تذکرہ حضرت شیخ فتح اللہ اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ فتح اللہ بن نظام الدین اپنے عہد کے زبردست عالم اور بلند پایہ شیخ تھے، نحو، فقہ، اصول فقہ میں خصوصی مہارت رکھتے تھے، ان کا آبائی وطن بدایوں تھا، تحصیل علم کی غرض سے دہلی گیے اور حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کی سرپرستی میں اساتذہ دہلی سے علوم و فنون کی تحصیل و تکمیل کی، تعلیم سے فراغت کے بعد مسند درس و افادہ کو زینت بخشی اور طویل عرصہ تک جامع مسجد دہلی متصل مینارۂ شمس (قطب مینار) میں تدریسی خدمت انجام دیتے رہے، بعد ازاں حضرت چراغ دہلی کے خلیفۂ خاص شیخ صدرالدین احمد حکیم دلہا متوفیٰ ۷۵۹ھ سے بیعت ہو کر مجاہدۂ ریاضت میں لگ گیے، ساتھ ہی تدریسی مشغلہ بھی جاری رہا لیکن مجاہدۂ بسیار و ریاضت شاقہ کے باوجود دل کی گرہیں نہ کھلیں اور سوز دروں کی جو کیفیت حاصل ہونی چاہیے تھی وہ میسر نہ ہوئی تو شیخ سے عرض حال کی، پیر و مرشد حکیم دلہا نے فرمایا تدریسی سلسلہ بند کردیں اور کتابوں کو اپنے پاس سے علاحدہ کر دیں، چنانچہ پیر روشن ضمیر کی تجویز کے مطابق درس کو موقوف کر دیا اور چند اہم و پسندیدہ کتابوں کے علاوہ پورا کتب خانہ دوسروں کے حوالہ کر دیا پھر بھی قلب معرفت کی چاشنی سے نا آشنا ہی رہا، شیخ سے دوبارہ رجوع کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علمی اشتغال سے بالکلیہ انقطاع نہیں ہوا ہے کہ ’’العلم حجاب الاکبر‘‘ جب تک یہ پردہ درمیان میں حائل ہے، معرفرت کی روشنی قلب تک نہیں پہنچ سکتی پھر دیکھنے والوں نے دیکھا شیخ فتح اللہ ان عمدہ کتابوں کو جنہیں حرز جان بنائے ہوئے تھے، ان کے ایک جزو کو الگ کرکے پانی کے کنارے بیٹھے انہیں دھو رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔
’’او را دیدند کہ برلبِ آبے نشست اجزا را می شست و آب از چشم او می رفت‘‘
بالآ خر لوح دل ما سوی اللہ کے نقش سے بالکل صاف ہوگئی، نور معرفت سے سینہ جگمگا اٹھا اور حضرت حکیم دلہا نے خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔
مقام ارشاد پر فائز ہونے کے بعد حضرت چراغ دہلی اور اپنے پیر و مرشد کے منشا سے اجودھیا تشریف لائے اور حضرت چراغ دہلی کے آبائی مکان میں فروکش ہوئے جسے حضرت چراغ دہلی نے ان کی تحویل میں دے دیا تھا، شیخ فتح اللہ زندگی کے آخری لمحے تک اسی مکان میں رہے جو رہائشی کا کام بھی دیتا تھا اور بندگانِ خدا کی اصلاح و تربیت کے لیے خانقاہ کا بھی، شیخ فتح اللہ کا ہندوستان کے مشائخ کبار میں شمار ہوتا ہے، ان کے فیض تربیت سے ہزاروں گم کردہ راہ صراط مستقیم سے آشنا ہوئے، شیخ محمد عیسیٰ تاج جونپوری، شیخ سعدالدین اودھی، شیخ قاسم اودھی، شیخ درویش اودھی جیسے بلند مرتبہ مشائخ چشت ان کے دامن تربیت سے وابستہ اور مرید و خلیفہ تھے۔
مفتی غلام سرور لاہوری لکھتے ہیں کہ
’’از کاملینِ وقت گشت و ہزارہا طالبان حق را بحق رسانید، چنانچہ شیخ قاسم دہلوی (اودھی) از خلفائے وے است ونیز شیخ محمد عیسیٰ تاج جونپوری مرید و خلیفہ او بود‘‘
شیخ احمد عبدالحق رودولوی (متوفیٰ ۸۳۷ھ) بھی شیخ اودھی کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئے تھے لیکن شیخ رودولوی مشرب عشق و محبت کے دلدادہ تھے اور شیخ فتح کی روشن زہد و فقر اور تسلیم و رضا کی تھی اس لیے مناسبت پیدا نہ ہوسکی، اسی موقع پر شیخ رودولوی نے اجودھیا میں کئی ماہ قیام کرکے چلہ کشی کی تھی۔
شیخ فتح اللہ جب دہلی سے رخصت ہو کر اجودھیا کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو ان کے شیخ حضرت حکیم دلہا نے اپنے دو صاحبزادوں شیخ یحییٰ و شیخ نور کو بغرض تعلیم و تربیعت ان کے حوالے کر دیا تھا، شیخ اودھی نے دونوں مخدوم زادوں کو علوم ظاہر و باطن سے آراستہ کرکے بغرض دعوت و تبلیغ اجودطیا سے جانب مشرق ۳۰؍۳۵ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک آبادی میں بھیج دیا، جہاں پہنچ کر ان دونوں حضرات نے مستقل سکونت اختیار کر لی، یہ مقام آج کل ’’اونچا گاؤں‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اسی موضع میں دونوں حضرات کے مزارات ہیں اور ان کی اولاد اب بھی یہاں موجود ہے۔
یہ ناچیز رضی احمد کمال جو اس کتاب کا مصنف، اسی اونچا گاؤں کا رہنے الا اور شیخ یحییٰ کی نسل سے ہے، میرا شجرۂ نسب شیخ صدرالدین حکیم دلہا تک یہ ہے۔
رضی احمد کمال بن مولانا عزیز احمد بن محمد فاروق بن الٰہی بخش بن محمد اشرف بن راحت علی بن عباداللہ بن خدا بخش بن محمد ہادی بن محمد زاہد بن اللہ دیا بن ابو بکر بن عبدالملک بن مخدوم یحییٰ بن شیخ صدرالدین حکیم دلہا۔
۲۶؍ ربیع الاول ۸۲۱ھ کو شیخ فتح اللہ کا وصال ہوا، مزار اجودھیا میں ہے، مکاتیب شیخ فتح اللہ کے نام سے ایک مجموعہ کسی مرید نے جمع کیا تھا جو شائع بھی ہوا مگر اس وقت نایاب ہے، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بعض مکاتیب کے اجزا اخبار میں نقل کیے ہیں۔
شیخ اودھی کا مقبرہ محلہ چراغ دہلی (موجودہ عالم کڑا) اجودھیا میں خود انہیں کی خانقاہ کے احاطہ میں ہے، مزار آج بھی موجود ہے اور اچھی حالت میں ہے مزار اور خانقاہ کی مرمت حسب تصریح صاحب ’’گم گشتہ حالاتِ اجودھیا‘‘ اب تک تین بار ہوچکی ہے، سب سے پہلے واجد علی ناظم اودھ نے اس کی شکست و ریخت کو درست کرائی، کچھ دنوں کے بعد خانقاہ کا ایک حصہ گرگیا تو شیخ رمضان علی تاج فیض آباد نے اس کی مرمت کرائی اور گرے حصہ کو از سر نو تعمیر کرا دیا پھر تیسری بار ۱۳۳۵ھ مطابق ۱۹۱۶ء میں خواجہ برکت اللہ اعظم گڑھی نے مرمت کرائی اور خانقاہ و مزار کے اردگرد چہار دیواری قائم کردی اور خانقاہ کی مسجد کی مرمت ڈیڑھ صدی قبل سید محمد بخش کرنالی رسالدار نے کرئی تھی، اس کے ایک عرصہ کے بعد رسالدار موصوف کے برادرزادہ سید جعفر کرنالی نے دوبارہ اس کی اصلاح و مرمت کرائی۔
خانقاہ کے احاطہ کی مشرقی دیوار کے متصل آپ کے خلیفۂ خاص شیخ قاسم اودھی کا مدفن ہے، شیخ قاسم بن برہان الدین دہلوی اودھی عالم و فقیہ اور ولی کامل تھے، سلوک کی تحصیل بپلے اپنے والے شیخ برہان الدین سے کی پھر شیخ فتح اللہ اودھی کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے اور انہیں کی رہنمائی میں طریقت کی راہیں طے کر کے درجۂ ارشاد و تلقین کو پہنچے۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 69)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.