تذکرہ حضرت شیخ نصیرالدین اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ نصیرالدین محمود بن یحییٰ بن عبداللطیف معروف بہ ’’چراغ دہلی‘‘ کا مولد اور آبائی وطن اجودھیا ہی ہے، آپ زبردست عالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے سرتاج اؤلیا تھے، آپ کا سلسلۂ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے۔
شیخ نصیرالدین محمود بن یحییٰ بن عبداللطیف بن یوسف بن عبدالرشید بن سلیمان بن احمد بن یوسف بن محمد بن شہاب الدین بن سلطان بن اسحاق بن مسعود بن عبداللہ بن واعظ اصغر بن واعظ اکبر بن اسحاق بن شیخ ابراہیم بن ادھم بلخی بن سلیمان بن ناصر بن حضرت عبداللہ بن عمر فاروق۔
حضرت شیخ نصیرالدین کے دادا شیخ عبداللطیف نے اپنے آبائی وطن یزد سے ہجرت کر کے لاہور میں سکونت اختیار کرلی تھی پھر آپ کے والد شیخ یحییٰ نے لاہور کی وطنیت ترک کر کے اجودھیا کو اپنا مسکن بنا لیا، اجودھیا ہی میں شیخ نصیرالدین کی ولادت ہوئی، ابھی عمر کی صرف نو بہاریں ہی دیکھ پائے تھے کہ والد ماجد کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگیے، اس لیے والدہ ماجدہ کی زیر نگرانی تعلیم و تحصیل کا سلسلہ شروع کیا، ابتدا سے لے کر ہدایہ تک کی کتابیں مولانا عبدالکریم شیروانی سے پڑھیں، اس کے بعد مولانا افتخارالدین محمد گیلانی کے حلقہ درس میں شامل ہوگیے، ان ہر دو اساتذہ کے علاوہ شیخ فخرالدین ہانسوی، قاضی محی الدین کا شانی اور شیخ شمس الدین یحییٰ اودھی سے بھی آپ کو شرف تلمذ حاصل ہے، ۲۵ برس کی عمر میں علوم متداولہ کی تحصیل سے فارغ ہوگیے۔
تعلیمی مشغلہ سے فراغت کے بعد عبادت و ریاضت کا جذبہ پیدا ہوا اس لیے مکان ہی میں عزلت نشیں ہو کر ذکر و اوراد میں مشغول رہنے لگے پھر چالیس سال کی عمر میں اجودھیا سے رخت سفر باندھا اور دہلی جا کر حضرت سلطان المشائخ کے حلقہ بگوش ہوگیے بالآخر حضرت سلطان المشائخ نے اپنی خلافت سے سرفراز فرما کر چراغ دہلی کے لقب سے امتیاز بخشا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ
’’ایک دن شیخ نصیرالدین نے امیر خسروؔ کے ذریعہ حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ بندہ اودھ (اجودھیا) میں رہتا ہے لیکن وہاں لوگوں کے ازدحام اور کثرت آمد و رفت کی وجہ سے ذکر و مراقبہ میں خلل پڑتا ہے، اگر اجازت ہو تو کسی جنگل میں تنہا رہ کر یاد حق میں مشغول رہوں، سلطان المشائخ نے امیر خسروؔ سے فرمایا کہ ’’نصیرالدین سے کہہ دو ’’ترا درمیان خلق می باید بود و جفائےخلق می باید کشید و مکافات بہ بذل وعطامی باید کرد‘‘
ترجمہ : تمہیں خلق خدا کے درمیان رہنا اور ان کے جور و ستم سہنا چاہیے اور ان کی زیادتیوں کا بلدہ داد و دہش سے دینا چاہیے۔
پیر و مرشد کے اس فرمان پر شیخ نصیرالدین آخردم تک عمل پیرا رہے اور ہر ظلم و ستم و جور و جفا کا استقبال خندہ پیشانی کے ساتھ کیا، سلطان محمد بن تغلق نے انہیں طرح طرح سے پریشان کیا اور اذیتیں دیں جس کی کچھ تفصیل سیرالاؤلیا میں دیکھی جا سکتا ہے، لیکن دہلی کا یہ روشن چراغ ظلم و جبر کے تیز و تند طوفانوں کی زد میں بیٹھ کر اپنی ضیا پاشیوں سے ظلمت کدہ ہند کو منور کرتا رہا اور پیر و مرشد نے آپ سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں، اپنا خون جگر دے کر انہیں پورا کر دکھایا۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ فقر و صبر اور تسلیم و رضا کے پیکر اور مہر و محبت کے مجسمہ تھے، سخت سے سخت ناگوار اور اذیت ناک برتاؤ کو نہ صرف مسکراتے ہوئے برداشت کر لیتے تھے بلکہ اس کے عوض ایثار و مروت اور حسن سلوک کا معاملہ فرماتے تھے، ان کی بلندیِ اخلاق کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ کے مجموعہ ملفوظات خیرالمجالس میں ذکر کیا گیا ہے، تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ
ایک دن بعد نماز ظہر حجرہ میں تنہا بیٹھے تھے، موقع پا کر ’’تراب‘‘ نامی ایک قلندر اندر گھس گیا اور نہایت بیدردی کے ساتھ چاقو سے آپ پر وار کرنا شروع کر دیا، آپ کے جسم پر بارہ زخم لگائے مگر آپ نے بالکل مزاحمت نہیں کی، جسم سے خون نکل کر نالی کے راستہ باہر بہنے لگا، جسے دیکھ کر مریدین گھبرائے اور اندر جا کر دیکھا تو ان کی نگاہوں کے سامنے یہ منظر تھا کہ یہ بیباک قلندر شیخ کو چاقو سے مار رہا ہے اور شیخ ساکت اور خاموش بیٹھے ہیں، مریدین نے اسے پکڑ کر سزا دینی چاہی لیکن شیخ نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی، قلندر کو اپنے پاس ہی روک لیا اور اپنے مرید خاص مولانا عبدالمقتدر تھانیسری، شیخ صدالدین طبیب اور خادم خاص و بھانجہ شیخ زین الدین علی کو اپنے پاس بلا کر قسم لی کہ قلندر کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچائیں گے پھر قلندر کو بیس تنکہ (اس عہد کا سکہ) یہ کہہ کر عطا فرمایا کہ شاید چاقو مارنے میں ہاتھ کو تکلیف پہنچی ہو۔
تسلیم و رضا اور مہر وفا کا یہ تاجدار ۱۸؍ رمضان المبارک ۷۵۷ھ مطابق ۱۳۵۹ کو پیوند خاک ہوگیا۔
حضرت سلطان المشائخ کے دامن سے وابستگی کے بعد اگر چہ اجودھیا سے بود و باش کا تعلق باقی نہیں رہا تھا پھر بھی اس سر زمین سے کسی نہ کسی حد تک رابطہ قائم رہا اور گاہے بگاہے اعزا و اقربا سے ملاقات کے لیے یہاں آتے رہتے تھے۔
غلام سرور لاہوری لکھتے ہیں کہ
’’صاحب اخبارالاؤلیا می فرمایند کہ شیخ نصیرالدین را در خطہ اودھ خواہرے بود ازوے کلاں و عفیفہ زماں او نیزد و پسر داشت یک مولانا زین الدین علی، دوم کمال الدین حامد، شیخ نصیرالدین گاہ گاہ از حضرت شیخ اجازت گرفتہ برائے زیارت ہمشیرہ مکرمہ در اودھ تشریف بردے و بعد حصول ملاقات دے باز آمدے‘‘
ترجمہ : اخبارالاؤلیا کے مؤلف لکھتے ہیں کہ شیخ نصیرالدین کی عفت مآب بڑی بہن اجودھیا میں رہتی تھیں، ان کے دو صاحبزادے مولانا زین الدین علی اور مولانا کمال الدین حامد تھے (مولانا کمال الدین کا تذکرہ گذشتہ صفحات میں آچکا ہے (شیخ نصیرالدین ہمشیرہ کی ملاقات کی غرض سے بہ اجازت حضرت سلطان المشائخ اجودھیا تشریف لاتے اور ملاقات کے بعد پھر دہلی واپس لوٹ جاتے تھے۔
اجودھیا ریلوے اسٹیشن سے تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر جانب مغرب و شمال شیخ نصیرالدین کی ایک ہمشیرہ کا مزار ہے جسے عوام عقیدت و احترام میں ’’بڑی بوا‘‘ کا تبرہ کہتے ہیں، لیکن یہ تحقیق نہیں ہوسکی کہ یہ انہیں خواہر کلاں عفیفۂ زماں کا مزار ہے، یا کسی دوسری بہن کا البتہ بڑی بوا کے عرفی نام سے ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ یہ انہیں ہمیشرہ کلاں کا مزار ہے جن کی ملاقات کے لیے شیخ دہلی کی طویل مسافت طے کرکے اجودھیا آتے تھے، اسی مقبرہ کے قریب اجودھیا اور فیض آباد کے مسلمانوں نے بڑی بوا کے نام سے ایک یتیم خانہ بھی جاری کیا ہے جس میں تیتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کا مفت انتظام ہے۔
کوشلیا گھاٹ اور محلہ مدار کے درمیان جو آبادی ہے، وہ گاج سے پچاس سال پہلے تک محلہ چراغ دہلی سے موسوم تھی مگر آج کل اسے عالم گنج کٹرہ کہتے ہیں، اسی محلہ میں شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کا آبائی مکان تھا جسے بعد میں آپ نے شیخ فتح اللہ اودھی کو دے دیا تھا، شیخ فتح اللہ اسی مکان میں رہتے تھے اور اسی کے متصل ان کا مزار بھی ہے۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 55)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.