سید تھے، علم و صلاح سے متصف صاحب ذوق و حال بزرگ تھے، ہندوستانی سنگیت اور موسیقی کے ماہر تھے، شیخ عبدالسلام بن سعد الدین بجنوری کے مرید و خلیفہ تھے، فارسی زبان کے بڑے اچھےشاعر تھے، نمونہ کے طور پر ایک غزل کے چند اشعار درج ہیں۔

    ندانم آں گل خنداں چہ رنگ و بو دارد

    کہ مرغ ہر چمنے گفتگوئے او درد

    بجستجوئے نیابد کسے مراد دلے

    کسے مراد بیابد کہ جستجو دارد

    نشاط بادہ پرستاں بہ منتہا برسید

    ہنوز ساقی ما بادہ در سبو دارد

    حدیث عشق تو تنہا نہ من ہمی گویم

    کہ ہر کہ ہست ازیں گو نہ گفتگو دارد

    متاع دل بکف دلبرے بدہ تو علاؔ

    کہ ایں متاع گراں مایہ او نکو دارد

    (نزہۃ الخواطر، ج؍۳)

    آپ کے خلفائے میں سید علی تلہری اور صاحبزادے ماہ رو بطور خاص شہرت کے مالک ہوئے، باختلاف روایت ۹۶۸ھ یا ۹۷۷ھ میں وفات پائی۔

    اجودھیا کے مشہور قبرستان ’’خرد مکہ‘‘ میں محو خوابِ راحت ہیں، اسی میں آپ کے صاحبزادے سید ماہ رو دیگر اہل خاندان و متعلقین کے مزارات ہیں، سید علاؤالدین کے مزار کے سرہانے ایک سیاہ پتھر نصب تھا مگر ۶۰؍۷۰ سال کا عرصہ ہوا کچھ نا معلوم افراد رات کو وہ پتھر وہاں سے اکھاڑلے گیے اور اسی کے ساتھ بہت سی قبریں بھی کھود ڈالیں، بعد میں بذریعۂ پولیس تحقیقات کرائی گئی مگر کچھ سراغ نہ ملا کہ کن لوگوں کی یہ حرکت تھی اور کن اغراض کے تحت ایسی مذموم حرکت کی گئی۔

    ’’خردمکہ‘‘ قبرستان پر مودین کٹیا کے پورب ۳۰؍۴۰ میٹر کے فاصلے پر ہے، اس مشہور مقبرہ (جس میں بڑے بڑے علما و اؤلیا، عباد و زہاد مدفون ہیں) کی ناگفتہ بہ حالت کو ڈاکٹر دبیران الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

    گندگی اور غلاظت سے بھرا ہوا ایک باغ ہے، جس میں خود رو جنگلی پودے اگے ہوئے ہیں، کبھی یہ باغ ایک وسیعح احاطہ کے اندر رہا ہوگا کیوں کہ قدیم ترین چہار دیواری کے باقیات اب بھی جگہ جگہ موجود ہیں، باغ کا یہی احاطہ، خرد مکہ، کہلاتا چلا آ رہا ہے، انیسویں صدی کے آخر تک اس میں ہزاروں پختہ و خام قبریں موجود تھیں جس زمانہ میں ’’راجہ درشن سنگھ‘‘ نے نالہ کھدوایا تو بہت سی قبریں اس نالہ میں آکر تلف ہوگئیں، اس کے علاوہ بہت سی قبریں فیض آباد روڈ بننے کے وقت سڑک اور فٹ پاتھ میں آکر تلف ہوگئیں۔

    (نزہۃ الخواطر،ج؍۴، ص؍۲۳۲ ۲، گم گشتہ حالات اجودھیا، ص؍۱۷)

    مأخذ :
    • کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 89)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے