Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت قاضی محی الدین کاشانی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

تذکرہ حضرت قاضی محی الدین کاشانی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

MORE BYڈاکٹر رضی احمد کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت قاضی محی الدین اجودھیا کے ایک ذی اثر خاندان کے فرد تھے، سلسلۂ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    قاضی محی الدین کاشانی بن قاضی جلال الدین بن قاضی قطب الدین از اولاد زید بن اسود بن سید ابراہیم بن سید محمد بن سید قاسم بن ابراہیم طباطبا بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن عمر بن حسن مثنیٰ بن امام حسن بن امام علی ابن ابی طالب۔ (تکملہ تذکرہ علمائے ہند، ص؍۲۶۲)

    قاضی کاشانی حضرت نظام الدین اؤلیا کے خلفا میں زہد و تقویٰ اور علمی تبحر میں بلند درجہ رکھتے تھے، ابتدا میں حکومت سے متعلق رہے لیکن جس وقت شیخ نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سرکاری وثیقہ کو پارہ پارہ کرکے فضا میں بکھیر دیا اور ریاست و امارت کے بجائے فقر و مسکنت کی زندگی اختیار کر لی، بالآخر سلطان المشائخ نے قاضی صاحب کے عمدہ احوال کو دیکھ کر اپنے دست خاص سے خلافت نامہ لکھ کر عنایت فرمایا، خلافت نامہ کے الفاظ یہ ہیں۔

    ’’می باید کہ تارک دنیا باشی، بسوئے دنیا و ارباب دنیا مائل نہ شوی و دیہ قبول کنی وصلہ بادشاہان نگیری و اگر مسافران بتور سند و بر تو چیزے نباشد ایں حال را غنیمتے و نعمتے شمری از نعمتہائے الٰہی فان فعلت ما امر تک وطنی بک ان تفعل کذا لک فانت خلیفتی و ان لم تفعل فاللہ خلیفتی علی المسلیمین‘‘ (دہلی کے بائیس خواجہ، ص؍۱۸۰)

    ترجمہ : تارک دنیا رہنا، دنیا اور دنیا والوں کی طرف مفت جھکنا، بادشاہوں کی جاگیر اور انعام قبول نہ کرنا، اگر مسافر تمہارے مہمان ہوں اور تمہارے پاس کچھ بھی ہو تو اس حال کو غنیمت سمجھنا اور اسے اللہ کی نعمت باور کرنا، اگر تم میرے حکم کے مطابق عمل پیرا رہے اور میرا خیال ہے کہ ایسا ہی کروگے تو تم میرے خلیفہ ہو، اگر بالفرض تم نے ان باتوں پر عمل نہیں کیا تو پھر مسلمانوں پر میرا قائم مقام اللہ تعالیٰ ہے۔

    قاضی صاحب حسبِ ہدایتِ شیخ پوری استقامت کے ساتھ دنیا و اہل دنیا سے کنارہ کش ہو کر یاد الٰہی اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہے، کچھ دنوں کے بعد تنگ دستی اور فقر و فاقہ اس انتہا کو پہنچ گیا کہ ان کے گھر والے بلبلا اٹھے، اس کیفیت کو دیکھ کر قاضی صاحب کے ایک شناسا نے اس کا تذکرہ سلطان علاؤالدین خلجی سے کر دیا، سلطان نے اجودھیا کا منصب قضا (جوان کا موروثی منصب تھا اور اپنے علم و فضل کی بنا پر یہ اس کے اہل بھی تھے) کا پروانہ ان کے نام بھیج دیا، قاضی صاحب حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض رساں ہوئے کہ یہ عہدۂ قضا بغیر کسی طلب کے میرے سپرد کیا جا رہا ہے، اس بارے میں حضرت کا منشا قضا بغیر کسی طلب کے میرے سپرد کیا جا رہا ہے، اس بارے میں حضرت کا منشا کیا ہے؟ یہ سن کر سلطان المشائخ نے نا خوش ہو کر فرمایا پہلے تمہارے دل میں اس کا داعیہ پیدا ہوا ہوگا جب ہی تو ایسا ہوا ہے اور خلافت نامہ ان سے واپس لے لیا، تقریباً ایک سال تک شیخ ان سے کبیدہ خاطر رہے، بالآخر امیر خسروؔ کی سفارش پر راضی ہوئے اور تجدید بیعت کرکے خلافت نامہ واپس فرما دیا، سلطان المشائخ کی حیات ہی میں قاضی صاحب ۷۱۹ھ میں وفات پا گیے۔

    مأخذ :
    • کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 33)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے