تذکرہ حضرت قاضی شہاب الدین اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت قاضی شہاب الدین مداری اودھی الملقب بہ ’’پرکالۂ آتش‘‘ قاضی قدوۃ الدین اسرائیلی کی اولاد میں تھے، علوم دینیہ بالخصوص فقہ میں پوری دستگاہ رکھتے تھے اور اودھ کے قاضی تھے، ہندوستان کے مشہور صوفی شیخ بدیع الدین مدار (متوفیٰ ۸۴۰ھ) جس وقت کالپی سے جون پور جا رہے تھے، اسی سفر میں قاضی شہاب الدین ان کی زیارت سے مشرف ہوئے اور پہلی ملاقات ہی میں شیخ مدار سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ بیعت ہو کر ان کے حلقۂ خدام میں شامل ہوگیے، پھر پیر و مرشد کی محبت کا ایسا غلبہ ہوا کہ علمی مشغلہ ترک ہوگیا، تمام کتابوں کو دریا برد کر دیا اور منصب قضا سے بھی دست بردار ہوگیے، شیخ مدار کی خدمت یا ذکر و مراقبہ بس یہی زندگی کا مشغلہ رہ گیا، شیخ مدار سے اس درجہ تعلق ہوگیا تھا کہ سفر و حضر کسی بھی وقت ان کی صحبت سے جدائی گوارہ نہیں تھی، شیخ مدار کو بھی ان سے انس خاص تھا اور زیادہ تر خدمت انہیں سے لیتے تھے چنانچہ شیخ مینا لکھنوی (متوفیٰ ۸۷۰ھ) کو شاہ مدار نے اپنا مصلی قاضی شہاب الدین پرکالۂ آتش ہی کے ذریعہ سے بھیجا تھا۔
الحاصل پیر و مرشد کی توجہ خاص سے درجہ تکمیل کو پہنچ کر خلافت سے مشرف ہوئے، شیخ مدار کے کل ستر خلفا تھے جن میں قاضی سید اجمل بہرائچی، مولانا حسام الدین سلامتی جون پوری، مولانا محمد جہندہ بدایونی، قاضی محمود کنتوری اور شیخ شہاب الدین پرکالۂ آتش اجل خلفا میں شمار ہوتے ہیں۔
پرکالۂ آتش لقب سے شہرت کے متعلق مولانا عبدالحئی حسنی لکھتے ہیں کہ
’’لقبہ الناس لذکائہ پر کالۂ آتش ‘‘
ان کے ذہن ثاقب کی بنا پر لوگوں نے انہیں پرکالۂ آتش کا لقب دے دیا تھا، بعض لوگوں نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ
’’حرارتِ شوق الٰہی چناں غالب می بود کہ از آتش انفاس خود مرغ می پخت و از کثرت جلال خلق او را پرکالۂ آتش می گفت‘‘
ترجمہ : عشق الٰہی کی حرارت اتنی تیز تھی کہ سانسوں کی گرمی سے چڑیا پک جاتی تھی اور کثرتِ جلال کی وجہ سے لوگ انہیں پرکالۂ آتش کہتے تھے۔
سن وفات معلوم نہ ہوسکا، ان کے شیخ و مرشد مخدوم مدار کی وفات ۸۴۰ ھ میں ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود ان کی وفات نویں صدی ہجری کے آخر میں ہوئی ہوگی، مقبرہ موضع جملائی میں ہے جسے اب بڑا گاؤں کہتے ہیں جو اجودھیا سے ۲۰؍۲۵ کلو میٹر پر جانب مغرب واقع ہے اور معمولی درجے کا ریلوے اسٹیشن ہے۔
شیخ بدیع الدین مدار کے اجودھیا میں ایک خلیفہ اور بھی تھے جو شیخ جودھن مداری اودھی کے نام سے مشہور تھے، صاحبِ انتصاح نے شیخ مدار کے خلفا کی فہرست میں لکھا ہے کہ
’’حضرت شاہ جودھن کہ در شہر اودھ مسکن گرفتہ‘‘
ترجمہ : اور شاہ جودھن شہر اجودھیا میں مدفون ہیں۔
لیکن ان کے تفصیلی حالات معلوم نہ ہوسکے اور نہ مقبرہ کی نشاندہی ہوسکی کہ کس محلے میں تھا، اجودھیا میں شاہ مدار نام سے ایک محلہ ہے ممکن ہے ان کا قیام اسی جگہ رہا ہو جس کی مناسبت سے یہ نام پڑ گیا ہو۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 81)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.