تذکرہ حضرت شیخ محمد درویش اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
آپ کا نام نامی محمد اور لقب درویش ہے، والد ماجد کا اسم گرامی قاسم بن برہان الدین اودھی ہے، صاحبِ نزہۃ نے آپ کے تذکرہ کی ابتدا ان الفاظ سے کی ہے۔
’’الشیخ الصالح الفقیہ محمد بن قاسم بن برہان الدین اودھی احدالمشائخ المشہورین‘‘ شیخ صالح، فقیہ محمد بن قاسم بن برہان الدین اودھی مشہور مشائخ میں سے تھے۔
(تذکرۃ العابدین، ص؍۱۰۴)
تذکرۃ الرشید ص؍۲۶ پر ان کا نام شیخ درویش بن محمد قاسم درج ہے جو صحیح نہیں ہے، احدالمشائخ المشہورین میں ہونے کے باوجود آپ کا تفصیلی تذکرہ دستیاب نہیں ہے، خود ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں صرف چار پانچ سطریں آپ کے بارے میں لکھی ہیں، اسی طرح شیخ یٰسین بنارسی (متوفیٰ ۱۰۷۶ھ) نے ’’مناقب العارفین‘‘ میں شیخ محمد بن عیسیٰ بن تاج الدین جون پوری (متوفیٰ ۸۷۰ھ) کے خلفا کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ درویش کا ذکر کیا ہے مگر درج ذیل چند جملوں کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہے۔
’’و از جملہ خلفا حضرت مخدوم درویش بن قاسم اودھی است بسیار بزرگ بود شیخ عبدالقدوس گنگوھی را از ایشاں جامۂ خلافت رسید‘‘
ترجمہ : اور منجملہ خلفا کے حضرت مخدوم درویش بن قاسم اودھی ہیں، بہت بڑے بزرگ تھے، شیخ عبدالقدوس گنگوہی کو ان سے جامۂ خلافت ملا ہے۔
’’تذکرۃ العابدین‘‘ میں یہ چند سطریں ہیں ‘‘آپ خلیفہ شیخ سعداللہ اودھی کے اور پیر حضرت عبدالقدوس گنگوھی کے ہیں، آپ بہت بڑے عالم بعلوم ظاہری و باطنی و مقبول و عاشق خدا تھے، آپ نے اپنی تمام عمر ریاضت و مجاہدہ میں صرف کی اور جابجا مشائخ کی خدمت میں گیے اور کئی طریق سے سلسلۂ طریقت حاصل کیا اور مخلوق خدا کو فیض یاب کیا۔
صاحبِ ’’تذکرۃ العابدین‘‘ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ درویش کو اپنے عدہ کے بہت سے مشائخ سے اجازت و خلافت حاصل تھی، راقم الحروف کو تلاش و جستجو کے بعد چھ ایسے مشائخ کا علم ہوا جن سے آپ نے اخذ فیض کیا اور خلافت پائی، تفصیل اس طرح ہے۔
(۱) اپنے والد محترم شیخ قاسم اودھی
(۲) شیخ سعدالدین اودھی
(۳) شیخ محمد بن عیسیٰ تاج جونپوری
یہ تینوں بزرگ شیخ فتح اللہ اودھی کے مرید و خلیفہ تھے، ان تینوں مشائخ سے واسطہ کے بغیر اجازت حاصل تھی اور براہ راست (۴) شیخ فتح اللہ سے بھی آپ کو خلافت حاصل تھی، چنانچہ مولانا عبدالحئ حسنی لکھتے ہیں کہ
’’قال المندوی فی گلزار ابرا انہ اخذ الطریقۃ الچشتیۃ عن والدہ و عن الشیخ سعد الدی اودھی کلاھما عن الشیخ فتح اللہ، واخذ عن الشیخ فتح اللہ بلا واسطۃ‘‘
ترجمہ : صاحبِ گلزار ابرار کا بیان ہے کہ شیخ درویش نے طریقۂ چشتیہ اپنے والد اور شیخ سعدالدین اودھی خلفائے شیخ فتح اللہ سے حاصل کیا اور خود شیخ فتح اللہ سے بغیر واسطہ کے بھی اخذ فیض کیا۔
شیخ میں حکیم اودھی خلیفہ سید صدرالدین اودھی سلسلۂ چشتیہ کے ان پانچوں مشائخ کے علاوہ سلسلۂ مداریہ و سہروردیہ میں (۶) شیخ بدھن بہرائچی خلیفہ شیخ اجمل بہرائچی سے بھی خلافت یافتہ تھے اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی (متوفیٰ ۹۴۴ھ) ان تمام سلسلوں میں شیخ درویش کے مجاز و خلیفہ تھے، ’’مناقب العارفین‘‘ میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی شیخ درویش کی خدمت میں حاضری اور پھر شیخ سے ان کی گروید گی کا بڑا دلچسپ واقعہ لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
پہلے پہل جب عبدالقدوس شیخ کی خدمت میں باریاب ہوئے تو گدڑی پوش تھے، شیخ نے انہیں اس لباس میں دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو اس لباس میں دیکھ کر اگر کوئی یہ کہے کہ یہ درویش جا رہا ہے تو یہ بات آپ کے کانوں تک پہنچے گی یا نہیں؟ مولانا نے جواب دیا، ہاں پہنچے گی، شیخ نے فرمایا کہ کانوں سے گذر کر دل تک جائے گی؟ مولانا نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا، شیخ نے پھر سوال کیا کہ دل اس بات کی طرف متوجہ ہوگا یا نہیں؟ مولانا نے عرض کیا ہاں متوجہ ہوگا، شیخ درویش نے یہ سن کر فرمایا کہ ’’چرار و شے اختیار باید کرد کہ مشغولی از دست برد‘‘
ترجمہ : ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے خدا کی یاد سے دل غافل ہو جائے۔
شیخ کے اس لطیف تنبیہ سے عبدالقدوس گنگوہی اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہیں کی صحبت میں رہ پڑے تا آنکہ شیخ درویش نے انہیں جامۂ خلافت اور فن تصوف میں اپنی تصنیف ’’آداب السالکین‘‘ دیکر رخصت کیا۔
شیخ درویش کی تصنیف ’’آداب السالکین‘‘ کا ذکر مولانا عبدالحیی حسنی نے بھی کیا ہے، لکھتے ہیں کہ کتاب آداب السالکین، کتاب مفید فی السلوک
ترجمہ : شیخ درویش کی فن سلوک میں آداب السالکین مفید کتاب ہے، شیخ فتح اللہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ
’’اخذ عنہ محمد بن قاسم اودھی صاحب آداب السالکین‘‘
ترجمہ : ان سے اخذ سلسلہ کیا محمد بن قاسم اداب السالکین کے مصنف نے۔
علاوہ ازیں اپنی مشہور تصنیف ’’اثقافۃ الاسلامیہ فی الہند‘‘ میں بھی آداب السالکین کو شیخ محمد درویش کی تصنیف بتایا ہے، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی شیخ فتح اللہ اودھی کے تذکرہ میں ضمناً آداب السالکین کا ذکر کیا ہے اور نصف صحفہ سے زائد اس کا اقتباس بھی دیا ہے لیکن کتاب کی نسبت شیخ درویش کے بجائے ان کے والد شیخ قاسم کی طرف کی ہے، لکھتے ہیں کہ
’’شیخ قاسم اودھی دہلوی از مریدان اوست رسالہ دارد مسمیٰ بہ آداب السالکین‘‘
ترجمہ : شیخ قاسم اودھی دہلوی ان کے (شیخ فتح اللہ) کے مریدوں میں سے ہیں جن کا آداب السالکین نامی ایک رسالہ ہے۔
یوم پنجشنبہ ۱۶؍ محرم ۸۹۶ھ کو شیخ درویش کا وصال ہوا، محلہ چراغ دہلی اجودھیا (اعلم گنج کڑا) میں شیخ فتح اللہ کے خطیرہ میں مشرقی دیوار کے متصل اپنے والد بزرگوار کے پائنتیں آسودہ خواب ہیں۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 84)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.