تذکرہ حضرت شیخ جمال گوجری
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ جمال الدین گوجری اودھی، عظیم المرتبت، صاحبِ نسبت اور بڑے مقام و مرتبہ کے بزرگ تھے، پانچ واسطوں سے آپ کا سلسلۂ نسب شیخ نجم الدین کبریٰ سے مربوط ہو جاتا ہے، اپنے زہد و ورع، مجاہدہ وریاضت اور کریم النفسی و شفقت علی الخلق کی بنا پر شیخ الاؤلیا کے لقب سے مشہور تھے، شیخ احمد عبدالحق رودولوی (متوفیٰ ۸۳۷ھ) فرماتے ہیں کہ
’’از بھکر تا پنڈوہ مسافرت کردم با ہیچ مسلمانے ملاقات نہ شد الاّ در اودھ یک بچہ دیدم و اشارت بشیخ جمال کرد‘‘
ترجمہ : بھکر سے پنڈوہ تک سفر کیا مگر کسی (کامل) مسلمان سے ملاقات نہیں ہوئی، البتہ اودھ میں ایک شخص جمال گوجر کو دیکھا۔
شیخ جمال سلسلۂ فردوسیہ کے مشہور و بلند پایہ بزرگ شیخ مظفر بلخی (متوفیٰ ۸۰۳ھ) کے مرید و خلیفہ تھے اور انہیں کے حسب منشا اجودھیا میں سکونت پذیر تھے، شیخ فتح اللہ اودھی اور شاہ سید سلطان موسیٰ عاشقان اودھی آپ کے معاصرین میں تھے، حسن اتفاق سے اسی زمانہ میں شیخ احمد عبدالحق ردولوی بھی اجودھیا میں اقامت گزیں تھے، ان بزرگوں کے اجتماع سے اجودھیا دارالاؤلیا بن گیا تھا۔
مفتی غلام سرور لاہوری لکھتے ہیں کہ
’’شیخ جمال گوجری شیخ ردولوی کی مجلس کے حاضر باش اور ان کے دام محب میں گرفتار تھے‘‘
محدث دہلوی بیان کرتے ہیں کہ
’’جس زمانہ میں شیخ احمد ردولوی اجودھیا میں مقیم تھے، ان کے ساتھ ایک کتیا بھی تھی، اس نے جب بچہ جنا تو شیخ نے اس کی تقریب میں تمام اعیان و اکابر اور امراء شہر کی دعوت کی لیکن شیخ جمال گوجری کو مدعو نہیں کیا، انہیں شیخ کی اس بے اعتنائی پر حیرت ہوئی، چنانچہ دوسرے دن ان سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کل کی دعوت میں آنجناب بندہ کو بھول گیے، شیخ ردولوی نے یہ سن کر فرمایا کہ
’’جمال الدین میزبانی سنگ بود، سگاں را طلبیدیم کہ الدنیا جیفتہ و طالبہا کلاب تو از جملہ آدمیانی ترا چوں طلبم‘‘
ترجمہ : جمال الدین یہ تو کتے کی میزبانی تھی اس لیے کتوں کو دعوت دی گئی کیوں کہ (حسب ارشاد نبی پاک) دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں، تم تو ایک آدمی ہو اس میں تمہیں کیسے مدعو کر سکتا تھا۔
شفقت علی الحق کے جذبہ سے شیخ جمال الدین بسا اوقات کھچڑی کی دیگ تیار کرا کر خود اپنے سر پر لیے اجودھیا کے گلی کوچے میں گھومتے پھرتے، جہاں کہیں کوئی بھوکا مل جاتا، اسے وہ کھچڑی دے دیتے، ایک دن حسب عادت شیخ جمال کھچڑی کی دیگ سر پر لیے کسی اور طرف جانے کے بجائے اتفاقاً سید سلطان موسیٰ عاشقان کی خانقاہ میں پہنچ گیے اور دیگ شیخ عاشقان کے آگے رکھ دی، ان کے یہاں تین دن سے فاقہ چل رہا تھا، شیخ جمال کی اس بر وقت پیش کش پر سید عاشقان بیحد ممنون ہوئے اور جزاک اللہ کہتے ہوئے فرمایا کہ
’’جمال تو دیگِ طعام (برنگ گوجراں کہ سبوئے شیر بر سر گرفتہ می فروشند) گرفتہ می گردی لیکن بہ بہائے عشق می فروشی‘‘
ترجمہ : اے جمال! تم گوجروں کی طرح (جو دودھ کی ٹھلیا سرپر رکھے بیچتے پھرتے ہیں) کھانے کی دیگ سر پر لیے متے ہو لیکن (سچ تویہ ہے کہ اسے) عشق و محبت کی قیمت کے عوض فروخت کرتے ہو۔
کہتے ہیں کہ اسی دن سے شیخ جمال گوجر کے لقب سے پکارے جانے لگے اور پھر اسے اتنی شہرت ہوئی کہ نام کا جز بن گیا، آپ کی وفات ۸۵۸ھ میں ہوئی۔
مزار محلہ بکسریا ٹولہ اجودھیا میں ایک احاطہ کے اندر تھا مگر عرصہ ہوا احاطہ کی دیواریں گر کر بے نشان ہوگئی ہیں، البتہ کچھ شکستہ قبریں اب بھی موجود ہیں جن میں سے ایک کے بارے میں اجودھیا کے لوگ کہتے ہیں کہ یہی شیخ جمال اؤلیا کا مدفن ہے، واللہ اعلم۔
صاحبِ ’’گم گشتہ حالات اجودھیا‘‘ و مرتب ’’شہر الاؤلیا‘‘ دونوں نے مزار جمال اؤلیا کے عنوان سے اوپر کی تفصیلات تحریر کی ہیں لیکن یہی حضرات دوبارہ اپنی کتابوں میں مزار جمال گوجری کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں کہ
’’شاہ مظفر کی مسجد سے دکھن جانب حضرت شاہ جمال گوجری کا مزار ہے، گم گشتہ ص؍۳۹ و شہر اؤلیا ص؍۲۵۲، جب کہ جمال اؤلیا اور جمال گوجری دونوں ایک ہی بزرگ ہیں جیسا کہ خود صاحبِ گم گشتہ کی بیان کردہ تفصیلات سے بھی ظاہر ہے۔
صاحبِ گم گشتہ نے شیخ جمال کے چار خلفا کا ذکر کیا ہے، مولانا کمال الدین جو شیخ جمال کے برادر خرد تھے، ان کا مزار شیخ جمال کے مزار کے متصل ہے، شاہ جانی و شاہ درویش، ان دونوں بزرگوں کا مرقد اترولہ ضلع گونڈہ میں ہے اور چوتھے مولانا عبدالکریم اودھی جن کا مقبرہ محلہ قضیانہ اجودھیا میں ہے، مزار کے گرد پختہ چہار دیواری تھی مگر عرصہ ہوا اسی محلہ کے ایک عاقبت فراموش نے (اس دعوی سے کہ میرے دادا نے ان دیواروں کو تعمیر کیا تھا) انہیں توڑ کر ساری اینٹیں فروخت کر دیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.