حضرت قاضی محمدود دریائی
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-89
حضرت قاضی محمود دریائی صاحبِ مقامات تھے۔
خاندانی حالات : آپ حضرت عباس ابن عبدالمطلب کے خاندان سے ہیں، حضرت عباس سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ کے چچا تھے، عباسیہ خاندان کے آپ چشم و چراغ ہیں۔
دادا و والدِماجد : آپ کے دادا قاضی محمد حضرت قطب عالم کے مرید تھے، آپ کے والد قاضی حمید حضرت شاہ عالم کے مرید تھے۔
نام : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی محمود ہے اور دادا اور والد کی نسبت سے قاضی کہلاتے ہیں یعنی قاضی محمود۔
لقب : آپ کا لقب دریائی دولہا ہے۔
لقب کی وجۂ تسمیہ : خشکی کے علاوہ پانی میں بھی آپ دستگیری فرماتے تھے، دریا اور سمندر کی خدمت بھی آپ کے سپرد تھی، جب کوئی کشتی گرداب میں پھنس جاتی اور کشتی والے عاجز ہوکر آپ کو پکارتے تھے تو آپ ان لوگوں کی دستگیری فرماتے اور پھنسی ہوئی کشتی کو گرداب سے نکال دیتے تھے، اس وجہ سے آپ دریائی دولہا کے لقب سے مشہور ہوئے۔
تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی، آپ کے والد نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی اور آپ نے جلد ہی علومِ ظاہری حاصل کرکے اپنی ذہانت کا ثبوت دیا۔
بیعت و خلافت : ایک رات آپ نے غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے یہ بہتر اور مناسب ہے کہ تم اپنے والد ماجد کے مرید ہوجاؤ، اِدھر تو آپ کو بشارت ہوئی اور اُدھر آپ کے والد کو بشارت ہوئی کہ تم اپنے لڑکے محمود کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کرو اور اپنا خرقۂ خلافت دے کر ان کو سرفراز کرو، صبح کو آپ نے اپنا خواب اپنے والد ماجد سے بیان کیا، آپ کے والد ماجد بہت متحیر ہوئے اور فرمایا کہ مجھے بھی اسی قسم کا حکم ملا ہے، حکم کی پابندی مجھ پر اور تم پر لازمی اور ضروری ہے، وفات سے قبل تم کو بیعت کروں گا اور خرقۂ خلافت دوں گا۔
ایک دن آپ کے والد ماجد نے آپ کو طلب فرمایا، آپ جب خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے لڑکے بھی ساتھ تھے، ان لڑکوں کو پہلے مرید کیا اور پھر آپ کو مرید کرکے خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور یہ فرمایا کہ
”جس کام کی فکر تھی وہ ہوگیا، میرا کام ختم ہوا“
دوسرے دن آپ کے والد ماجد کا وصال ہوگیا اور آپ ان کے سجادہ پر بیٹھے۔
حضرت شاہ عالم سے نسبت : آپ حضرت شاہ عالم کا نام نہیں لیتے تھے، ایک دن ایسا ہوا کہ آپ اور حضرت شاہ جیو اور سلطان مظفر حلیم حضرت شاہ عالم کے روضۂ مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے، کسی بات پر آپ کی زبان سے مجن نکلا، ایک شخص اس کو گستاخی سمجھا اور آپ سے کہا کہ آپ حضرت شاہ عالم کا نام کیوں نہیں لیتے، آپ نے انکساری سے جواب دیا کہ دیہاتی آدمی سے فصاحت کی امید رکھنا غلط اور پھر ان کا نام لینا بے ادبی سمجھتا ہوں اور اگر یہ میری بے ادبی ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ میری بے ادبی معاف کریں گے اور خوش ہوں گے۔
اس شخص نے نہ مانا، بات بڑھ گئی، فیصلہ کی کوئی صورت نظر نہ آئی، پھر آپ ہی نے فرمایا کہ فیصلہ کی یہ صورت ہے کہ ہم سب مزار پر پھر چلیں اور اپنے اپنے خیال کے مطابق پسندیدہ نام سے پکاریں، دیکھیں وہ کس کو جواب دیتے ہیں، جس کو جواب ملے گا وہی ان کا محبوب ہے اور ان کے دربار میں مقبول ہے، پس حضرت شیخ جیو، سلطان مظفر حلیم اور آپ مزار پر حاضر ہوئے، ان دونوں نے اپنے نظریے سے ان کو اچھے نام سے پکارا لیکن کوئی جواب نہ ملا، اب آپ کی باری آئی، آپ نے عرض کیا کہ
”منجھن میاں ! تمہارے آستانہ پر قدم بوسی کے لیے تمہارا خادم محمود آیا ہے، یہ آپ کا خادم آپ کو پکارتا ہے، مہربانی فرما کر آپ اس خادم کو جواب دے کر تسلی بخشیں“ روضہ سے آواز آئی کہ
”اے محمود! میں نے تیری آواز سنی اور تیرا سلام قبول کیا“
پھر آپ نے عرض کیا کہ
”اگر میرا سلام قبول کیا تو کچھ تبرک بھی مرحمت فرمایئے جو ہم لوگ یہاں کھائیں“ اتنے میں ایک شخص آیا اور گرم حلوہ اور روٹی لایا، سب نے گرم حلوہ اور روٹی کھائی۔
وفات : آپ کی وفات کا عجیب واقعہ ہے، عمادالملک سخت بیمار ہوا، آپ سے دعا کا طالب ہوا، آپ نے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ اس کی عمر کا پیمانہ بھر چکا ہے، ہاں، تمہاری عمر کے بارہ سال باقی ہیں، اگر تم چاہتے ہو کہ وہ اچھا ہوجائے تو تم کو چاہیے کہ اپنی عمر کے بقہ بارہ سال اس کو بخش دو، آپ نے ایسا ہی کیا، چنانچہ عمادالملک تو اچھا ہوگیا لیکن آپ بیمار ہوگئے، اسی حالت میں ایک دن قوالی ہوئی، آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی، عالمِ کیف میں آپ سجدہ میں گئے اور اسی حالت میں اپنے محبوبِ حقیقی سے جاملے، یہ واقعہ 3 ربیع الثانی 941 ہجری کا ہے، مزارِ مبارک ویرپور میں مرجع خلائق ہے۔
کشف و کرامات : آپ کی خدمت میں دو عورتیں اولاد کی تمنا لے کر حاضر ہوئیں، آپ کے ایک برتن میں گوشت کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا تھا، آپ نے اس کا کچھ حصہ ایک عورت کو دیا اور بقیہ حصہ دوسری عورت کی، ایک نے کھا لیا، دوسری نے لے جا کر دبا دیا جس نے کھایا تھا اس کے اولاد ہوئی، جس نے نہیں کھایا وہ محروم رہی، وہ عورت پھر آئی تو آپ نے اس کو سیب کا ٹکڑا مرحمت فرمایا، اس کے بھی اولاد ہوئی، جس وقت وہ عورت گوشت کا ٹکڑا زمیں پر دفن کر رہی تھی تو بھیل قوم کی ایک بھوکی پیاسی لڑکی یہ دیکھ رہی تھی، اس نے موقع پاکر وہ گوشت کا ٹکڑا نکالا اور کھا گئی، یہ بات آپ کو کشف سے معلوم ہوئی، آپ نے اس لڑکی کو بلوایا اور کہا کہ تیرے بطن سے کئی اچھے لڑکے پیدا ہوں گے پھر اس کو پانی پلا کر فرمایا کہ تیرے نیک لڑکیاں بھی ہوں گی، اس دن سے آج تک بھیل قوم میں یہ رسم ہے کہ شادی اور کاروباری معاملات کے وقت آپ کے نام کا عہد و پیمان کیا جاتا ہے، آپ کے عرس پر بھیل قوم کے مرد اور عورتیں آپ کے نام پر عہد و پیمان کرتے ہیں، آپ کے مزار پر ایک پیڑ ہے، اس میں موتی دانہ جیسے پھول آتے ہیں، وہ دانے لگانے سے آنکھ اچھی ہو جاتی ہے، آپ کی دعا سے اس نہر میں جس پر آپ وضو کیا کرتے تھے، روغن گھی نکلنا شروع ہوا، آپ نے تاکید کی تھی کہ اس روغن گھی کو اچھے کاموں میں لانا، آپ کے وصال کے بعد لوگوں نے اس روغن گھی کو فروخت کرنا شروع کیا، وہ بند ہوگیا، اب صرف آپ کے عرس کے بعد تھوڑا سا روغن گھی اس نہر میں برآمد ہوتا ہے جو زائرین لے جاتے ہیں اور اس سے چراغ روشن کرتے ہیں۔
تعلیمات : آپ نے فرمایا کہ
”مسلمانوں کو چاہیے کہ دوسری قوموں کے ساتھ نازیبا برتاؤ نہ کریں اور نہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے ان کو رنج ہو“
آپ نے فرمایا کہ
”میں ہر قوم کے واسطے دریائے کرم بن کر آیا ہوں“
آپ نے فرمایا کہ
”اے خداوند تعالیٰ! تونے مجھے آنکھیں دی ہیں، کہیں یہ میری آنکھیں تجھ سے غافل نہ ہوجائیں کہ تجھ کو دیکھ نہ سکوں“
آپ نے فرمایا کہ
”فقیر سب کے لیے ایک ہوتا ہے، وہ سب کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کے دل میں سب کے لیے جگہ ہے‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.