حضرت مخدوم محمود دریا نوش
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-97
حضرت مخدوم محمود دریا نوش عشقِ الٰہی میں مدہوش تھے۔
خاندانی حالات : آپ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے خاندان سے ہیں، آپ کے دادا حضرت سید نصیرالدین محمود حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے صاحبزادے تھے۔
والدِ ماجد : آپ کے والد ماجد حضرت برہان الدین قطبِ عالم ایک ممتاز و مشہور بزرگ تھے۔
ولادت : آپ 809 ہجری میں پٹن میں پیدا ہوئے۔
نام : آپ کا نام شیخ محمود ہے۔
لقب : آپ کا لقب دریا نوش ہے۔
تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والدِ بزرگوار کی نگرانی میں ہوئی، علومِ ظاہری کی تکمیل علاوہ والدِ ماجد کے دیگر علمائے عصر سے بھی کی۔
بچپن کی کرامت : آپ کے والد حضرت قطبِ عالم کا یہ ورد تھا کہ عشا کی نماز سے فارغ ہوکر ایک لکڑی کے تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور یا حیُّ یا قیّوم پڑھنا شروع کر دیتے تھے، پڑھتے پڑھتے بقوتِ باطنی آپ کعبہ شریف کی زیارت کر لیتے تھے، کعبہ شریف میں ایک فقیر رہتا تھا، وہ حضرت قطبِ عالم سے ملا اور آپ سے کہا کہ آپ جو کچھ کھائیں مجھے بھی دیجیے، حضرت قطب عالم نے منظور کیا، آپ کے سامنے جب کھانا خادم نے پیش کیا تو آپ سوچ بچار میں پڑ گئے، کھانا رکھا تھا لیکن آپ نے نہیں کھایا، آپ کا خادم جس کے سپرد آپ کو کھانا کھلانے کی خدمت تھی، کھڑا یہ دیکھ رہا تھا، آخر اس سے نہ رہا گیا اور اس نے حضرت قطبِ عالم سے کہا کہ آپ تو کھانا شروع کیجیے، اس فقیر کو بھی پہنچ جائے گا، یہ کہہ وہ دور روٹی لایا، ایک حضرت قطبِ عالم کو پیش کی اور دوسری روٹی اپنی قوتِ باطنی سے اس فقیر کو مکہ معظمہ پہنچا دی، حضرت قطبِ عالم جب پھر قوتِ باطنی سے خانۂ کعبہ پہنچے تو اس فقیر نے اطمینان ظاہر کیا اور اس کو کھانا مل گیا تھا، حضرت قطبِ عالم نے اس اپنے پرانے خادم کو طلب فرمایا اور دریافت فرمایا کہ اس نے اس فقیر کو خانۂ کعبہ کس طرح کھانا پہنچایا، اس خادم نے آپ سے عرض کیا کہ یہ سب کچھ حضرت کی صحبت اور حضرت کی محبت کا نتیجہ ہے، حضرت کی خدمت میں یہ عظمت حاصل ہوئی اور وہ اس طرح کہ حضرت کے صاحبزادے حضرت شاہ محمود ایک دن بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پی رہے تھے، اتفاق سے دودھ کی دو بوندیں چادر پر گر پڑی تھیں، اس چار کو دھویا اور وہ پانی پی لیا، تب سے یہ درجہ حاصل ہوا۔
بیعت و خلافت : آپ اپنے والدِ بزرگوار کے مرید ہیں اور آپ نے اپنے والدِ ماجد سے خرقۂ خلافت پایا، یہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا خرقہ تھا جو حضرت شاہ نصیرالدین محمود نے حضرت قطب عالم کو عطا فرمایا تھا اور حضرت قطبِ عالم نے پھر وہ خرقہ آپ کو دیا، یہ خرقہ خراسان کے ایک سودا گر نے اسی (80) ہزار اشرفیاں دے کر خریدا تھا، اس سودا گر سے حضرت نصیرالدین نے یہ خرقہ حاصل کیا تھا۔
حضرت قطبِ عالم کی بشارت : ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت مخدوم عالم کے مزرِ پُرانوار پر عوام و خواص کا مجمع تھا، آپ بھی موجود تھے سب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہاں گاؤں بسا کر اس کا نام قطب آباد رکھا جائے، آپ نے فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ حضرت قطب عالم کی روحِ پرفتوح سے اس معاملہ کو رجوع کیا جائے پھر جیسا حکم ہو ویساہی کیا جائے، آپ نے معروضہ پیش کیا تو حضرت قطبِ عالم نے حکم دیا کہ وہاں ان کے آنے سے قبل ایک گڈریا رہتا تھا اور بکریوں کو چرایا کرتا تھا، اس گڈریے کا نام وٹوہ تھا، لہٰذا اس جگہ کا نام قطب آباد نہ رکھا جائے بلکہ اس گڈریے کے نام پر رکھنا مناسب ہوگا چنانچہ یہی نام رکھا گیا جو بعد میں بٹوہ کے نام سے مشہور ہوا۔
وفات : آپ 884 ہجری واصلِ بحق ہوئے، مزار بٹوہ میں ہے۔
علوئے مرتبت : آپ کے والدِ ماجد کو ”بھائی محمود“ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور کبھی ان کو بزرگ کے لقب سے پکارتے تھے۔
سیرت : آپ صاحبِ اولاد تھے لیکن زیادہ وقت تنہائی میں گزارتے تھے، اپنے والدِ ماجد کے نقشِ قدم پر چلتے تھے، آپ کا لنگر عام تھا، سخاوت مشہور تھی، اپنے سلسلے والوں کا بہت خیال رکھتے تھے، جو نعمت آپ کو اپنے والدِ ماجد سے ملی اس پر فخر کرتے تھے اور خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ جس نے آپ کو نوازا۔
راز و نیاز کی باتیں : آپ کے والدِ بزرگوار آپ کو اسرارِ معرفت سے بھی آگاہ کیا کرتے تھے اور رموزِ معرفت سے آپ کو مطلع فرمایا کرتے تھے، ایک دن ایسا ہوا کہ ذکر کرتے کرتے آپ کے والد ماجد پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوئی، اسی حالت میں آنسو بہنے لگے، انہوں نے آپ (شاہ محمود) کو بتایا کہ یہ قطرے معمولی نہیں ہیں، عشقِ الٰہی کے قطرے ہیں، زمین پر نہ گرنے چاہئیں، جو لوگ موجود ہیں ان کی آنکھوں میں یہ قطرے ڈالو، چنانچہ آپ نے وہ قطرے ہاتھ میں لیے اور حکم کے مطابق حاضرین کی آنکھوں میں ڈالے۔
شانِ بزرگی : آپ کی بزرگی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شاہ عالم پر جو آپ کے بھائی تھے کیفیت طاری ہوئی، آپ کے والد ماجد نے یہ دیکھ کر ان سے کہا کہ
”عجیب بات ہے، تم ایک بوند بھی ہضم نہ کرسکے، بزرگ محمود کو تو دیکھو کہ جس کو ہم نے عشقِ الٰہی کی شراب کے جام کے جام پلا دیے اور انہوں نے اُف بھی نہ کی اور سب ہضم کر لیے اور مزید درخواست کی اور تم ہو کہ ایک بوند پی کر از خود رفتہ ہوگئے‘‘
پھر انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
بہ جامِ ہر کسے ہرگز شرابِ عشق کے گنجد
خوشا رندے کہ خوب خم نوشد و ناز و نے زبوئے
آپ کی بزرگی کے خوص و عوام سب معترف تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.