Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت علامہ کمال الدین اودھی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

تذکرہ حضرت علامہ کمال الدین اودھی

ڈاکٹر رضی احمد کمال

MORE BYڈاکٹر رضی احمد کمال

    دلچسپ معلومات

    ’’مختصر تاریخِ مشائخ اودھ‘‘ سے ماخوذ۔

    حضرت علامہ کمال الدین حامد بن عبدالرحمٰن بن محمد حنفی اودھی شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کے بھانجے اور اہم خلفا میں تھے، آپ کی ولادت و نشو و نما اجودھیا میں ہوئی، یہیں کے علما سے اکتساب علم کیا، بعد ازاں دہلی جا کر اپنے ماموں چراغ دہلی سے بیعت ہوئے اور سلوک و مراحل طے کرکے درجہ تکمیل و ارشاد پر فائز ہوئے، علامہ کمال الدین تمام علوم و فنون میں مہارت کا درجہ رکھتے تھے، بالخصوص فقہ، اصول فقہ، حدیث اور تفسیر میں تو یگانہ عصر تھے اور علمی حلقوں میں علامہ کے لقب سے مشہور تھے، شجرۃ الانوار میں ہے کہ

    ’’تا ابتدائے جوانی از فنون علمی بہرہ یاب گشتہ علم را مرور ایام تام و کمال ساختہ، ہیچ علمے از و باقی نماندہ بود کہ دروے کمالے بہم نرسانیدہ، و در علم تفسری و فقہ و حدیث حظے وافر داشت، درمیان علما مفسران و فقہا محدثان وغیرہ کہ در آں زمان علم علمی افراشتہ بودند، بہ علامہ شہرت یافتہ‘‘

    ترجمہ : نو عمری ہی میں علمی فنون سے بہرہ یاب ہوگیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ علمی ترقی کرتے رہے اور کوئی فن ایسا باقی نہیں بچا تھا جس میں انہوں نے کمال حاصل نہ کیا ہو، بالخصوص تفسیر فقہ اور حدیث پر کامل دستگاہ رکھتے تھے، اس عہد کے سربرآوردہ مفسرین، فقہا اور محدثین میں علامہ کے لقب سے مشہور تھے۔

    اپنے شیخ حضرت چراغ دہلی کی تجویز کے مطابق علامہ کمال نے اپنی علمی سرگرمیوں اور دعوت و ارشاد کا مرکز گجرات کو بنایا اور طویل عرصہ تک وہاں مقیم رہ کر علم و دین کی روشنی پھیلاتے رہے، اللہ تعالیٰ نے اس دیار میں انہیں بڑی مقبولیت عطا کی، ہر خاص و عام انہیں عظمت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا تھا، ۷۲۵ھ کے حدود میں بعہد فیروز شاہ پھر دہلی واپس آگیے تھے۔

    تکملہ ’’سیرالاؤلیا‘‘ میں ہے کہ جس وقت علامہ کمال الدین گجرات سے دہلی آئے تو ان کے ساتھ تیس اونٹ مال اسباب سے لدے ہوئے تھے، چراغ دہلی نے اس مال و اسباب کو دیکھ کر فرمایا، اس قدر دنیا اپنے ساتھ کیوں لاتے ہو؟ علامہ نے عرض کیا کہ راستے میں اطلاع مل گیے تھی کہ سلطان المشائخ کی رحلت ہوگئی ہے اور ان کی جگہ آپ سجادہ مشخیت پر رونق افرروز ہیں، اس لیے خیال ہوا کہ اگر خالی ہاتھ جاؤں گا تو لوگ بدگمانیوں میں مبتلا ہوں گے (ورنہ مجھے اس مال و اسباب کی کوئی ضرورت نہیں) اب میں اس سارے مال کو علما و صوفیا پر تقسیم کردوں گا، چنانچہ سارا اثاثہ اللہ کے نام پر بانٹ دیا، دہلی ہی میں ۷۵۶ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

    علامہ کمال اگر چہ خود تو دہلی آگیے تھے مگر اپنی اولاد کو گجرات ہیں میں مقیم رہنے کی ہدایت کر آئے تھے، تاکہ رشد و ہدایت کا جو سلسلہ انہوں نے قائم کیا تھا وہ چلتا رہے، چنانچہ ان کی اولاد میں برابر ایسے مرد کامل پیدا ہوتے رہے، جنہوں نے علامہ کی مسند دعوت و ارشاد کو سونی نہ ہونے دیا، علامہ کے بعد ان کے فرزند ارجمند شیخ سراج الدین نے سجادہ مشخیت کو زینت بخشی، یہ بڑے صاحبِ کمال بزرگ تھے، فیروز شاہ بہمنی ان سے خاص عقیدت رکھتا تھا، اسی بنا پر اس نے انہیں دکن آنے کی دعوت دی مگر شیخ سراج نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ’’حق تعالیٰ مرا در گجرات ہرچہ ضرورت است عطا می فرماید‘‘ (اللہ تعالیٰ کی عطا سے یہاں ساری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں (پھر دکن آنے کی کیا ضرورت ہے) ۸۱۷ھ میں آپ کا وصال ہوا۔

    اس کے بعد شیخ سراج کے صاحبزادے شیخ علم الحق مسند ارشاد پر بیٹھے ان کی نیک نفسی اور للٰہیت کا اندازہ صاحب شجرۃ الانوار کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی کفار، فاسق اور منکر خدمت میں حاضر ہوتا اور کچھ دیر بیٹھ کر آپ کی باتوں کو سنتا وہ اسی مجلس میں تائب ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو جاتا تھا۔

    شیخ علم الحق کے بعد ان کے بیٹے شیخ راجن سجادہ نشیں ہوئے، پھر علی الترتیب شیخ جمال الدین عرف جمن، شیخ حسن محمد اور شیخ یحیٰ مدنی نے مسند ارشاد کو رونق بخشی، تیر ہویں صدی ہجری کے آخر میں علامہ کمال کی خانقاہ کے صاحب سجادہ شیخ محمود تھے جو علامہ ہی کی اولاد میں سے تھے۔

    علامہ کمال الدین اودھی کے حالات کے لیے شجرۃ الانوار، خزینۃ الاصفیا، تذکرہ علمائے ہند، ہدائقہ حنفیہ، نزہۃ الخواطر (ج؍۲)، مزارات اؤلیائے دہلی،تاریخ مشائخ چشت وغیرہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : مختصر تاریخ اودھ (Pg. 51)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے