Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت شیخ شمس الدین اودھی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

تذکرہ حضرت شیخ شمس الدین اودھی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

MORE BYڈاکٹر رضی احمد کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت شیخ شمس الدین فریادرس بن نظام الدین اودھی مشہور مشائخ ہند میں ہیں، علوم دینیہ کی تحصیل مولانا رفیع الدین اودھی سے کی اور طویل عرصہ تک ان کی خدمت میں رہے، تعلیم سے فراغت کے بعد انہیں سے بیعت بھی ہوگیے تھے، بعد میں حضرت شیخ اشرف سمنانی کچھوچھوی کی جانب رجوع کیا اور انہیں سے خلافت پائی، آپ مخدوم سید اشرف کچھوچھوی کے خلفائے کبار میں شمار ہوتے ہیں۔

    ’’لطائفِ اشرفی‘‘ میں ہے کہ شیخ سمنانی فرماتے تھے کہ

    ’’اشرف شمس و شمس اشرف است‘‘

    ترجمہ : دونوں حقیقتاً ایک جان اور ظاہراً دو قالب ہیں۔

    اس سے شیخ شمس الدین کے درجہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ’’لطائفِ اشرفی‘‘ میں یہ تفصیل بھی مذکور ہے کہ جب مخدوم سمنانی پہلی مرتبہ کچھوچھہ تشریف لائے تو اپنے احباب و اصحاب سے فرمایا کرتے تھے کہ

    ’’اجودھیا سے دوست کی خوشبو آ رہی ہے‘‘

    کچھ عرصہ کے بعد آپ اجودھیا کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر حسب عادت ایک مسجد میں قیام پذیر ہوئے، آپ کی آمد کی خبر پا کر شہر کے علما و اکابر خدمت میں حاضر ہوئے، ان حاضرین میں شمس الدین ایک نوجوان بھی تھا جو علوم دینیہ کی تکمیل کرچکا تھا اور اب کسی شیخ کامل کی اسے ضرورت تھی، مخدوم سمنانی نے اس جوان کو دیکھتے ہی فرمایا کہ

    ’’شمس الدین میں تمہاری تلاش میں یہاں آیا ہوں‘‘

    الحاصل انہیں بیعت کرکے اور اوراد و وظائف کی تلقین کی اور خلوت میں بیٹھنے کا حکم دیا، شیخ شمس الدین نے مرشد کی ہدایت کے مطابق عمل کیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور شیخ کی توجہ خاص کی بدولت سلوک کے مراحل بہت جلد طے کر لیے، تکمیل کے بعد شیخ نے اپنی خلافت سے نوازا، اس عرصہ میں شیخ سمنانی اجودھیا ہی میں مقیم رہے، شیخ شمس الدین کو درجہ کمال تک پہنچانے کے بعد یہاں سے روانہ ہوئے اور سدھور، لکھنؤ جائس ہوتے ہوئے کچھوچھہ واپس آ گیے۔

    شیخ سمنانی کی واپسی کے کچھ عرصہ بعد اجودھیا کے منصب دار ’’سیف اللہ خان‘‘ اپنے ندیموں کے ساتھ کچھوچھہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی بزرگی و جلالت شان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی سفر میں آپ سے بیعت ہوگیے، کچھ دن خانقاہ میں قیام کے بعد جب واپس جانے لگے تو شیخ سے درخواست کی کہ اہل اجودھیا کی اصلاح کے لیے آپ کی دعوت و ارشاد کا ایک مرکز خود اجودھیا میں بھی ہونا چاہیے، چنانچہ ان کے اصرار پر شیخ سمنانی نے ایک خانقاہ اجودھیا میں بھی قائم کی اور اپنے محبوب خلیفہ شیخ شمس الدین کو اپنا جانشیں بنا کر اہل اجودھیا کی اصلاح و تربیت کی خدمت ان کے سپرد کی، شیخ شمس الدین اسی خانقاہ میں بیٹھ کر زندگی بھر تہذیب اخلاق و تذکیہ نفوس کی اہم خدمت انجام دیتے رہے۔

    قلب کی طہارت اور روح کی پاکیزگی نے شیخ شمس الدین کی دعاؤں میں ایسی تاثیر پیدا کر دی تھی کہ جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کے آگے دست دعا دراز کرتے، خدائے قاضی الحاجات اسے پورا کر دیا کرتا تھا، اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر عوام و خواص میں ’’فریاد رس‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگیے تھے، صاحبِ بحر ذخار شیخ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ

    ’’شیخ شمس الدین فریادرس کے لقب سے مشہور ہوئے، ان کا مزار اجودھیا میں مرجع خلائق ہے‘‘

    حسب تحقیق مولوی عبدالکریم اودھی چمنستان اجودھیا کا یہ گل تازہ اپنے شیخ و مرشد کی حیات ہی میں ۷؍ محرم ۷۹۰ھ یوم جمعہ کو اس جہان کو الوداع کہہ کر راہی باغ رضواں ہوا، لیکن مولانا عبدالحیٔ حسنی کے اس جملہ ’’تصدر للارشاد بعدہ‘‘ یعنی مخدوم سمنانی کے بعد مسند ارشاد کے صدر نشیں ہوئے، سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ شمس الدین مخدوم سمنانی کے بعد نہ صرف حیات رہے بلکہ ان کی اصلاحی سرگرمیاں حضرت مخدوم کی وفات کے بعد ہی بام عروج پر پہنچیں، اس لیے یہ بات تحقیق طلب ہے۔

    آپ کا مزار محلہ بکسر ٹولہ اجودھیا میں ایٹوا تالاب (موجودہ ستیہ ساگر) کے گوشۂ شمال مغرب بلندی پر واقع ہے، اب سے پچاس سال پہلے مزار کے چاروں سمت پختہ چہار دیواری تھی مگر شکست و ریخت کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مغربی دیوار زمیں بوس ہوگئی ہے اور بقیہ تین جانب کی دیواریں بھی نہایت خستہ و بوسیدہ ہوگئی ہیں۔

    ’’گم گشتہ حالاتِ اجودھیا‘‘ کے مصنف کا بیان ہے کہ

    ’’مقبرہ کی مرمت اور اس کے دیگر مصارف کے واسطے سلاطین دہلی نے ستر بیگھہ اراضی بطور معافی دی تھی مگر جن صاحب کے نام سند معافی تھی، ان کی ناخلف اولاد نےنہ صرف مقبرہ کی اس معافی کو اپنی ذاتی جاگیر بنا لیا بلکہ مزار کے احاطہ میں مولسری وغیرہ کے جو پرانے درخت تھے انہیں بھی بیراگیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور قیمت ذاتی مصارف میں خرچ کر ڈالی، انہیں لوگوں کے استحصال سے آج مقبرہ بالکل ویران ہے‘‘

    یہ تربت ماتمی ہے ان حجازی شہ سواروں کی

    مسلمانوں نے مٹی بیچ لی جن کے مزاروں کی

    شیخ شمس الدین نے اپنے پیچھے مرید و مسترشدین کی ایک کثیر جماعت کے علاوہ تین صاحبزادے چھوڑے، شیخ بدیع الدین جن کی نسل سے موضع کولا ضلع فیض آباد کے شیوخ ہیں، دوسرے شیخ جہاں گیر ان کے صاحبزادے شیخ علاؤالدین تھے جن کے نام پر موضع علاؤالدین پور ضلع فیض آباد آباد ہوا، یہاں شیخ علاؤالدین کی اولاد بھی ہے اور مزار بھی تیسرے صاحبزادے شیخ احمد تھے جن کے متعلق کچھ صحیح تفصیل معلوم نہ ہوسکی۔

    مأخذ :
    • کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 65)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے