تذکرہ حضرت شیخ داؤد بن محمود اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ داؤد بن محمود ایک بڑے قوی الحال اور بلند ہمت بزرگ تھے، مولانا علومِ ظاہری و باطنی سے پورے طور پر آراستہ تھے، ساری زندگی مولانا نے عزلت و خلوت ہی میں گزاری تھی، مولانا کا وطن قصبہ ردولی کے قریب مشہور قصہ بالامؤ تھا، مولانا کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیر و مرشد حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر بھی وہاں دو تین بار تشریف لائے؟ اور شیخ داؤد کی خاطر وہاں کی مسجد میں ایک چلہ بھی کیا، اسی مسجد میں حضرت شیخ اشرف جہاں گیر سمنانی نے بھی ایک چلہ کیا تھا۔
شیخ عبدالرحمٰن چشتی نے شیخ داؤد بن محمود کے حالات میں ان شیوخ کی بالامؤ میں آمد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’بالامؤ قصہ ردولی کے پاس ہے، حضرت گنج شکر دو تین مرتبہ وہاں تشریف لے گیے اور ان کی خاطر وہاں کی مسجد میں ایک چلہ کیا‘‘ (مراۃ الاسرار، ص؍۲۴۹)
’’مراۃ الاسرار‘‘ میں کتاب کی غلطی سے بالامؤ کو ’’بالہی مؤ‘‘ لکھا گیا ہے اور اسی مناسبت سے ان کے نام کے ساتھ لکھنے والوں نے ’’پالہی‘‘ کی نسبت شامل کر ڈالی اور انہیں ’’شیخ داؤد پالہی‘‘ لکھنے لگے جو کہ غلط ہے، اس لیے کہ شیخ عبدالرحمٰن چشتی اور حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے ان کا نام صرف ’’شیخ داؤد بن محمود‘‘ لکھا ہے۔
’’شیخ نصیرالدین چراغ دہلی اودھی خیرالمجالس میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت گنج شکر کے ایک بہت ہی مخلص مرید تھے، جنہیں شیخ داؤد کہتے ہیں، سلطان المشائخ نے بارہا ان کے اوصاف بیان کیے ہیں‘‘
شیخ عبدالرحمٰن چشتی نے بھی یہاں کئی بار حاضری دی اور قیام کیا، لکھتے ہیں کہ بہت پُرفیض مقام ہے، شیخ داؤد کا مزار بھی اسی مسجد کے قریب حوض کے کنارے پر واقع ہے۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 36)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.