حضرت کبیرالدین احمد شیخ جہاں
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-94
حضرت کبیرالدین احمد شیخ جہاں قطبِ ارشاد تھے۔
خاندانی حالات : آپ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے ہیں، آپ کے دادا کا نامِ نامی اسمِ گرامی حضرت سید احمد جہاں شاہ ہے۔
والد ماجد : آپ کے پدرِ بزرگوار کا نام سید نصیرالدین محمود ہے۔
والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی نیک بخت ہے جو سید عثمان علاؤالدین حسنی زیدی المخاطب شمع برہانی کی دخترِ نیک اختر تھیں۔
ولادت : آپ پٹن میں 5 ذیعقدہ 598 ہجری کو پیدا ہوئے، ”وارثِ صاحبِ کمال“ سے آپ کی تاریخِ ولادت برآمد ہوتی ہے۔
نام : آپ کا نام کبیرالدین احمد ہے۔
لقب : آپ ”شیخِ جہاں“ کے لقب سے مشہور ہیں۔
بھائی : آپ کے چھ بھائی تھے جن کے نام یہ ہیں۔
سید شرف الدین، سید یحییٰ، سید یٰسین، سید محمد، سید شمس الدین، سید شیخ جی۔
بہنیں : آپ کے تین بہنیں تھیں۔
تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت والد ماجد کی نگرانی میں ہوئی اور پٹن کے دیگر علما سے بھی آپ نے علومِ ثقلیہ و عقلیہ حاصل کیے، فارسی اور عربی زبان میں بہت جلد دستگاہ حاصل کی۔
بیعت و خلافت : علومِ ظاہری سے فراغت پاکر آپ علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے، علومِ باطنی آپ نے اپنے والدِ ماجد سے حاصل کیے، آپ کے والدِ ماجد کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور ان سے ہی خرقۂ خلافت پایا۔
شادی و اولاد : آپ کی زوجہ محترمہ کا نام بی بی حافظہ خاتون ہے، آپ نے دوسری شادی بھی کی، آپ کے چھ لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں، لڑکوں کے نام ذیل میں دیے جاتے ہیں۔
سید محمد عرف بھیکو جی، سید عمر، سید عبداللہ، سید محمد عرف خاں جو، سید عبدالکریم، سید ابو ضیا تقی الدین۔
شہادت : آپ کی شہادت گجرات کے سلطان مظفر بہادر سویم کے عہد میں ہوئی، آپ کی رشد و ہدایت و تعلیم و تلقین گجرات کے اکابرین کو ناگوار ہوئی، یہ وہ زمانہ تھا کہ مہدوی تحریک کا زور شور تھا، گجرات کے حاکم و امرا آپ سے اور آپ کی تعلیم و تلقین سے بنیادی اختلاف رکھتے تھے، اس زمانہ میں شیر خاں فولادی پٹن کا حاکم تھا، وہ بھی مہدوی تحریک کا حامی و مددگار تھا، موقع پاکر اس نے آپ کو 9 محرم 969 ہجری کو جبکہ آپ نماز تہجد ادا کر رہے تھے، شہید کر دیا ”شیخ جہاں“ سے آپ کی تاریخِ شہادت نکلتی ہے، مزارِ پُرانوار پٹن میں ہے۔
سجادہ نشیں : آپ کے بعد آپ کے سجادہ پر آپ کے صاحبزادے حضرت سید محمد عرف خاں جو بیٹھے۔
سیرت : آپ لوگوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے، مخلوق کے اژدہام سے نہ گھبراتے تھے اور نہ لوگوں میں رہ کر اپنے اندرونی سکون و طمانیتِ خاطر میں کمی پاتے تھے، فتوحات آتیں تو ان کو تقسیم کردیتے تھے، درس وتدریس، رشد و ہدایت میں مشغول رہ کر اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھتے تھے، کلمۂ حق کو لوگوں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے تھے، نہ کسی سے ڈرتے تھے، نہ کسی سے مرعوب ہوتے تھے، مخلوق سے بے نیاز رہتے تھے، آپ کی تحریر و تقریر دونوں جادو کا سا اثر رکھتی تھیں، علمِ حدیث اور علمِ تفسیر میں بے نظیر تھے، دور دور سے طلبا آتے اور آپ کے درس سے مستفید ہوتے تھے، آپ ایک اچھے مفسر اور محدث تھے۔
علمی ذوق : آپ نے کئی کتابیں لکھیں، آپ کی مشہور کتاب ”روضۃ الانصاب“ ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”منازل الاؤلیا“ بھی آپ کی تصنیف ہے، آپ کے مورثِ اعلیٰ حضرت سید احمد جہاں شاہ نے ایک کتاب جس کا نام ہے ”روضہ الابرار در اولاد سید المختار“ عربی میں لکھی تھی، آپ نے اس کتاب کا ترجمہ فارسی میں کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.