تذکرہ حضرت شیخ شمس الدین اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
شیخ شمس الدین محمد بن یحیٰ اودھی آٹھویں صدی ہجری کے علما میں علمی تبحر، زہد و تقویٰ اور درس افادہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، سید محمد علوی (میر خرد) لکھتے ہیں کہ
’’کار علم و تبحر خدمت مولانا رحمۃ اللہ علیہ بجائے کشید کہ اوستادانِ شہر بخدمت ایں بزرگ بزانوئے ادب بنشستند و تلمذ کردند۔۔۔بیشتر علمائے شہر منسوب بشاگردیٔ ایں بزرگ اند و سند علم ہائے ظاہری و تحقیق دینی نسبت بداں بزرگ کنند و فخر و مباہات بمجلس رفیع آں بزرگ دانند، کسے کہ بہ شاگردئی ایں بزرگ منسوب است میانِ علما بغایت معظم و مبجل و مکرم است‘‘
ترجمہ : مولانا کا علمی مقام اس درجہ کو پہنچا ہوا ہے کہ دہلی کے اساتذہ ان کے سامنے زانوئے ادب بچھاتے ہیں، دہلی کے اکثر علما ان کے شاگرد ہیں اور علوم و فنون و تحقیقات دینیہ میں مولانا سے استفادہ کرتے ہیں اور آپ کی علمی مجلس کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں، جسے بھی آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہو جاتا ہے تو وہ علما میں نہایت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
خواجہ تاش اور تلمیذ رشید شیخ نصیرالدین چراغ دہلی (متوفیٰ ۷۵۷ھ) نے آپ کی علمی سرگرمیوں کی مدح سرائی ان الفاظ میں کی ہے۔
سألت العلم من احیاک حقا
فقال العلم شمس الدین یحییٰ
میں نے علم سے پوچھا کہ واقعتاً (اس زمانہ میں) تجھے کس نے زندگی عطا کی تو علم نے جواب دیا شمس الدین یحییٰ نے۔
آزادؔ بلگرامی اپنے محتاط انداز میں یوں رقم طراز ہیں کہ
’’ثم اقام مولانا شمس الدین فی ظل شیخہ بدھلی فافا دسوادھا الا عظم بالدتدریس و من علی العالم الدراسۃ بالتاسیس و انتھت الیہ ریاسۃ التدریس بدار الخلافۃ‘‘
بعد ازاں اپنے شیخ (نظام الدین اؤلیا) کے زیر سایہ دہلی میں مقیم ہوگیے اور درس و تدریس کے ذریعہ دہلی میں ایک بہت بڑی جماعت کو علم کی روشنی سے منور کر دیا اور تدریسی مشغلہ میں استحکام پیدا کر کے اس پر احسان فرمایا، دارالخلافہ دہلی میں تدریس کی ریاست آپ پر ختم ہوگئی۔
شیخ شمس الدین اودھی نے علوم و فنون کی تحصیل شیخ الاسلام فریدالدین شافعی اودھی اور شیخ ظہیر الدین بھکری وغیرہ اساتذہ سے اودھ اور دہلی میں کی تھی، تکمیل درس کے بعد سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں رہ کر سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں اور خلافت سے مشرف ہوئے، سلطان المشائخ نے جو خلافت نامہ عطا فرمایا تھا، اس پر کتابت کی تاریخ ۲۰؍ ذی الحجہ ۷۲۴ھ درج ہے، سلطان المشائخ خلافت نام میں لکھتے ہیں کہ
’’ثم ان الولد الاعز التقی والعالم المرضی المتوجہ الی رب العالمین شمس الملۃ والدین محمد بن یحیٰ افاض اللہ الواحد انوارہ عی اھل التقوی والیقین، لما صح مقصدہ الینا ولبس خرقۃ الاراۃ واستوفیٰ حظہ من صحبتنا اجزت لہ اذا، استقام علی اتباع سیدالکائنات و استغرق الاوقات بالطاعات و دافت القلوب عن ہوا جس النفس الخطرات و اعرض الدنیا و اسبابھا و لم یرکن الی ابنائھا و ابابطا و انقطع الی اللہ بالکلیۃ و اشرقت فی قلبہ الانوار القدسیۃ و اسرار الملکوتیۃ و انفتح باب الفھم لتعریفات الالھیۃ ان یلبس الخرقۃ المریدین و رشدھم الی مقامات الموقنین‘‘۔
