تذکرہ حضرت شیخ علاؤالدین نیلی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ علاؤالدین نیلی اودھی اپنے وقت کے زبردست عالم دین اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے، شیخ الاسلام فریدالدین اودھی شافعی کے تلمیذ اور شیخ شمس الدین یحییٰ اودھی کے رفیق درس تھے، تفسیر کشاف کی تعلیم کے وقت قرأت یہی کرتے تھے، شیخ شمس الدین اور دیگر رفقائے درس سامنے ہوگیے تھے۔
کشاف اور مفتاح العلوم کی توضیح و تشریح میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، آپ کی تقریر انتہائی دل نشیں اور مؤثر ہوتی تھی، بڑے بڑے علما و فضلا آپ کی تقریر کے دلدادہ تھے، تحصیل علوم سے فراغت کے بعد سلطان المشائخ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگیے تھے اور شیخ کے اہم خلفا میں شمار ہوتے تھے، سلطان المشائخ کی خصوصی مجلسوں میں تصوف کے اسرار ور موز پر بحکم شیخ آپ کی تقریریں ہوا کرتی تھیں۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ کے مطابق ہر جمعہ کو آپ کا عمومی وعظ ہوا کرتا تھا جس کی اثر انگیزی کا یہ عالم ہوتا کہ سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی اور بعض توبے ہوش تک ہو جاتے تھے، ابن بطوطہ اپنا چشم دید واقعہ لکھتا ہے کہ میں ایک مرتبہ ان کی مجلس وعظ میں حاضر تھا، قاری نے قرآن مجید کی آیت۔
’’یا یھا الناس اتقو ربکم ان زلزلۃ الساعۃ شیٔ عظیم‘‘
کی تلاوت کی، بعد میں مولانا نیلی نے اسی آیت کو پڑھا جسے سن کر مسجد کے گوشہ سے ایک شخص کی چیخ بلند ہوئی، مولانا نے پھر اسی آیت کی تلاوت کی، اس شخص نے دوبارہ چیخ ماری اور اسی کے ساتھ جاں بحق ہوگیا ابن بطوطہ کہتا ہے کہ میں اس مرد حق آگاہ کی تجہیز و تکفین اور جنازے میں شریک رہا۔
مولانا نیلی کے مزاج میں بے پناہ تواضع تھی، تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے اور سلطان المشائخ کے اہم ترین خلفا میں شمار ہونے کے باوجود نہ صوفیانہ خرقہ زیب تن کیا اور نہ مدت العمر کسی کو مرید بنایا، کہتے تھے کہ اگر حضرت شیخ حیات ہوتے تو اس خلاف نامہ کو حضرت کی خمدت میں پیش کرکے مؤدبانہ عرض کرتا کہ حضرت نے اگر چہ از راہ بندہ نوازی اس عاجز کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمایا ہے مگر بندہ اپنے اندر اس بار امانت کے اٹھانے کی طاقت نہیں پاتا۔
آخر عمر میں سلطان المشائخ کے ملفوظات ’’فوائدالفواد‘‘ مرتبہ حسن سنجری کا ایک نسخہ دستِ خاص سے لکھ کر اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا، اور اکثر اوقات اسی کے مطالعہ میں مشغول رہتے تھے، لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے پاس ہر علم و فن کی مستند و معتبر کتابیں موجود ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ صرف ’’فوائدالفواد‘‘ ہی کا مطالعہ کرتے ہیں؟ فرمایا سلوک اور دیگر فنون کی کتابوں سے دنیا بھری ہے لیکن سلطان المشائخ کے ملفوظات روح افزا جن سے میری نجات وابستہ ہے، کہاں ملیں گے۔
مرا نسیم تو باید صبا کجا است کہ نیست
کجا ست زلف تو مشک خطا کجا است کی نیست
بالآخر اپنے عہد کا یہ مرد کامل اور عالم بے بدل حیات مستعار کے دن پورے کر کے ۷۶۲ھ میں رہ گرائے عالم جاودانی ہوا اور سلطان المشائخ کے مقبرہ کے احاطہ میں اپنے خواجہ تاش رفیق درس اور ہم وطن شیخ شمس الدین محمد بن یحییٰ اودھی کے جوار میں ابدی نیند سو رہا ہے۔
’’گم گشتہ حالاتِ اجودھیا‘‘ اور ’’شہر اؤلیا‘‘ کا یہ بیان درست نہیں ہے کہ آپ کا مزار اجودھیا کے مشہور قبرستان ’’خرد مکہ‘‘ میں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ اس مقبرہ میں شیخ علاؤالدین حسینی، ان کے صاحبزادے شیخ ماہ رو اور ان کی اولاد امجاد کی قبریں ہیں، نام کی یکسانیت سے یہ غلطی ہوگئی ہے۔
سردست مولانا نیلی کی صرف ایک تصنیف ’’مامقیماں‘‘ کا پتہ چل سکا ہے، ما مقیماں فارسی زبان کی مشہور ترجیع بند مثنوی ہے اور ایک عرصہ تک مدارس کے نصاب درس میں شامل رہی ہے اور اب بھی بعض مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے، آپ کے حالات سیرالاؤلیا، اخبارالاخیار، خزینۃ الاصفیا، بحر ذخار (قلمی)، نزہۃ الخواطر (ج؍۲)، تاریخ مشائخ چشت وغیرہ میں مذکور ہیں۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 60)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.