حضرت مخدوم حسام الدین ملتانی
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-96
حضرت مخدوم حسام الدین ملتانی قطب المشائخ والفقرا، ملک الایمۃ والعلما، ملجائے اوتاد و اؤلیا، پیشوائے خلقِ خدا اور محبوبِ ملک الاحد ہیں۔
خاندانی حالات : آپ کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق سے ملتا ہے۔
والد ماجد : آپ کے پدرِ بزرگوار کا نامِ نامی اسمِ گرامی شیخ داؤد ہے۔
ولادت : آپ 639 ہجری میں ملتان میں پیدا ہوئے۔
نامِ نامی : آپ کا اسمِ مبارک شیخ عثمان ہے۔
لقب : آپ کا لقب حسام الدین اور اسی لقب سے مشہور ہیں۔
خطاب : آپ کا خطاب پروانہ ہے۔
دہلی میں آمد : آپ سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اؤلیا کا شہرہ سن کر دہلی آئے، ملتان کو خیر باد کہہ کر دہلی میں سکونت اختیار کیا۔
بیعت و خلافت : دہلی آکر آپ حضرت محبوبِ الٰہی کے حلقہ میں شامل ہوئے اور محبوبِ الٰہی کے دستِ حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے، آپ محبوبِ الٰہی کی خدمتِ بابرکت میں رہنے لگے اور محبوبِ الٰہی کی خدمت کرکے مخدوم ہوئے، جس دن محبوبِ الٰہی نے خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی اور شیخ قطب الدین منور کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا، اسی دن محبوبِ الٰہی نے آپ کو طلب فرمایا، آپ فرماتے ہیں کہ
”جب میں حضرتِ محبوبِ الٰہی کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو غایب مہابت و عظمتِ محبوبِ الٰہی سے میرا جسم کانپ رہاتھا اور پسینہ بہ رہا تھا“
آپ فرماتے ہیں کہ
”چوں خلافت نامہ و خلعتِ خاص در نظرِ مبارک سلطان المشائخ بمن دادند دریں محل عرض داشت کردم کہ مخدومِ عالمیاں در حقِ ایں بیچارہ شفقت فرمود و ایں بندہ را بدولتِ خلافت خود رسانیدہ وصیت چیست بندہ چکند“
ترجمہ : جب خلافت نامہ و خلعتِ خاص نظرِ مبارک میں سلطان المشائخ نے مجھ کو عطا فرمایا اس وقت میں نے عرض کیا کہ مخدومِ عالمیان نے اس بیچاہ کے حق میں اس قدرت شفقت فرمائی اور اس غلام کو خلافت کی دولت سے سرفراز فرمایا، حضور کی وصیت (حکم) کیا ہے، اس غلام کو کیا کرنا چاہیے۔
سلطان المشائخ کا فرمان : سلطان المشائخ نے آپ کی اس عرض داشت و التجا کے جواب میں ”دستِ مبارک خود از آستینِ مبارک خود بیروں آورہ و بعدہٗ بانگشت شہادت جانبِ مولانا ارشارت کرد کہ ترکِ دنیا ترکِ دنیا ترکِ دنیا وفرمود در کثرتِ مریداں نکوشی“
ترجمہ : اپنا دستِ مبارک اپنی آستینِ مبارک سے باہر نکالا اور پھر انگشت شہادت مولانا کی طرف کرکے فرمایا، دنیا کو ترک کرو، دنیا کو ترک کرو، دنیا کو ترک کرو۔
بعد ازاں فرمایا کہ
’’زیاہ مرید بنانے میں کوشش نہ کرنا‘‘
پھر آپ نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ
”اگر حکم ہو تو شہر میں نہیں رہوں، دریا کے کنارے سکونت اختیار کروں، شہر میں کنویں کا پانی ہے جس سے وضو کرنے سے تسلی نہیں ہوتی“
سلطان المشائخ نے فرمایا کہ
”شہر ہی میں عام لوگوں کی طرح رہو، اگر شہر سے باہر جاکر پانی کے کنارے رہو گے تو غریب اور شہری لوگوں کو جب پتہ چلے گا کہ فلاں درویش فلاں جگہ بیٹھا ہے تو وہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے اور تمہیں پریشان کریں گے، کنویں کے پانی میں علما کا اختلاف ہے اور شرعی طور پر اس میں وسعت و رخصت ہے“
پھر آپ نے سلطان المشائخ سے عرض کیا کہ
”بندہ کو جس وقت فتوح ملتی ہیں تو میں اس سے کچھ بال بچوں کو دے دیتا ہوں اور کچھ آنے جانے والوں کے لیے رکھ لیتا ہوں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی روز گزر جاتے ہیں اور کچھ نہیں آتا، اس پر بال بچے تنگ کرتے ہیں اور آنے جانے والے محروم رہتے ہیں، تو کیا میں ایسے موقع پر قرض لے لیا کروں یا نہیں“
سلطان المشائخ نے فرمایا کہ
”اگر تدبیر میں پڑ گئے تو درویشی نہ کر سکو گے، درویش وہ ہے کہ اگر اس کے پاس کچھ ہو تو خرچ کر دیتا ہے ورنہ صبر کرتا ہے اور نامرادی میں خوش رہتا ہے اور تدبیر میں نہیں پڑتا“
بعد ازاں سلطان المشائخ نے فرمایا کہ
”درویش کو ہر درے نہ ہونا چاہیے، ہر درے کی دو قسمیں ہیں، صوری اور معنوی، صوری وہ درویش ہیں جو دروازوں پر پھرتے اور مانگتے ہیں، معنوی وہ درویش ہیں جو اپنے گھر کے گوشہ میں یادِ حق میں مشغول رہتے ہیں اور دل سے سوچ لیتے ہیں کہ مجھ کو زید اور عمر سے کچھ نہ کچھ مل جائے گا، صوری ہر درے، معنوی ہر درے سے بہتر ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اسی طرح ظاہر کر دیتا ہے جیسا کہ وہ ہوتا ہے مگر معنوی ہر درے خود کو مشغولِ حق ظاہر کرتا ہے اور اس کا باطن در بدر پھرتا رہتا ہے“
واپسی و روانگی : آپ جب زیارتِ حرمین شریف سے مشرف ہو کر واپس دہلی آئے تو اس روز جمعہ تھا، آپ نے خیال کہ نماز سے فارغ ہوکر اپنے پیر و مرشد سلطان المشائخ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں گا، آپ کیلو کہری جامع مسجد میں آئے اور ایک گوشہ میں بیٹھ گئے، حضرت محبوب الٰہی کو بنورِ باطن معلوم ہوگیا کہ آپ مسجد میں موجود ہیں، حضرت محبوبِ الٰہی نے خواجہ ابوبکر مصلیٰ دار سے فرمایا کہ
”جاؤ! مولانا حسام الدین اس وقت خانۂ کعبہ سے یہاں پہنچے ہیں اور اس مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے ہیں، ان کو لے لاؤ“
خواجہ ابوبکر مصلی دار نے آپ کو تلاش کیا تو مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا پایا، انہوں نے ان سے کہا کہ آپ کو سلطان المشائخ طلب فرماتے ہیں، آپ فوراً سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر قدم بوس ہوئے اور حضرت محبوبِ الٰہی کی محبت و شفقت سے مستفید ہوئے، اس کے بعد سلطان المشائخ نے اثنا گفتگو فرمایا کہ جو شخص خانۂ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوا اس کو چاہیے کہ سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ کی مزارِ اقدس کی زیارت کی نیت علیٰحدہ کرے اور جائے تاکہ وہ زیارتِ خاص حضرت رسالت کا مستوجب ہو اور زیارت طفیلی نہ ہو (حج کے طفیل میں نہ ہو) آپ نے یہ سنا تو فوراً خیال آیا کہ الہامِ ربانی کے ذریعہ سلطان المشائخ یہ فرمان پہنچا رہے ہیں، آپ نے فوراً مصمم ارادہ کیا کہ مدینۂ منورہ حاضر ہوں گا اور بغرضِ زیارتِ سرورِ عالم مدینہ روانہ ہوئے اور زیارت سے مشرف ہو کر واپس آئے۔
ایک دن کا واقعہ : سلطان المشائخ کا یہ طریقہ تھا کہ جب کوئی اودھ سے آتا تھا تو حضرت اس شخص کو پہلے قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر حاضر ہونے کا حکم فرماتے تھے اور پھر اپنی قدم بوسی کا شرف عطا فرماتے تھے، مولانا علاؤالدین نیلی چشتی اور مولانا شمس الدین یحییٰ ساتھ ساتھ اودھ سے دہلی آئے، فرمانِ عالی کے مطابق آپ دونوں قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوئے، واپسی پر شہر آئے اور کچھ لوگوں سے ملے، ان دونوں حضرات کو خیال آیا کہ آپ مولانا حسام الدین ملتانی سے ملتے چلیں، چنانچہ آپ کے درِ دولت پر گئے لیکن اتفاق سے آپ گھر پر تشریف نہ رکھتے تھے، ان دونوں حضرات نے آپ کا انتظار کیا، تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آپ آتے دیکھائی دیے، آپ کے ایک ہاتھ میں ایک کپڑا تھا جس میں کھچڑی بندھی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں لکڑیاں تھیں، آپ دونوں نے چاہا کہ کھچڑی کی پوٹلی اور لکڑیاں ان کے ہاتھ سے لے لیں لیکن آپ نے اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ
”بوجھ اٹھانا میرا حق ہے“
آپ ایک پُرانا بوریا لائے، وہ دونوں اس پُرانے بوریے میں بیٹھ گئے، مولانا شمس الدین یحییٰ نے ایک پائجامہ اور مولانا علاؤالدین نیلی چشتی نے ایک چاندی کا سکہ پیش کیا بعدہٗ گفتگو میں مشغول ہوگئے، چاشت کا وقت ہوا، چاشت کی نماز سے فارغ ہوکر آپ نے کچھڑی لاکر رکھی اور اس میں کچھ گھی ملایا، وہ دونوں حضرات جب رخصت ہونے لگے تو آپ نے چاندی کا وہ سکہ جو مولانا علاؤالدین نیلی چشتی نے پیش کیا، مولانا شمس الدین یحییٰ کے سامنے رکھ دیا اور وہ پائجامہ جو مولانا شمس الدین یحییٰ نے پیش کیا تھا وہ مولانا علاؤالدین نیلی چشتی کے سامنے رکھ دیا اور قبول نہ کرنے کی معذرت چاہی، وہ دونوں حضرات جب سلطان المشائخ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، سلطان المشائخ نے سب حال دریافت فرمایا اور کیفیت زیارت و ملاقات یارانِ شہر کے متعلق بھی پوچھا۔ ان دونوں حضرات نے سب حال اور آپ (حضرت مولانا حسام الدین) سے ملاقات کا حال پوری تفصیل سے بیان کیا۔
سلطان المشائخ نے جب آپ کے متعلق سنا تو چشمِ مبارک میں آنسو آگئے، سلطان المشائخ نے اپنے خادم اقبال کو بلایا اور حکم دیا کہ کچھ تنکے اور جامہ لاؤ، خادم نے حکم کی تعمیل کی پھر سلطان المشائخ نے وہ مصلیٰ جس پر حضرت خود بیٹھے ہوئے تھے، اس کو بھی جامہ و سیم کے پاس رکھا اور خواجہ رضی کو طلب فرما کر حکم دیا کہ بہت جلد یہ مصلی، جامہ اور سیم مولانا حسام الدین کو لے جا کر دو، خواجہ رضی یہ نعمتِ بیکراں اور خلعتِ فراواں لے کر آپ کی خدمت میں آئے، آپ نے خواجہ رضی سے پوچھا کہ
”ایں مرحمتِ در حقِ من از کجا است کہ ایں محل ندارم“
ترجمہ : یہ الطاف و کرم مجھ پر کہاں سے ہے کہ میں اس کا محل نہیں رکھتا ہوں۔
خواجہ رضی نے جواب دیا کہ ”من نمی دانم و ما عَلیَ الرّسولِ الّا البَلاَ غُ“ (مجھ کو نہیں معلوم اور نہیں ہے پیغامبر پر مگر پہنچانا)
پھر آپ نے دریافت کیا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ جب سلطان المشائخ نے یہ نعمت عطا فرمائی تو اس وقت ان کی خدمت میں کون کون لوگ تھے، خواجہ رضی نے جواب دیا کہ ”مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا علاؤالدین نیلی چشتی اور دیگر عزیزان“ یہ سن کر آپ سمجھ گئے کہ ان ہی دونوں بزرگوں سے سلطان المشائخ کو ملاقات کا سارا حال سنایا ہے، آپ نے خواجہ رضی سے کہا کہ
”یہ عزیز درویشوں کے حال کے تجسس میں آتے ہیں، یہ بزرگ لوگ فقیروں کے حال کی تجسس کیوں کرتے ہیں“ آپ جب سلطان المشائخ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو ان سے اس بات کی شکایت کی اور کہا کہ
”شما چہ کردید۔ من کدام کس باشم کہ ذکرِ من بخدمتِ سلطان المشائخ کنید، مارا واجب است کہ در سرِّ حالِ یک دیگر کوشیم، ہزار ہمچو من بندۂ ایں درگاہ اند کہ ہیچ کسے از حالِ ایشاں معلوم ندارد و آنکہ سلطان المشائخ مکاشتِ عالم است آں حکمے دیگر است، شیخ سعدی خوش گوید۔ بیت۔
تاچہ مرغم کم حایتِ پیشِ عنقا کردہ اند
تاچہ مورم کم سخن پیشِ سلیماں کردہ اند“
ترجمہ : تم نے کیا کیا، میں کون اور کیا ہوں کہ میرا ذکر سلطان المشائخ کی خدمت میں کرتے ہو، ہم کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے حال کو چھپانے کی کوشش کریں، مجھ جیسے ہزاع اس درگاہ کے غلام ہیں کہ کسی کو ان کے حال کا پتہ نہیں، سلطان المشائخ تو مکاشفِ عالم ہیں۔
ان بزرگوں نے آپ سے کہا کہ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سلطان المشائخ نے دریافت فرمایا کہ کہ کس کس سے ملے اور ملاقات کیسی رہی، ہم سے یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ عزیزوں سے ملاقات کی کیفیت کو سلطان المشائخ سے پوشیدہ رکھیں، پس بضرورت ایسا کہا گیا، ہم کو معذور رکھیے۔
پیر و مرشد کی نصیحت : ایک دن سلطان المشائخ کے دربار میں خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی، آپ (مولانا حسام الدین ملتانی)، مولانا جمال الدین نصرت خانی اور مولانا شرف الدین حاضر تھے، سلطان المشائخ نے آپ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ
”اگر کوئی دن کو روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے تو وہ بیوہ عورت کا کام کرتا ہے، اتنا کام تو ہر بیوہ عورت کرسکتی ہے مگر وہ مشغولی جو بندگانِ خدا تعالیٰ کرتے ہیں اور جس کے سبب خدا تعالیٰ تک پہنچتے ہیں، وہ مشغولی اس کے علاوہ ہے“
اتنا فرما کر سلطان المشائخ خاموش ہو گئے اور فرمایا کہ آئندہ کبھی بتاؤں گا، سب کو انتظار تھا لیکن سلطان المشائخ نے اس باب میں کوئی گفتگو نہ کی، یہاں تک کہ چھ مہینے گزر گئے، چھ ماہ گزرنے کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ وہی سب عزیز حاضرِ دربار تھے، اتنے میں محمد کاتب آیا، وہ سلطان المشائخ کا مرید تھا اور سلطان علاؤالدین کا چوبدار تھا، سلطان المشائخ نے دریافت فرمایا کہ کہاں تھے، اس نے عرض کیا کہ
”سرائے میں تھا، آج سلطان علاؤالدین نے پچاس ہزار ٹنکہ بندگانِ خدا کو تقسیم کیے ہیں“ یہ سن کر سلطان المشائخ نے آپ (مولانا حسام الدین) کی طرف یکھ کر فرمایا کہ
”انعامِ سلطان بہتر ہے یا وفائے وعدہ جو تمہارے ساتھ کیا گیا ہے“
حاضرین نے ایک زبان ہوکر مؤدبانہ عرض کیا کہ ”حضور! وفائے وعدہ“
سلطان المشائخ نے فرمایا کہ ”سالکوں کی مشغولی کی بنیاد چھ چیزوں پر ہے‘‘
اول : خلوت چاہیے کہ ازالۂ شامت و قبض و طلبِ خواہش کے لیے خلوت سے باہر نہ آئے۔
دوسرے : وضو چاہیے کہ ہمیشہ با وضو رہے مگر جس وقت نیند غالب ہو تو فی الفور ہوکر اٹھے اور اسی وقت وضو کرے۔
تیسرے : ہمدیہ روزہ رکھے۔
چوتھے : غیرِ حق کے ذکر سے ہمیشہ خاموش رہے۔
پانچویں : شیخ سے اپنے ربطِ دل کے ساتھ دوامِ ذکر اور تعلق قلبِ مرید بالشیخ سے یہی عبادت ہے۔
چھٹے : خواطرِ غیرِ حق کی نفی۔
عظمت و بزرگی : سلطان المشائخ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ ”شہرِ دہلی در حمایت اوست“ (شہر دہلی ان کی حمایت میں ہے)
حضرت محی الدین کاشانی کا خواب : قاضی محی الدین کاشانی نے ایک خواب دیکھا اور آپ نے اپنا خواب سلطان المشائخ کی خدمت میں بیان کیا، آپ نے دیکھا کہ سلطان المشائخ سوار ہیں اور بارہ حضرت کے غلام حضرت کے برابر سوار ہیں اور کہیں جاتے ہیں اور ان میں سے ایک مولانا حسام الدین ملتانی ہیں، یہ خواب سن کر سلطان المشائخ نے فرمایا کہ شیوخ شیوخ العالم فریدالحق والدین قدس اللہ سرہٗ العزیز کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ بابا شیخ شیوخ العالم کشتی میں چھ پرستاروں کے ساتھ سوار ہیں اور ان میں سے ایک یہ ضعیف (محبوبِ الٰہی خود) بھی تھا، سلطان المشائخ اپنی مثال ان کی حکایت میں لائے، اس سے آپ کی بزرگی اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔
گذارش : ایک دن آپ نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ
”مخدوم! خلق کرامت طلب کرتی ہے“
حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ
”الکرامۃ ھِیَ الاِستقامۃ علی بابِ الغیبِ‘‘(کرامت استقامت ہے دروازۂ خدا پر تم اپنے کام میں مستقیم رہو)
پٹن میں آمد : آپ اپنے پیر و مرشد حضرت محبوبِ الٰہی کے حکم سے گجرات آئے اور پٹن میں قیام فرمایا، ایک مسجد میں مقیم ہوئے، پٹن میں آپ رشد و ہدایت فرماتے تھے اور بقیہ زندگی وہاں ہی گزاری، سلطان المشائخ نے آپ سے فرمایا کہ
”حسام الدین! تم گجرات کے صاحبِ ولایت ہو“
روزی : آپ کپڑا فروخت کرتے تھے، آپ کا یہ دستور تھا کہ کسی سوداگر سے کپڑے کا تھان لیتے اور بازار لے جاتے، خریدار سے فرماتے کہ تھان اتنے گز کا ہے، لمبائی یہ ہے، چوڑائی یہ ہے، تھان پر دو گز کا نفع خریدار سے کہہ کر لیتے تھے۔
سیرت : آپ علم و تقویٰ و ورع و زہد میں اپنی مثال آپ تھے، علم و فضل میں بے نظیر تھے، فقہ میں ”ہدایہ“ کی دونوں جلدیں آپ کو ازبر یاد تھیں اور علمِ سلوک میں ”قوت القلوب“ اور ”احیاؤالعلوم“ حفظ تھیں، رات کو جاگتے تھے اور دن میں روزہ رکھتے تھے، اپنے حال کو چھپاتے تھے، زندگی میں سادگی تھی، ایک تہمد اور چادر پاس رکھتے تھے، سرپر ٹوپی ہوتی تھی اور ٹوپی پر رسی کا فتیلہ بندھا ہوتا تھا، شام کو جب افطار کرتے تو دو روٹیاں پکاتے، ایک خود کھاتے اور دوسری کسی بھوکے کو دے دیتے تھے، عاجزی و انکساری کا یہ حال تھا کہ ایک دن آپ جا رہے تھے کہ آپ کے کاندھے سے مصلی گر گیا، آپ کو خبر نہ ہوئی، آپ آگے نکل گئے، ایک شخص نے آواز دی ”شیخ! تمہارا مصلی گر گیا ہے“
آپ متوجہ نہ ہوئے، اس شخص نے کئی مرتبہ شیخ شیخ کہہ کر پکارا، آپ نہیں رکے، آخر کار وہ شخص زمین سے مصلی اٹھا کر آپ کے پاس تیزی سے پہنچا اور کہا کہ میں نے کئی مرتبہ آواز دی کہ شیخ تمہارا مصلیٰ گر گیا ہے لیکن آپ نے نہیں سنا، یہ سن کر آپ نے جواب دیا۔
”اے عزیز من! شیخ نہ ام و خود را دریں مرتبہ نمی دانم“
(اے میرے عزیز! میں شیخ نہیں ہوں اور خود کو اس مرتبہ میں نہیں رکھتا ہوں) آپ شہرت پسند نہیں فرماتے تھے۔
کرامات : آپ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آپ فجر کی نماز دہلی جاکر پڑھتے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عشا کی نماز دہلی میں ادا کرتے تھے، بہر حال! وقت کچھ بھی لیکن آپ دہلی روزانہ جاتے تھے، ایک مرتبہ چند لوگ پٹن سے سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلطان المشائخ کے مرید بننے کی آرزو کی، سلطان المشائخ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ ”تمہارا پیر تو گجرات میں ہے، کیا تم مولانا حسام الدین کو نہیں جانتے، وہ آتے ہوں گے“
اتنے میں مولانا حسام الدین سلطان المشائخ کی خدمت میں عشا کے وقت حاضر ہوئے اور پٹن کے ان لوگوں کو سلطان المشائخ کے حکم سے مرید کیا، ایک شخص سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی لڑکی کی شادی پٹن میں ہے، تاریخ اتنی قریب ہے اور پٹن دور ہے، اس کم مدت میں وہاں کیسے پہنچے، سلطان المشائخ نے اس شخص کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، حسام الدین روزانہ آتے ہیں، وہ پٹن میں رہتے ہیں، تم کو ان کے ساتھ کردیں گے، چنانچہ دوسرے دن آپ کے ساتھ اس شخص کو کردیا اور وہ پٹن پہنچ گیا۔
آپ پٹن میں جس مسجد میں رہتے تھے، اس کے قریب ایک بت خانہ تھا، وہاں کا مہنت آپ سے بغض رکھتا تھا، آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتا تھا، ایک دن بات بڑھ گئی، اس مہنت نے آپ سے کہا کہ تم میں اگر کوئی کرامت ہو تو ظاہر کرو، ورنہ تم کو وہاں نہ رہنے دیں گے، آپ نے فرمایا کہ پہلے تم اپنی کرامت دکھاؤ، مہنت پتھر کی چوکی پر بیٹھ کر ہوا میں اڑنے لگا، آپ نے اپنی کھڑاؤ کو حکم دیا کہ ہوا میں اڑیں، کھڑاویں ہوا میں اڑیں اور مہنت کے سر پر پہنچ گئیں پھر آپ نے فرمایا کہ
”بزن او را بزنی بیند از“ چنانچہ کھڑاؤ نے اس کو زمین پر لا گرایا، آپ کی یہ کرامت دیکھ کر سب متعجب ہوئے اور آپ کے معتقد ہوئے۔
وفات : 725 ہجری میں آپ نے وصال فرمایا، آپ کا مزارِ مبارک پٹن میں حاجت روائے خلق ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.