تذکرہ حضرت شیخ جلال الدین اودھی
دلچسپ معلومات
’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔
حضرت شیخ جلال الدین اودھی نحو، فقہ اور اصولِ فقہ کے زبردست عالم اور زہد و تقویٰ سے متصف بزرگ تھے، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اؤلیا سے بیعت و ارادت کا تعلق رکھتے تھے، حسب تصریح میر خرد، علمائے اودھ میں سب سے پہلے آپ ہی حضرت سلطان المشائح کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے تھے، اسی بنا پر تمام علمائے اودھ آپ کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے، میر خرد یہ دلچسپ واقعہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’یارانِ اودھ‘‘ جو سب کے سب عالم و فاضل تھے اور ان میں سے اکثر ایک عرصہ تک علمی اشغال میں اپنی عمر بسر کر چکے تھے، گر سلطان المشائخ سے بیعت ہو جانے کے بعد ان کے علمی مشاغل جاری نہ رہ سکے، اس لیے سب نے متفق ہو کر شیخ جلال الدین کو تیار کیا کہ سلطان المشائخ سے ہم سب کی طرف سے یہ درخواست کریں کہ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے علمی گفتگو اور بحث و تکرار کی اجازت ہو جائے، چنانچہ شیخ جلال الدین کی قیادت میں یہ سب لوگ سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے۔
شیخ جلال الدین نے حسب قرارداد مدعا پیش خدمت کیا، شیخ نے اسے سن کر فرمایا کہ
’’من چہ کنم مرا از ایشاں مطلوبے دیگراست و ایشاں، ہمچوں پیاز پوست در پوست اند‘‘
ترجمہ : میں کیا کروں میرا مقصد تو انہیں مغز بنانا ہے مگر یہ لوگ پیاز کی طرح چھلکے ہی چھلکے ہیں۔
سلطان المشائخ کے اس جواب کا اثر یہ ہوا کہ شیخ جلال الدین نے دنیا کے تمام بکھیڑوں سے یکسو ہو کر ترک و تجرید کی زندگی اختیار کر لی اور بقیہ زندگی عزلت میں گزار دی، میر خرد آخر میں لکھتے ہیں کہ چند روز بیمار رہ کر یہ فرشتہ صفت بزرگ اللہ کو پیارا ہوگیا، میرے صاحب نے تاریخ وفات کی تصریح نہیں کی ہے چونکہ خود میر خرد کی وفات ۷۷۰ھ میں ہوئی ہے، اس لیے لازمی طور پر شیخ جلال الدین کی رحلت اس سے پہلے ہوئی۔
- کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 47)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.