Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت بابا غور رفاعی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت بابا غور رفاعی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب - 7

    حضرت بابا غور صاحبِ الکرامات تھے۔

    نام : آپ کا نام مبارک میدی نبی تھا۔

    لقب : آپ کا لقب بابا غور ہے اور اسی لقب سے آپ مشہور ہیں۔

    ملازمت : آپ محمد غوری کی فوج میں ملازمت تھے، ملازمت کے باوجود اللہ کی یاد سے غافل نہ رہتے تھے، عبادات اور ریاضت میں کوئی کمی نہ کرتے تھے، جب سلطان محمد غوری کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے آپ کو ملازمت کے فرائض سے سبکدوش کردیا تا کہ آپ یادِ الٰہی میں اپنا پورا وقت گذاریں، آپ کو نہایت عزت و احترام سے رخصت کیا۔

    حرمین شریف کی زیارت : ملازمت سے سبکدش ہوکر آپ حج کرنے کی غرض سے مکۂ معظمہ پہنچے اور وہاں حج کا فریضہ ادا کیا، آپ نے کئی حج کئے۔

    بیعت و خلافت : مکہ معظمہ سے آپ مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں دربار رسالت میں حاضر ہوئے اپنی عقیدت اور نیاز مندی کے پھول پیش کئے، مکہ کے قیام کے دوران آپ حضرت اسمٰعیل جبروتی احمدیہ رفاعیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور ان سے خرقۂ خلافت پاکر صاحبِ اجازت ہوئے۔

    مدینہ منورہ میں آپ نے بابا قبند سے روحانی فیوض و برکات حاصل کئے، وہ مجذوبیعہ اویسہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے، اس سلسلہ میں سینگ پھونکنے اور خامنہ پر ملنے کا عام رواج ہے، بابا قبند نے روحانی دولت بابا اقبال سے حاصل کی تھی، بابا اقبال ذکی مجذوب تھے۔

    روحانی فیوض : آپ نسبتِ اویسیہ سے ممتاز تھے، حضرت اویس قرنی سے آپ نے روحانی فیض پایا، غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے بھی آپ کو روحانی فیض پہنچا، حضرت سید احمد کبیر رفاعی کے روحانی فیوض و برکات سے بھی آپ مستفید ہوئے، آپ بہت سے درویشوں سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ملے اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔

    شجرہ : آپ کا شجرہ 28 واسطوں سے سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے اور چودہ واسطوں سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی تک پہنچتا ہے۔ شجرہ حسبِ ذیل ہے : سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہٗ، حضرت خواجہ حسن بصری، حضرت حبیب عجمی، حضرت معروف کرخی، حضرت سری سقطی، حضرت جنید بغدادی، حضرت ابوبکر شبلی، حضرت شیخ علی عجمی، شیخ علی البازی، شیخ ابوالفضل بن قاسم، حضرت محی الدین ابراہیم، حضرت شمس الدین، حضرت سید قطب الدین ابی، حضرت نجم الدین اخ زر، حضرت سید احمد، حضرت تاج الدین، حضرت حسن رفاعی، حضرت سید شریف محمد حسن رفاعی، حضرت شیخ برہان علوی، حضرت مولانا اسماعیل جبروتی رفاعی، بابا غور۔

    بشارت اور ہندوستان کو روانگی : حضرت غوث الاعظم اور حضرت سید احمد کبیر رفاعی نے آپ کو ہندوستان جانے کی بشارت دی لیکن یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان میں کس جگہ جائیں، بہر حال ! آپ نے ہندوستان کا ارادہ کر لیا، آپ نے اپنے پیرومرشد حضرت سید اسماعیل جبروتی احمدیہ رفاعی سے ہندوستان جانے کی اجازت چاہی، انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔

    سرورِ عالم کا فرمان : مکمہ معظمہ سے آپ مدینہ منورہ آئے اور دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور بعد عجز و نیاز آداب بجا لائے، آپ پر غنودگی طاری ہوئی، خواب میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے، سرورِ عالم نے آپ کو حکم دیا کہ

    ”تم یہاں سے ہندوستان جاؤ اور گجرات میں قیام کرو، وہاں ایک دیو ہے جو جادو گرنی ہے اس پر قابو پاؤ اور وہاں رشد و ہدایت کا کام انجام دو“

    روانگی : صبح ہوتے ہی آپ اپنے وطن روانہ ہوئے، سو مرید آپ کے ساتھ تھے، وطن پہنچ کر اور سب سے رخصت ہوکر آپ ہندوستان روانہ ہوئے، سمرقند پہنچ کر کچھ دن قیام کیا پھر بخارا ہوتے ہوئے پنجاب داخل ہوئے سلطان شہاب الدین غوری سے ملے، سلطان شہاب الدین نے آپ کی ہر طرح سے ہمت افزائی کی اور ایک لشکر آپ کے ساتھ کیا، پنجاب سے آپ گجرات روانہ ہوئے اور رتن پور پہنچ کر وہاں قیام کیا، آپ کے ساتھ مریدوں اور لشکر کے علاوہ آپ کی بہن بی بی مصرا بھی تھیں اور بابا حبش اور بابا رہن بھی تھے۔

    پیغام : رتن پور میں پہنچ کر آپ نے اپنی بہن اور بابا حبش کو اس دیوی کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ صلح لڑائی سے بہتر ہے، اسلام میں داخل ہونا بہتر ہے اور جادو اور بت پرستی سے آخر حل لڑائی ہے۔

    جواب : دیوی نے سخت جواب دیا اور آپ کی پیش کش رد کردی۔

    لڑائی : آپ نے پہاڑی پر حملہ کر دیا، لڑائی شروع ہوئی، آپ کو فتح حاصل ہوئی، کہا جاتا ہے کہ دیوی کو ڈبو دیا۔

    وفات : سو سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی، مزار رتن پور میں ہے۔

    خلیفہ : آپ نے اپنی وفات سے قبل اپنے بھائی حضرت بابا حیران کو بھڑوچ روانہ کیا اوریہ تاکید فرمائی کہ وہ بھڑوچ میں رہ کر رشد و ہدایت و تبلیغ کریں۔

    حضرت بابا حبش خان غازی آپ کے خلیفۂ اول ہیں، حضرت بابا حبش خان غازی کے بعد اس سلسلہ کے ممتاز بزرگ و خلیفہ شیخ بابا سعید رومی، شیخ مجذوب، شیخ عبدالرحیم سمرقندی، حضرت فیض اللہ، ابراہیم مدنی اور سید احمد ہوئے۔

    سیرت : آپ زہدوتقویٰ کے لئے مشہور تھے، متقی، پرہیزگار، بہادر اور بے باک تھے، مجاہدانہ زندگی تھی، کئی حج کئے، ایثار پسند تھے۔

    کرامات : آسیب زدہ آپ کے مزار پر جاتے ہیں اور شفاپاتے ہیں، وہاں پانی نہیں تھا، آپ نے اس جگہ جہاں چشمہ ہے اپنی انگلی رکھی اور بسم اللہ پڑحی، چشمہ جاری ہوگیا، حاجت برادی کے لئے لوگ ناریل لے جاتے ہیں، اگر مراد پوری ہوگی تو ناریل زیادہ نکلیں گے، اگر دو ہوں گے تو تین نکلیں گے، چور جب آپ کے مزار پر لایا جاتا ہے تو وحشت اس پر غالب ہوتی ہے اور اگر اس نے چوری کی ہے تو وہ قبول لیتا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے