تذکرہ حضرت شیخ تقی الدین علم بخش
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ تقی الدین علم بخش اودھی اپنے عہد کے علمائے کبار و مشائخِ عظام میں سے تھے، شیخ داؤد محمود (متوفیٰ ۶۸۰ھ) خلیفہ شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر کے بھائی چراغ دہلی کے ماموں تھے، گم گشتہ حالات اجودھیا میں مولوی عبدالکریم اودھی (متوفیٰ ۱۳۰۸ھ) نے شیخ تقی الدین کو بھی شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر کا خلیفہ لکھا ہے مگر یہ بات غلط ہے، دوسرے حوالوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گنج شکر کے مرید تھے نہ کہ خلیفہ، مثلاً ’صاحبِ ’’لطائفِ اشرفی‘‘ فرماتے ہیں کہ شیخ داؤد محمود کے بھائی تھے جن کا نام ’’مولانا تقی الدین تھا‘‘ وہ بھی حضرت گنج شکر کے مرید تھے‘‘۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی آپ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ
’’بغایت متقی بود، کار او آں بود کہ کتاب او ردائے داشت آں را می گرفت و در آخر شب از خانہ بیروں می آمد، تمام روز در جائے مشغول می بود چوں پارۂ از شب می گزشت بخانہ می آمد‘‘
ترجمہ : بڑے متقی تھے، ان کا معمول تھا کہ اپنی وظائف کی کتاب لے کر رات کو پچھلے پہر آبادی سے باہر نکل جاتے اور پورے دن وہیں یادِ الٰہی میں مشغول رہتے اور کچھ رات گیے وہاں سے گھر واپس ہوتے۔
آپ کے بھائی شیخ داؤد کے بارے میں شیخ نصیرالدین چراغ دہلی لکھتے ہیں کہ شیخ داؤد نماز فجر کے بعد جنگل میں چلے جاتے اور وہیں دن بھر عبادت حق میں مستغرق رہتے، ممکن ہے شیخ تقی الدین نے اپنے بھائی سے ہی یہ طریقہ اخذ کیا ہو۔
جس خوش قسمت کو آپ کے آگے زانوئے ادب تہ کرنے کی توفیق مل جاتی، وہ ان کی انفاس قدسیہ کی برکت سے علم کی دولت سے مالا مال ہو جاتا تھا، اس لیے لوگ آپ کو علم بخش کہا کرتے تھے۔
مولوی عبدالکریم اودھی اپنے والد مولوی عبدالرؤف کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ
’’والد ماجد کہا کرتے تھے کہ میرے بچپن کے وقت تک طلبہ اور شائقین علم پنجشنبہ کو آپ کے مزار پر حاضر ہو کر ترقی علم و افزائش حفظ کی دعائیں مانگا کرتے تھے‘‘
ماہ رجب ۷۲۶ھ میں آپ نے دنیا کو الوداع کہا، مزار اجودھیا میں ایٹوا تالاب (جو اس وقت ستیہ ساگر کے نام سے مشہور ہوگیا ہے) کے اوپر ہے۔
لطائفِ اشرفی کی اس نشاندہی کی بنیاد پر اس وقت آپ مزار تک پہنچنا چاہیں تو کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے، کیوں کہ یہ بیان اب سے تقریباً ساڑھے چھ سو سال پہلے کا ہے، اگر چہ ایٹوا تالاب نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی سہی، اب بھی موجود ہے مگر اس کے حدود اربعہ یکسر بدل چکے ہیں اور ایک ایٹوا تالاب کی کیا تخصیص ہے، اب تو پورے اجودھیا کے آسمان و زمین کچھ سے کچھ ہوگیے ہیں، اس لیے اس مردِ کامل کے مزار تک پہنچنے کے لیے درج ذیل تفصیلات پیش نظر رکھنی ہوں گی۔
محلہ نوگزی (اس محلہ میں وہ قدیم قبرستان ہے جو نبی نوح سے موسوم ہے اور اسی قبرستان میں وہ مشہور معروف قبر ہے جو نوگزی کہی جاتی ہے، مگر پیمائش میں چودہ گز سے زیادہ لمبی ہے، اسی قبر کے نام پر یہ محلہ نوگزی کہلاتا ہے) سے جانب مشرق تقریباً ۳۰،۳۲ میٹر کے فاصلے پر ’’کیوڑا مسجد‘‘ ہے، مسجد کی پشت سے ایک راستہ اتر کو جاتا ہے، اس راستہ کو تھوڑی دور طے کرنے کے بعد ایک سڑک ملے گی، اس سڑک سے پورب جانب ۲۲،۲۰ میٹر چلنے پر ’’چھوٹی کٹیا‘‘ نامی ایک مندر ملے گا، یہ مندر ایک وسیع احاطہ کے اندر ہے، احاطہ میں داخلہ ایک بلند پھاٹک سے ہوتا ہے، پھاٹک میں داخل ہوتے ہی پھاٹک سے متصل داہنے ہاتھ پر ایک چبوترے پر آپ کو ایک قبر نظر آئے گی، یہی حضرت شیخ تقی الدین علم بخش اودھی کی آرم گاہ ہے، مندر کا یہ احاطہ آج سے ایک صدی قبل مسلمانوں کا قبرستان تھا، جس میں بے شمار قبریں تھیں مگر اب شیخ تقی الدین کے علاوہ کسی قبر کا نام و نشان باقی نہیں ہے ’’مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے‘‘۔
قبر اگر چہ کافی بوسیدہ ہوگئی ہے مگر مندر کے پجاری اس پر سفیدی کراتے رہتے ہیں اور قبر کے ارد و گرد حصے کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مندر کے بیراگیوں کے دل میں اس کی عزت و حرمت باقی ہے، اگر کوئی بوھلے بھٹکے برائے فاتحہ درگاہ علم بخش کی تلاش میں ادھر آجاتا ہے تو بچاری اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور اسے مزار تک پہنچا دیتے ہیں۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 37)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.