ترجمہ : صاحب تقویٰ، پسندیدہ عالم، پروردگار عالم کی جانب متوجہ رہنے والا عزیز فرزند شمس الدین محمد بن یحیٰ نے (اللہ تعالیٰ اس کے انوار سے اہل یقین اور اصحاب تقویٰ کو مستیز کرے) جب اپنی نیت ہماری جانب درست کر لی اور ارادت کا خرقہ پہن لیا اور ہماری صحبت سے پوری طرح مستفید ہوگیا (اور میں نے یہ محسوس کیا کہ) وہ سید کائنات کی پیروی میں ثابت قدم ہے اور اپنے اوقات یادِ الٰہی میں مصروف رکھتا ہے اور نفسانی توہمات سے اپنے قلب کو محفوظ رکھتا ہے اور دنیا اور اسباب دنیا سے رخ موڑ لیا ہے اور ارباب دنیا کی جانب مائل نہیں ہوتا اور پوری طور پر اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہے اور اس کے قلب میں عالم قدس کے انوار درخشاں اور عالم ملکوت کے اسرار چمک رہے ہیں اور مغفرت الٰہیہ کا باب اس پر کھل گیا ہے تو میں نے اسے اجازت و خلافت دیدی کہ وہ مریدین کو بیعت وارادت کا خرقہ پہنائے اور انہیں اہل یقین کی راہ دکھائے۔
سلطان المشائخ نے آپ کے لیے جن وقیع احوال کا ذکر کیا ہے، ان سے طریقت و معرفت میں آپ کی علوِ شان کا اندازہ ہوتا ہے، سلطان المشائخ کے دامن سے وابستگی کے بعد شیخ اودھی پھر ان سے جدا نہیں ہوئے اور اپنی بقیہ زندگی انہیں کے زیر سایہ گذار دی، آپ کے مزاج میں بڑی سادگی تھی، تکلفات اور رسم و رواج کے بالکل پابند نہیں تھے، حتی کہ نکاح بھی نہیں کیا تھا اور پوری زندگی تجرد میں بسر کر دی، امراء و رؤسا کے دربار میں حاضری گوارا نہ تھی اور نہ تھی اور نہ اپنے پاس ان کی آمد و رفت پسند تھی، تصوف کے بلند ترین مقام پر فائز ہونے کے باوجود سجادۂ مشخیت پر بیٹھنے سے گریز کرتے تھے، اس لیے جلد کسی کو بیعت نہیں کرتے تھے، فرماتے تھے کہ اگر خلافت نامہ پر حضرت سلطان المشائخ کے دستخط نہ ہوتے تو میں اسے ہرگز اپنے پاس محفوظ نہ رکھتا، فتوح نامی ایک خادم تھا، وہی آپ کے خانگی معاملات کا منتظم تھا، آپ کے کھانے پینے کے انتظام کے علاوہ آنے جانے والوں کی تواضع و خاطر داری اسی کے سپرد تھی، خود ہر کام سے فارغ البال رہ کر درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور ذکر و مراقبہ میں مشغول رہتے تھے، سلطان محمد بن تغلق جس زمانہ میں علما و مشائخ کو دہلی سے دعوت و تبلیغ کے نام پر ملک کے دور افتادہ خطوں میں بھیج رہا تھا، اس موقع پر اس نے شیخ اودھی کو بھی طلب کیا اور کہا کہ آپ جیسے عالم و فاضل کا یہاں کیا کام آپ و تو کشمیر جا کر اشاعت دین کی سعی کرنی چاہیے اور چند لوگوں کو متعین کر دیا کہ وہ شیخ کو جلد از جلد کشمیر روانہ کر دیں، حکم سلطانی کے بموجب سامان سفر درست کرنے کے لیے شیخ گھر واپس آئے، اس وقت وہاں جو ارادت مند حاضر تھے، انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’اینہا چہ می گویند من بندگی شیخ را خواب دیدہ ام کی مرا طلبند من بخدمت خواجہ میں روم ایشاں مرا کجا می فرستادند‘‘
ترجمہ : یہ لوگ کیا بکواس کرتے ہیں، میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ مجھے بلا رہے ہیں، میں تو اپنے شیخ کے پاس جا رہا ہوں، یہ لوگ مجھے کہاں بھیجنا چاہتے ہیں۔
چنانچہ دوسرے دن شیخ کے سینہ میں ایک پھوڑا نکل آیا اور اسی عارضہ میں جان جان آفریں کے حوالہ کردی اور اپنے شیخ سلطان المشائخ کے حظیرہ میں اندرونی گنبد کے سامنے مدفون ہوئے، مولوی رحمٰن علی نے سنِ وفات ۷۴۷ھ لکھا ہے۔
شیخ اودھی کثیرالتصانیف عالم تھے، چنانچہ ان کے قریب ہم عصر میر خرد لکھتے ہیں کہ
’’چندیں تصانیف در علوم دینی از خدمت آں بزرگ در عالم یادگار ماندہ است‘‘
آزادؔ بلگرامی لکھتے ہیں کہ
’’تصانیف دار داما دریں عصر کم یافت می شود‘‘
مولانا صاحبِ تصانیف ہیں مگر اس وقت ان کی کتابیں کم یافت ہیں۔
گردش لیل و نہار نے ان کی علمی یادگاروں کو اس طرح محو کردیا ہے کہ آج ’’شمس العوارف‘‘ اور ’’شرح مشارق الانوار‘‘ کے علاوہ دیگر کتابوں کے نام کا پتہ لگانا بھی مشکل ہے، آپ کا تذکرہ سیرالاؤلیا، اخبار الاخیار، خزینۃ الاصفیا، حدائق حنفیہ تذکرہ علمائے ہند، نزہۃ الخواطر (ج؍۲) وغیرہ میں موجود ہے۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 41)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.